مارگلہ کے کوہستانی سلسلے پربادل ہیں۔بارش تھم بھی جائے تو ہوا ان دنوں خوشگوار ہے۔ کیا خوبصورت شہر تھا جسے ہوس پرست سیاست دانوں اور بے ضمیر بیورو کریسی نے برباد کرکے رکھ دیا۔ حافظ شیرازی نے محبوبہ سے التماس کی تھی۔ ع
زلف بر باد منہ تا نہ کنی بربادم
زلف ہوا کے دوش پر نہ اڑا۔ میں برباد ہوجائوں گا۔
یہاں تو ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ زلف بھی نہ اڑی اور بربادی بھی ہوگئی۔ ایوب خان کے زمانے میں صدر مقام کراچی سے شمال کو منتقل ہوا تو کسی دل جلے نے کہا ۔ سمندر بھی اٹھا کے لے جائو !آج کے اقتدار کے بس میں ہوتا تواسلام آباد سے مارگلہ اور بادل تک چھین لیتے۔ نااہلی، انتہا کی نااہلی، کوتاہ اندیشی ، وژن کی کمی اور ابتذال کے لیے معذرت، دھنیا پی کر سوجانے کی لت ! عمران خان الیکشن کمیشن کو رو رہے ہیں۔ صاحب! الیکشن کمیشن کا ارتقا، ارتفاع اور نظافت تو دور کی بات ہے بہت دور کی بات ! جن ارباب اختیار سے اپنے وزیراعظم کے پسندیدہ شہر کی طرف جانے والا راستہ آوارہ مویشیوں سے صاف نہ ہوسکے ، وہ ارفع اداروں کو کیا خاک اجالیں گے ! وزیراعظم کے پسندیدہ شہر کا ذکر ایک اور شہر آشوب کا متقاضی ہے۔ وزیراعظم آئے دن مری کا رخ کرتے ہیں لیکن یہ نہ ہوسکا کہ اس سابق پہاڑی صحت افزا مقام کو منصوبہ بندی کے ذریعے زوال سے بچانے کا حیلہ کریں ! سابق صحت افزا مقام !! جی ہاں ! اس لیے کہ اب یہاں سیمنٹ،سریے اور اینٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ انسانوں کو کھانے والے دیو آکر نعرہ لگاتے تھے آدم بو، آدم بو، زمین ہڑپ کرنے والے دیو کوہستان مری کا رخ کرتے ہیں تو ان کی بھوک… جوع الارض… اور تیز ہوجاتی ہے۔ جس معاشرے میں عزت، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے بجائے ٹھیکیداروں کو منتقل ہوجائے، اس میں ٹھیکیداروں کو کون روک سکتا ہے۔ جمال احسانی مرحوم نے کیا خوب استعجاب کیا تھا ؎
جہاں بدلنے کا وہ بھی گمان ر کھتے ہیں
جو گھر کے نقشے میں پہلے دکان رکھتے ہیں
ایک پوری کتاب چاہیے مری اور ایبٹ آباد کی تباہی کی داستان لکھنے کے لیے۔ اس تباہی کا خفیف سا اندازہ اس سے کیجیے کہ پوری دنیا کے مہذب ملکوں میں جنگلات کا تناسب ایک خاص حد سے کم نہیں ہونے دیا جاتا، یہاں اس تناسب کے گردے اور انتڑیاں نکال کر پراپرٹی ڈیلروں کی دکانوں پر لٹکا دیئے گئے ہیں۔ جن شہروں کا رخ کرتے وقت جون جولائی میں سویٹر اور جیکٹس سامان میں رکھی جاتی تھیں، وہاں اب پہنچتے ہی پنکھے اور ائرکنڈیشنر چلائے جاتے ہیں۔
وزیراعظم اپنے پسندیدہ شہر کا سفر جس شاہراہ پر کرتے ہیں، وہاں پہلے تو گائے،بیل ،بھینسیں اور بکریاں شاہراہ کے درمیان آرام کرتی تھیں، اب کچھ گھوڑے بھی آگئے ہیں۔ ایک خاص شہر سے درآمد کی ہوئی بیورو کریسی شاید اس خوش فہمی میں ہے کہ وزیراعظم کی سواری کنونشن سنٹر اور لیک ویو سے گزرے گی تو مویشی اور گھوڑے فرطِ ادب سے شاہراہ چھوڑ کر کنارے پر آجائیں گے۔ ویسے تعجب ہے کہ وزیراعظم اکثر و بیشتر مری جاتے ہوئے بارہ کہو کے غلیظ ، بے ہنگم اور پریشان کن بازار سے گزرتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ سب نہیں تو کم از کم وہ شاہراہیں ہی تنظیم سے آشنا کردی جائیں جہاں سے وہ گزرتے ہیں ، لیکن دل میں آرزو مغل بادشاہ بننے کی ہو تو اپنے ارد گرد مغلوں کے زمانے کی آبادیاں ہی اچھی لگتی ہیں۔ وہی بدنظمی، وہی ہڑبونگ، گدھوں ، گھوڑوں اور بیلوں کی وہی آمدورفت ! شاہ جہان اور اورنگزیب تو کبھی کبھی شکار کو نکلتے تھے، ایک لاکھ افراد ہمراہ ہوتے تھے۔ جہاں پڑائو ہوتا تھا، دھوئیں اور گرد سے وہ عالم ہوتا تھا جسے نظامی گنجوی نے کمال بلاغت سے بیان کیا تھا ؎
ز سم ستوران درآن پہن دشت
زمین شش شد و آسمان گشت ہشت
یعنی اتنے بڑے علاقے میں بھی گھوڑوں کے سموں سے دھول اڑی تو زمین گرد میں تبدیل ہوکر آسمان سے جاملی۔ یوں آسمان سات سے آٹھ ہوگئے اور زمینیں سات سے چھ رہ گئیں۔ لیکن شاہ جہان اور اورنگزیب کے شاہانہ زمانوں میں یہ صورت حال کبھی کبھار وجود میں آتی تھی، اب جمہوری زمانے میں یہ صورت حال مستقل ہے۔ حکمران جس ریڈ زون میں محصور ہیں، اس کے چارو ںطرف ترنول، روات اور بارہ کہوہے، جہاں رات دن آسمان آٹھ ہورہے ہیں اور زمینیں چھ ہوتی جارہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ٹی وی پر شیخ رشید ،اپنے شہر کی جو حالت زار ، اغوا برائے تاوان کے حوالے سے بتارہے تھے ، اسے سن کر افغانستان ، صومالیہ اور عراق محفوظ تر نظر آرہے تھے لیکن سو باتوں کی ایک بات یہ ہے ، ریت پر ’’پانی‘‘ کی دھار گرانا بے سود ہے۔ شکیب جلالی نے اشکوں کی کاٹ سے اپنے چہرے کے زخمی ہونے کی بات کی تھی تو مثال پتھر کی دی تھی ؎
کیا کہوں دیدۂ تر! یہ تو مرا چہرہ ہے!
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
لیکن اب ایک خاص پٹی سے اٹھے ہوئے حکمران اور ایک خاص شہر سے آئی ہوئی نوکر شاہی ایسی مٹی سے بنی ہوئی ہے کہ اشک اثر کرتے ہیں نہ پانی کی دھار! انتہا کی یہ بے حسی تلوار کی دھار تک پہنچا دیتی ہے اور خدانخواستہ تلوار کی دھار آگئی تو پھر آہ و زاری اور نالہ و فغاں سب بیکار ہوگا۔ تب نہ ہی ان مولانائوں سے ختم پڑھوانے کا کوئی فائدہ ہوگا جنہیں وزارتوں کے برابر مناصب دے کر وزراء کی خیمہ گاہوں میں طنابیں الاٹ کی گئی ہیں!
بات اس خوبصورت موسم سے آغاز ہوئی تھی جو ان دنوں دارالحکومت کے امیروں اور غریبوں کو بلاتخصیص مسرت بہم پہنچا رہا ہے۔ یہ موسم ان خوبصورت نظموں کا تقاضا کرتا ہے جو حالی اور محمد حسین آزاد نے ( افسوس! جنہیںہم فراموش کیے جارہے ہیں) انجمن پنجاب کے مشاعروں میں پڑھنا شروع کی تھیں اور اردو شاعری کو نیا رخ عطا کیا تھا۔ ایک پوری نسل نے مناظر فطرت نظمائے اور سماں باندھ دیے۔ آندھی کا ذکر آیا تو کہا ؎
وہ گرد کا پہاڑ اٹھا پھر شمال سے
بالیدگی میں دو قدم آگے خیال سے
بارش ہوئی تو پکار اٹھے ؎
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگا جل
جوگی والی نظم میں خوشی محمد ناظر نے جو تصویر کشی اس شعر سے شروع کی ؎
کل صبح کے مطلع تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا
سب چاند ستارے ماند ہوئے، خورشید کا نور ظہور ہوا
اسے نظم کے آخر تک اس عروج پر لے گئے کہ تاریخ ادب میں اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جلی حروف میں لکھوا دیا۔
مستانہ ہوائے گلشن تھی، جانانہ ادائے گلبن تھی
ہر وادی وادی ایمن تھی، ہر کوہ پہ جلوہ طور ہوا
جب باد صبا مضراب بنی، ہر شاخ نہال رباب بنی
شمشاد و چنار ستار ہوئے، ہر سرو وسمن طنبور ہوا
یہ بھی نہیں کہ نظموں میں یہ منظر نگاری پہلی بار پیش کی گئی۔ نظیر اکبر آبادی اپنی ذات میں پورے ادارے کا کام کرگئے تھے۔ میر انیس نے مراثی میں جو منظر نگاری کر چھوڑی تھی، اس کا بھی جواب نہیں تھا، لیکن آزاد، حالی اور ان کے رفقائے کرام نے ایک منظم تحریک کی صورت میں جدید نظم کو پیش منظر پر لاکھڑا کیا۔
ہے کوئی دارالحکومت کے دلربا موسم اورکیف انگیز ہوائوں پر نظم لکھنے والا۔ اس سے پہلے کہ سیمنٹ اور سریے کا عفریت، پہاڑیوں پر نظر آنے والی نرم روئیدگی کو ہڑپ کرجائے!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“