پیٹ کی بھوک ختم کرنے کی خاطر تو انسان کچھ بھی کر گزرتاہے۔ اسی پیٹ کیلئے لوگ طرح طرح کے پیشے اپناتے ہیں۔ آجکل بھیک مانگنا بھی نفع بخش تجارت پیشے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ شہر میں فقراء کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ بس اسٹاپ پر کھڑے ہوں یا ٹریفک سگنل پر، شہر میں ہوں یا دیہات میں ، سفر میں ٹرینوں اور بسوں میں ہوں ، پیدل ہوں یا سواری پر۔ا
للہ کے نام پر کچھ دے دیں،
دو دن سے بھوکا ہوں ،
گھر میں کچھ کھانے کو نہیں، اللہ کے لئے میری مدد کریں
یہ الفاظ بھکاریوں کے رٹے رٹائے ہوتے ہیں۔ بھیک مانگنا ایک آسان ترین کمائی کا ذریعہ ہے۔ ملک بھر میں پیشہ ور بھکاریوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ فٹ پاتھوں ، چوراہوں، گھروں ، مساجد کے باہر اور مارکیٹ میں ، مزاروں کے پاس طرح طرح حیلوں بہانوں سے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں اور ان کے بھیک مانگنے کے طریقوں سے لوگ متاثر ہوکر انہیں بھیک دیتے ہیں۔کبھی بیماری کا نسخہ ہاتھ میں پکڑے یا بیوہ بن کر تنگی اور پریشانیاں بتا کر نیز جوان عورتیں بھی بھیک مانگتی نظر آتی ہیں اور اسی کی آڑ میں مکروہ دھندہ بھی کیا جاتا ہے ۔
بعض بھکاری جو واقعی معذور ہوتے ہیں،پیدائشی معذور ہوں یا کسی حادثے کی وجہ سے معذور ہو گئے ہوں وہ تو صحیح ہے ،
لیکن زیادہ تر بھکاری وہ ہوتے ہیں جو جان بوجھ کر جھوٹ موٹ معذور بنے ہوتے ہیں۔ان میں کچھ نابینا ہونے کا ڈھونگ کرتے اور کچھ نقلی طور پر زخم لگائے ہوتے ہیں اوریہ لگتا ہے جیسے واقعی گہرا زخم ہے حالانکہ یہ زخم اصلی نہیں ہوتا۔ بعض بھکاری بازو یا پیر پر پٹی باندھے ہوتے ہیں جس سے دیکھنے والوں کا دل پسیج جاتاہے اور یہ لوگ اس قدر ڈرامائی انداز سے بھیک مانگتے ہیں کہ پتھر دل انسان بھی موم ہوجاتاہے اور وہ فوراً بھیک دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
سچائی یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کیلئے بھکاریوں نے بھیک مانگنے کے بہت سے طریقے اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وہیں آجکل انہوں نے دینی و شرعی حیلے بہانوں سے بھی بھیک مانگنا شروع کر دیا ہے اور اس میں اِدھر دوتین برسوں میں ان کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور ہر گزرتے دن کیساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ گھروں اور مسجدوں میں آتے ہیں جن کے ہاتھوں میں کسی مدرسے یا مسجد کی رسید بک ہوتی ہے ،اعلان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ فلاں مدرسہ زیر تعمیر ہے، فلاں مسجد زیر تعمیر ہے،مسجد کو اتنے پیسوں کی ضرورت ہے، اتنی سیمنٹ مدرسے کیلئے اور مدرسہ کے بچوں کیلئے کپڑوں اور دوسری چیزوں کی ضرورت ہے۔
آپ حضرات اپنی حیثیت سے دے کر صدقہ جاریہ میں شریک ہوجائیں۔ ان میں سے اکثر حضرات پیسے لے کر بہت ہی کم پیسے مسجد و مدرسہ کو دیتے ہیں باقی اپنے پاس رکھ لیتے ہیں کہ یہ میرا کمیشن ہے جو کہ پہلے سے مدرسہ یامسجد کی انتظامیہ کے ساتھ طے ہوتا ہے۔ ان لوگوں میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو دینی حلیہ میں رہتے ہیں تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کو بے وقوف بنا کر زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کریں۔ ان کا ایک پورا نیٹ ورک ہے جو بڑے ہی منظم انداز میں کام کر رہا ہے۔ اسی طرح بہت سی خواتین بھی زیادہ سے زیادہ بھیک اکٹھی کرنے میں شامل ہیںیا پھر برقع پوش خواتین گھروں محلوں اور مسجدوں کے دروازہ پر نماز کے بعد یا جمعہ کی نماز کے بعد کھڑی ہوجاتی ہیں۔ بعض لوگ نماز مسجد کے اندر پڑھتے ہیں اور امام کے سلام پھیرتے ہی فوراً کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مانگنا شروع کر دیتے ہیں اور مجبوری بتاکر رونے لگتے ہیں۔
گداگروں کی کمائی کا خاص سیزن رمضان المبارک کے با برکت مہینہ میں شباب پر ہوتا ہے۔ پیشہ ور گداگر اپنے آبائی قصبوں دیہاتوں سے نکل کر شہروں میں آ نکلتے ہیں۔
چونکہ شہروں میں خوشحال اور مالدار لوگ رہتے ہیں ،رمضان میں زکوٰۃ و صدقات اور خیرات وغیرہ کثرت سے غرباء و مساکین میں تقسیم کرتے ہیں اسی لئے یہ پیشہ ور گداگر اور غریب علاقوں کے غریب ،نادار ، مفلس اور ضرورت مند لوگ بھی رمضان المبارک میں کمائی کے لئے شہری علاقوں میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ رمضان میں یہ گداگر روزانہ 2 سے ڈھائی ہزار روپے یا اس سے بھی زیادہ کما لیتے ہیں۔
آجکل ایک عام بلا یہ پھیلی ہوئی ہے کہ اچھے خاصے تندرست ہیں ، چاہے تو کما کر کھائیں اور دوسروں کو کھلائیں مگر انہوں نے اپنے وجود کو بیکار قرار دے رکھا ہے۔
کون محنت کرے مصیبت اٹھائے ،
بغیر محنت جو مل جائے تو تکلیف کیوں برداشت کرے۔ ناجائز طور پر سوال کرتے ہیں۔
زور دکھاکر ،دباؤ بنا کر پیچھے پیچھے دور تک لگے رہتے ہیں۔ مجبوراً آدمی کو دینا پڑتا ہے۔ ٹرینوں میں خواجہ سراؤں کی غنڈہ گردی ،گالیوں کی بھرمار ، اوچھی اداؤں اور حرکتوں سے شرفا کا اور خاص کر نوجوانوں کا سفر انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ زبردستی اور ناجائز طور پر سوال کرتے اور بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں کہ محنت مزدوری ، چھوٹی موٹی تجارت کو ذلت و عار خیال کرتے ہیں اور بھیک مانگنا اپناپیشہ ہی بنا لیتے ہیں۔
ان سے کہا جاتاہے تو کہتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشہ ہے،
واہ صاحب واہ! کیا ہم اپنا پیشہ چھوڑ دیں،
حالانکہ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو اچھی مالی حیثیت رکھتے ہیں۔ وارداتیے بھکاریوں کے روپ میں گھروں کی ریکی کرتے ہوئے بڑی بڑی وارداتیں کر ڈالتے ہیں ۔ سو ان سے محتاط رہنا اور بھی ضروری ہے ۔
روپے سود پر بھی لگاتے ہیں۔ ایسوں کو اور ہٹے کٹے لوگوں کو جو جسمانی معذور نہ ہوں ان کے لئے بھیک مانگنا حرام ہے اور جس کو ان کی حالت معلوم ہواسے ان کو بھیک دینا کسی طور جائز نہیں۔
حالانکہ سماجی طور بھی بھیک مانگنے کو خراب اور گھناؤنا مانا جاتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھیک مانگنا شریعت کی نظر میں بھی معیوب چیز اوربدترین جرم ہے۔
جو لوگ گداگری کو پیشے کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں ان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ سوال کرنے والے کے لئے شریعت میں سخت وعید آئی ہے۔
رسالت مآب نے فرمایا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا بروز قیامت ایسی حالت میں آئیگا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا نہ ہو گا۔
جو شخص لوگوں سے سوال کرے حالانکہ نہ اسے فاقہ پہنچا ،نہ اتنے بال بچے ہیں جن کی طاقت نہیں رکھتا تو قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے منھ پر گوشت نہ ہوگا۔
جس پر نہ فاقہ گزرا اور نہ اتنے بال بچے ہیں جن کی طاقت نہیں اور سوال کا دروازہ کھولے اللہ تعالیٰ اس پر فاقہ کا دروازہ کھول دے گا، ایسی جگہ سے جو اس کے دل میں بھی نہیں۔
جسے فاقہ پہنچا اور اس نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی تو اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز کردے گاخواہ جلد موت دے دے یا جلد مالدار کردے۔
جو بھوکا یا محتاج ہوا اور اس نے آدمیوں سے چھپایا اور اللہ کے حضور عرض کی تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ ایک سال کی روزی اس پر کشادہ فرمائے۔
حضور نبی کریم کے زمانے میں تین چار ایسے مہاجر صحابہ کرام تھے جن کے پاس نہ مال تھا نہ اہل اور نہ سر چھپانے کے لئے جھونپڑا۔
وہ بارگاہِ رسالت میں حاضر رہتے اور جس کام کے لئے حکم ملتا اس کی تعمیل کرتے۔ جب کہیں سرایا بھیجنے کی ضرورت ہوتی یہ بے تامّل حاضر ہوتے اور جب فارغ ہوتے تو قرآن کریم یاد کرتے اور حدیث پاک کو حفظ کرتے۔ ان کی رہائش کے لئے حضور اکرم نے مسجد ہی میں ایک جھونپڑا بنوا دیا تھا۔ فقر و تنگدستی کے باوجود عزت نفس اور خود داری کا یہ عالم تھا کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاتے۔
جیسی بھی گزرتی خاموشی اور صبرسے گزاردیتے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے سورہ بقرہ کے ذریعہ مسلمانوں کی توجہ ان کی طرف مبذول کرائی۔
یاد رہے یہ حکم انہی کے لئے مخصوص نہیں۔ اب بھی جو حضرات اس طرح کے دینی خدمت میں مشغول رہتے ہیں اور کسب معاش کے لئے وقت نہیں نکال سکتے اُن کے متعلق یہی حکم ہے۔ ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو سوال نہیں کرتے اور صبر سے گزارتے ہیں۔ ان کی تعریف قرآن مجید میں کی گئی اور انہی کو دینے کا حکم ہوا ہے۔ قرآن و حدیث میں بھیک مانگنے کی سخت مذمت آئی ہے اور صبر و شکر سے رہنے ، سوال نہیں کرنے والوں کی فضیلت بھی آئی ہے ۔
جس طرح ہٹے کٹے اور جعلی فقیر و مسکین کا بھیک مانگنا درست نہیں اسی طرح ان پیشہ ور بھکاریوں کو بھیک دینا بھی درست نہیں۔ بھیک مانگنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے اور ان لوگوں کیلئے بالکل ہی ڈوب مرنے کا مقام ہے جو اچھے خاصے صحت مند ہونے کے باوجود بھیک مانگتے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر ان بھکاریوں کو بھیک دینا جائز نہیں تو پھر واقعی حاجت مندکی پہچان کیسے ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے زیادہ حقدار اپنے قریبی لوگ ہیں۔ ان میں رشتہ دار، دوست احباب اور وہ لوگ ہیں جن کو آپ جانتے ہیں کہ یہ لوگ واقعی ضرورت مند ہیں۔
اس کے بعد تمام لوگوں کے چاہئے کہ اپنے اپنے علاقے اور محلہ میں تلاش کریں کہ کون ایسے شریف لوگ ہیں جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور سوال نہیں کرتے ، شرماتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر ان کو ان کا حق دیا جائے۔ اس طرح مستحق افراد کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کرنے کیلئے کوئی ایسی راہ نہ تلاش کریں جو صحیح نہ ہو۔ آپ نے مکمل احتیاط کے ساتھ کسی کو حقدار سمجھ کر دے دیا تو یہ آپ کے دل کا معاملہ ہے۔ جیسی نیت ویسی برکت۔
اگر آپ نے بلا سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کے بھکاریوں کوکچھ دیا تو آپ ملک میں ان لوگوں کے اضافے کا سبب بنیں گے جو یقینا قوم کیلئے، ملک کیلئے نقصان کا باعث ہیں۔
تمام اہلِ دانش و انجمنوں ا ور اداروں کے ذمہ دار وں اور علمائے کرام کی توجہ ادھر ضرور ہونی چاہئے اور ہر شخص اپنی ذمہ داری نبھائے جو اس کا اخلاقی و دینی فریضہ ہے۔
ان بزرگوں کو بھیج مانگتا دیکھ کر دلی دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ اپنی عمر کے آخری لمحات میں بھی اللہ کی بجائے مخلوق کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں اور اس مہلت سے فائدہ نہیں اٹھاتے کہ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر اپنی عاقبت سنوار سکیں ۔
ساغر کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے ہونٹوں کو انداز نوا یاد نہیں