آج – 7/جنوری 2000
مقبول عام شاعر، اپنے شعر ’شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے۔۔۔‘ کے لیے مشہور شاعر” حفیظؔ میرٹھی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام حفیظ الرحمن اور حفیظؔ تخلص تھا۔ ۱۰؍جنوری ۱۹۲۲ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۳۹ء میں حفیظ صاحب نے فیض عام انٹر کالج سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ ان کے نانا کے انتقال ہوجانے کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ ۱۹۴۷ء میں انھوں نے پرائیوٹ طور پر ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۷۵ء میں حفیظ صاحب جماعت اسلامی کے رکن ہونے کی وجہ سے ڈیفنس آف انڈیا کے تحت تین ماہ نظر بند رہے۔ان کے نانا منشی خادم حسین کو شعروشاعری سے رغبت تھی ۔ انھی کی تربیت تھی کہ حفیظ صاحب شاعری میں دل چسپی لینے لگے۔ بعد میں حضرت عاصم بریلوی سے مشورہ سخن کرنے لگے۔ حفیظ صاحب نے مختلف ملکوں کے مشاعروں میں شرکت کی۔ آپ نے حج کی سعادت بھی حاصل کی۔ ۷؍جنوری ۲۰۰۰ء کو حفیظؔ صاحب میرٹھ میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’شعروشعور‘ ، ’متاعِ آخر شب‘ ۔ دوسرے شعری مجموعے پر اترپردیش اردو اکادمی نے انعام دیا۔ ’کلیاتِ حفیظ میرٹھی‘ بھی شائع ہوگئی ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:127
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
مشہور شاعر حفیظؔ میرٹھی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
بزمِ تکلفات سجانے میں رہ گیا
میں زندگی کے ناز اٹھانے میں رہ گیا
تاثیر کے لیے جہاں تحریف کی گئی
اک جھول بس وہیں پہ فسانے میں رہ گیا
سب مجھ پہ مہرِ جرم لگاتے چلے گئے
میں سب کو اپنے زخم دکھانے میں رہ گیا
خود حادثہ بھی موت پہ اس کی تھا دم بخود
وہ دوسروں کی جان بچانے میں رہ گیا
اب اہلِ کارواں پہ لگاتا ہے تہمتیں
وہ ہم سفر جو حیلے بہانے میں رہ گیا
میدان کارزار میں آئے وہ قوم کیا
جس کا جوان آئینہ خانے میں رہ گیا
وہ وقت کا جہاز تھا کرتا لحاظ کیا
میں دوستوں سے ہاتھ ملانے میں رہ گیا
سنتا نہیں ہے مفت جہاں بات بھی کوئی
میں خالی ہاتھ ایسے زمانے میں رہ گیا
بازارِ زندگی سے قضا لے گئی مجھے
یہ دور میرے دام لگانے میں رہ گیا
یہ بھی ہے ایک کارِ نمایاں حفیظؔ کا
کیا سادہ لوح کیسے زمانے میں رہ گیا
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
گدازِ دل سے ملا سوزشِ جگر سے ملا
جو قہقہوں میں گنوایا تھا چشمِ تر سے ملا
تعلقات کے اے دل ہزار پہلو ہیں
نہ جانے مجھ سے وہ کس نقطۂ نظر سے ملا
کبھی تھکن کا کبھی فاصلوں کا رونا ہے
سفر کا حوصلہ مجھ کو نہ ہم سفر سے ملا
میں دوسروں کے لیے بے قرار پھرتا ہوں
عجیب درد مجھے میرے چارہ گر سے ملا
ہر انقلاب کی تاریخ یہ بتاتی ہے
وہ منزلوں پہ نہ پایا جو رہ گزر سے ملا
نہ میں نے سوز ہی پایا نہ استقامت ہی
حجر حجر کو ٹٹولا شجر شجر سے ملا
حفیظؔ ہو گیا آخر اجل سے ہم آغوش
تمام شب کا ستایا ہوا سحر سے ملا
●━─┄━─┄═•••••═┄─━─━━●
اے دل خوشی کا ذکر بھی کرنے نہ دے مجھے
غم کی بلندیوں سے اترنے نہ دے مجھے
گھر ہی اجڑ گیا ہو تو لطفِ قیام کیا
اے گردشِ مدام ٹھہرنے نہ دے مجھے
مقصد یہ ہے سکوں کسی صورت نہ ہو نصیب
اے چارہ ساز بات بھی کرنے نہ دے مجھے
چہرے پہ کھال تک بھی نہ چھوڑیں گے بد نگاہ
اے میرے خیر خواہ سنورنے نہ دے مجھے
ہے دیکھنے کی چیز جو بسمل کا رقص بھی
دنیا یہ چاہتی ہے کہ مرنے نہ دے مجھے
یہ دور سنگِ دل ہی نہیں تنگِ دل بھی ہے
گر بس چلے تو آہ بھی کرنے نہ دے مجھے
اب بھی یہ حوصلہ ہے کہ کچھ کام آ سکوں
میں ٹوٹ تو گیا ہوں بکھرنے نہ دے مجھے
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
حفیظؔ میرٹھی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ