ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
۔۔۔۔۔۔
1۔ مکانی وقوع کے استفسار کے معانی نکلتے ہیں
یارب! تمنا کا دوسرا قدم کس مقام،کس جگہ یا کس طرف ہے ممکن ہے، ہم دیکھتے ہیں دشت_امکاں تو ایک پیر کے نشان(ایک نقش_پا)جتنا ہے ۔
اس نکتے سے دشت_امکاں(کائنات) کی تنگی سامنے آتی ہے۔یعنی یہ کائنات کس قدر تنگ ہے۔
“دشت_امکاں” اور اسکے “ایک نقش_پا” میں مسخر ہو جانے سے پیرا ڈاکس تشکیل پا رہا ہے۔
“دشت” اور اسکی جزئیات کو ملحوظ رکھیں تو “دشت_امکاں” ایسا وسیع و بے کنار صحرا جہاں کچھ ہونے یا نہ ہونے کے متعلق کوئی حتمی بات نہ کی جا سکے۔
گویا یہ کائنات (universe ) کا استعارہ ہے جہاں آپ اگلے پڑاو کے بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
کس قدر حیران کن بات ہے کہ یہ دشت_امکاں(کائنات) تمنا کا محض ایک قدم ہے۔
غالب ہی کا شعر ہے کہ
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضہء مور آسمان ہے
)ہمارا جہان کس قدر تنگ ہے جس آسمان چیونٹی کے ایک انڈے جتنا ہے۔۔۔۔۔۔۔ شعر پر الگ سے بات کی گئی ہے یہاں صرف آسانی کے لیے شعر کو نثر میں ڈھالا ہے)۔
2۔شعر میں
انکار کا لہجہ بھی موجود ہے۔
یعنی ہم نے دشت_امکاں کو دیکھا کہ ایک نقش_پا جتنا ہے،دوسرا قدم تو رکھا جانا ممکن ہی نہیں، سو یارب! تمنا کا دوسرا قدم ممکن ہی کہاں ہے ؟
۔
3۔لفظ “دوسرا” پر ہلکا سا دباؤ دیں “قدم” کو اس دباؤ کے زیر_اثر رکھیں تو جو معانی نکلتے ہیں وہ حیرت کی غمازی کرتے ہیں ۔
متکلم حیرت زدہ ہے کہ
دوسرا پاؤں رکھنے کی جگہ یا ہمارا اگلا پڑاؤ کون سا مقام ہے ۔
کیوں کہ یہ ساری کائنات تو ایک نقشِ پا ہے ہم نے ایک قدم اٹھایا اور یہ بسر ہو گئی۔
یہاں لفظ “تمنا” جستجو کے معانی اختیار کر جاتا ہے۔
4۔شعر میں شکوہ اور ظرافت کے اجزا بھی موجود ہیں کہ اتنی چھوٹی دنیا اور تمنائیں اس قدر بڑی۔
پیش نظر رہے کہ غالب کو حالی نے “حیوان_ظریف” کہ رکھا ہے۔
نوٹ: یہ شعر، “پا پایا” کے عیب_تنافر کی وجہ سے غالب نے اپنے متداول دیوان میں شامل نہیں کیا تھا۔
آفتاب نواب