محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تِری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
آج حفیظ ہوشیار پوری کی45 ویں برسی ہے۔ وہ 5 جنوری 1912 کو دیوان پور ضلع جھنگ میں پیدا ہوئےاور10جنوری 1973 کو کراچی میں وفات پائی۔ ان اصل نام شیخ عبدالحفیظ سلیم تھا۔ آبائی وطن کی نسبت سے ہوشیار پوری کہلائے۔ ایم اے فلسفہ کرکے ریڈیو سے وابستہ ہوئے اور اسی میں رہے۔ مجموعہ کلام وفات کے بعد ’ پیمانۂ غزل ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ تاریخ گوئی میں انہیں کمال حاصل تھا ۔
لیاقت علی خاں کی وفات پر
’’صلۂ شہید کیا ہے تب و تابِ جاودانہ‘‘
اورریڈیو پاکستان کے آغاز پر
’’تری آواز مکے اور مدینے‘‘
جیسی بے مثال تاریخیں نکالیں ۔
ملاحظہ فرمائیں برادرم ناصر زیدی کی ایک شاندار تحریر سے کچھہ اقتتباسات اور چند اشعار ۔۔۔۔۔
دنیائے شعر و ادب میں ’’حفیظ ‘‘ تخلص کے چار پانچ شاعر بڑے مقتدر ہو گزرے ہیں، بہت زیادہ دیر کی یا دور کی بات نہیں۔ ایک تو اپنے ابوالاثر حفیظ جالندھری ہیں کہ بہت کچھہ تھے اور پھر بھی انہیں یہ کہنا پڑا:
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے؟
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
ایک اور زیادہ عہدِ قدیم کے نہیں، بس قدرے قدیم حفیظ جونپوری تھے، جن کا ایک ہی شعر انہیں زندہ رکھنے کو کافی ہے:
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
اور ایک اور تھے حفیظ میرٹھی:
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے
دل ٹوٹے، آواز نہ آئے
اور ہاں حفیظ بنارسی بھی تھے کہ کراچی آکر حفیظ آزر یا آزر حفیظ ہو گئے تھے ان کا مجموعہ کلام ہے ’’اندر سمندر‘‘اور پھر حفیظ ہوشیارپوری:
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تِری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
سہلِ ممتنع میں، چھوٹی بحر میں کہی گئی اور خوبصورت آواز کی گائیکی میں عمدہ ساز کے ساتھہ مشہور ہونے والی اس غزل نے شاعر کو شہرتِ عام اور بقائے دوام بخش دی:
زمانے بھر کا غم یا اک تِرا غم
یہ غم ہو گا تو کتنے غم نہ ہوں گے
میں اکثر سوچتا ہوں، پُھول کب تک
شریکِ گریہء شبنم نہ ہوں گے
اگر تُو اتفاقاً مل بھی جائے
تِری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
اس لازوال غزل کے خالق حفیظ ہوشیارپوری بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ شیخ عبدالحفیظ سلیم ولد شیخ فضل محمد خان اصل نام۔5جنوری 1912ء کو لائلپور سے بارہ میل کے فاصلے پرایک گاؤں دیوان پور ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ اگرچہ پورے نام میں سلیم پہلے ہی سے لگا ہوا تھا یعنی شیخ عبدالحفیظ سلیم مگر وہ حفیظ تخلص اور ہوشیارپور کے لاحقے کے ساتھ حفیظ ہوشیارپوری کے نام سے مقبولِ جہاں ٹھہرے ابتدائی اور ثانوی تعلیم ہوشیارپور میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (فلسفہ) کیا۔ شروع میں اِدھر اُدھر، چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں، میاں بشیر احمد کے ساتھہ ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے سیکرٹری رہے۔ مدیر ’’پھول‘‘ اور ’’تہذیبِ نسواں‘‘ بھی رہے۔ پھر آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف ریڈیو اسٹیشنوں پر کام کیا، لاہور ریڈیو کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل پاکستان براڈ کاسٹنگ کی حیثیت سے 1967ء میں ریٹائر ہو گئے۔
حفیظ ہوشیارپوری کو شروع سے ہی شعر و ادب سے شغف تھا کہ ان کے نانا پڑھنے لکھنے کے رسیا تھے اور انہیں سینکڑوں اشعار اور بعض دلچسپ کتابیں ازبر تھیں گھر میں کتب کے ساتھہ رسائل و جرائد بھی آتے تھے۔ حفیظ ہوشیارپوری نے ابتدا میں مولانا غلام قادر گرامی سے فیض حاصل کیا ان کے مذاقِ سخن اور فیضِ صحبت نے حفیظ ہوشیارپوری کے جوہرِ قابل کو خوب نکھارا سنوارا۔ انہوں نے غزل اور نظم کے علاوہ بدیہہ گوئی اور تاریخ گوئی میں بھی کمال حاصل کیا۔ گرامی صاحب کے بعد حفیظ ہوشیارپوری نے اپنے بھائی راحل ہوشیارپوری سے رہنمائی حاصل کی اور سخن گوئی میں منفرد مقام حاصل کیا، اس حد تک کہ ان سے کسبِ فیض کرنے والوں میں ناصر کاظمی جیسے صاحبِ اسلوب شاعر بھی تھے
10جنوری 1973ء کو وہ ہمیشہ کے لئے دنیائے فانی سے منہ موڑ گئے۔ ان کے انتقال کے کئی سال بعد شان الحق حقی صاحب نے ان کا کل حاصل شدہ کلام کتابی شکل میں ’’مقامِ غزل‘‘ کے نام سے چھپوا دیا۔ اس کتاب کو پاکستان رائٹرز گلڈ کی وساطت سے سب سے بڑا انعام، آدم جی ادبی انعام بھی ملا۔
حفیظ ہوشیارپوری نے نظمیں بھی کہیں اور قطعاتِ تاریخِ وفات بھی، وہ اہم اموات اور اہم واقعات پر ارتجالاً یعنی جھٹ تاریخ کو منظوم کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے مگر دراصل ان کی محبوب صنفِ سخن غزل ہی تھی اور غزل ہی ان کی صحیح پہچان ہے بحیثیت غزل گو شاعر ہی حفیظ ہوشیارپوری دنیائے شعر و سخن کی آبرو اور ایسے ایسے اشعار کی بدولت ہمیشہ آبرو رہیں گے۔
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ پوچھہ کیوں مری آنکھوں میں آ گئے آنسو
جو تیرے دل میں ہے اُس بات پر نہیں آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری منزل پر پہنچنا کوئی آسان نہ تھا
سرحدِ عقل سے گزرے تو یہاں تک پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنے حال کو ماضی سے کیوں کہوں بہتر
اگر وہ حاصلِ غم تھا تو یہ غمِ حاصل
کچھہ اس طرح سے بہار آئی ہے کہ بجھنے لگے
ہوائے لالہ و گُل سے چراغِ دیدہ و دل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تُو نے اسے تعبیر کیا عشق سے ورنہ
کس کے لئے اے دوست پریشان نہ ہوئے ہم
محدود رہے غم ایک نہ اک آفتِ جاں تک
افسوس حریفِ غمِ انساں نہ ہوئے ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شراب و ذوقِ طلب ہے نہ اب وہ عزمِ سفر
رواں ہے قافلہ تسکینِ راہبر کے لئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے جاتے ہی یہ عالم ہے جیسے
تجھے دیکھے زمانہ ہو گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جہان زندگاں ہے کہ دَیارِ کُشتگاں ہے
کوئی دشمنوں کا مارا کوئی دوستوں کا مارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تمیز عشق و ہوس نہیں یہ حقیقتوں سے گریز ہے
جنہیں عشق سے سروکار ہے وہ ضرور اہلِ ہوس بھی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آبادی ء دل کی ہے فقط ایک ہی صورت
بربادی ء دل کے لئے سامان ہزاروں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستی عام ہے لیکن اے دوست
دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے
کچھہ ایسا ہی خیال عہدِ موجود کے سب سے بڑے غزل گو اور حفیظ ہوشیارپوری کے جونیئر ہمعصر احمد فراز کے ہاں بھی اس مقبول شکل میں ملتا ہے
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھہ ملانے والا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کی غزل کا مشہور مطلع
دل کے افسانے نگاہوں کی زبان تک پہنچے
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
اس مطلع کی موجودگی میں حفیظ ہوشیارپوری کی غزل کا یہ مطلع بھی موجود ہے
رازِ سربستہ محبت کے ،زباں تک پہنچے
بات بڑھ کر یہ خدا جانے کہاں تک پہنچے
+
مجھے کس طرح یقیں ہو کہ بدل گیا زمانہ
وہی آہ صبح گاہی، وہی گریۂ شبانہ
تب و تاب یک نفس تھا غمِ مستعارِ ہستی
غمِ عشق نے عطا کی مجھے عُمرِ جاودانہ
کوئی بات ہے ستمگر کہ میں جی رہا ہوں اب تک
تری یاد بن گئی ہے مری زیست کا بہانہ
میں ہوں اور زندگی سے گلۂ گریز پائی
کہ ابھی دراز تر ہے مرے شوق کا ترانہ
جو اسیر رنگ و بو ہوں تو مرا قصور یارب!
مجھے تو نے کیوں دیا تھا یہ فریب آب و دانہ
محبت میں تمیزِ دشمن و دوست!
یہاں ناآشنا کیا، آشنا کیا
زمانے بھر سے میںکھو گیا ہوں
تمہیں پا کر مجھے آخر ملا کیا
پھریں مجھہ سے زمانے کی نگاہیں
پھری مجھہ سے نگاہِ آشنا کیا
وفا کے مدّعی! افسوس افسوس!
تجھے بھی بھول جانا آگیا کیا
نہ مانی ہے نہ مانیں گے تری بات
حفیظ ان سے تقاضائے وفا کیا
۔۔۔
جب دونوں کا انجام ہے اک، پھر چوں و چرا سے کیا حاصل
تدبیر کا میں قائل ہی سہی، تقدیر کا تو محرم ہی سہی
بندوں کے ڈر سے تجھے پوجوں، میں ایسی ریا سے باز آیا
دل میں ہے خوف ترا یارب! سر پائے صنم پر خم ہی سہی
آغازِ محبت دیکھ لیا، انجامِ محبت کیا ہوگا!
قسمت میں حفیظِ بیکس کی آوارگی، پیہم ہی سہی
۔۔۔
تم سے اور اُمید وفا کی؟
تم اور مجھہ کو یاد کر وگے؟
ویراں ہے آغوشِ محبت
کب اس کو آباد کرو گے؟
ختم ہوئے انداز جفا کے
اور ابھی برباد کرو گے
کون پھر اُس کو شاد کرے گا
جس کو تم ناشاد کرو گے
رہنے بھی دو عذرِ جفا کو
اور ستم ایجاد کرو گے
دادِ وفا سمجھیں گے اس کو
ہم پر جو بیداد کرو گے
اُس ایک بات کے افسانے بن گئے کیا کیا
جو تم کو یاد رہی اور نہ مجھ کو یاد رہی
یہ میکدے میں ہے چرچا کہ متفق ہوئے پھر
غرورِ خواجگی و انکسارِ خانقہی
لرز رہا ہے مرا دل بھی تری لَو کی طرح
میرے رفیقِ شبِ غم چراغِ صُبح گہی
حفیظ دادِ سخن ایک رسم ہے ورنہ
کوئی کوئی اُسے سمجھا جو بات میں نے کہی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“