آج – 5/جنوری 1912
اپنی غزل ’ محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘ کے لئے مشہور جسے کئی گلوکاروں نے آواز دی ہے، معروف شاعر” حفیظؔ ہوشیار پوری صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام شیخ عبدالحفیظ سلیم اور تخلص حفیظؔ تھا۔ ۵؍جنوری۱۹۱۲ء کو دیوان پور، ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ وطن ہوشیار پور تھا۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول ہوشیار پور میں حاصل کی۔ ۱۹۲۸ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج، لاہور سے بی اے اور ۱۹۳۶ء میں ایم اے فلسفہ کی ڈگری لی۔ آل انڈیا ریڈیو کے لاہور اوربمبئی اسٹیشنوں پر ذمے دار عہدوں پر فائز رہے۔ تقسیم ہند کے بعد ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل، ریڈیو پاکستان کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ راحلؔ ہوشیار پوری سے تلمذ حاصل تھا۔ تاریخ گوئی میں حفیظ کو ایک منفرد مقام حاصل تھا۔ ا س سلسلے میں ان کا نام ناسخ کے ساتھ لیا جاسکتا ہے۔ حفیظؔ ہوشیارپوری نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ۱۰؍جنوری ۱۹۷۳ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ مجموعۂ کلام ’’مقام غزل‘‘ ان کے انتقال کے بعد شائع ہوا۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:29
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر حفیظؔ ہوشیار پوری کے یوم ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک
شریک گریۂ شبنم نہ ہوں گے
ذرا دیر آشنا چشمِ کرم ہے
ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم
یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے
کہوں بے درد کیوں اہل جہاں کو
وہ میرے حال سے محرم نہ ہوں گے
ہمارے دل میں سیل گریہ ہوگا
اگر با دیدۂ پر نم نہ ہوں گے
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
حفیظؔ ان سے میں جتنا بد گماں ہوں
وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے
✧◉➻══════════════➻◉✧
اب کوئی آرزو نہیں ذوقِ پیام کے سوا
اب کوئی جستجو نہیں شوقِ سلام کے سوا
کوئی شریک غم نہیں اب تیری یاد کے سوا
کوئی انیسِ دل نہیں اب تیرے نام کے سوا
کاہشِ آرزو سہی حاصلِ زندگی مگر
حاصلِ آرزو ہے کیا سوزِ مدام کے سوا
آہ کوئی نہ کر سکا چارۂ تلخئ فراق
نالۂ صبح کے بغیر گریۂ شام کے سوا
تیری نگاہ مست سے مجھ پہ یہ راز کھل گیا
اور بھی گردشیں ہیں کچھ گردشِ جام کے سوا
رنگِ بہار پر نہ پھول بوئے چمن سے درگزر
یہ بھی ہیں خوش نما فریب دانہ و دام کے سوا
مر کے حیاتِ جاوداں عشق کو مل گئی حفیظؔ
جی کے ہوش کو کیا ملا مرگِ دوام کے سوا
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
راز سر بستہ محبت کے زباں تک پہنچے
بات بڑھ کر یہ خدا جانے کہاں تک پہنچے
کیا تصرف ہے ترے حسن کا اللہ اللہ
جلوے آنکھوں سے اتر کر دل و جاں تک پہنچے
تری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا
سرحد عقل سے گزرے تو یہاں تک پہنچے
حیرتِ عشق مری حسن کا آئینہ ہے
دیکھنے والے کہاں سے ہیں کہاں تک پہنچے
کھل گیا آج نگاہیں ہیں نگاہیں اپنی
جلوے ہی جلوے نظر آئے جہاں تک پہنچے
وہی اس گوشۂ داماں کی حقیقت جانے
جو مرے دیدۂ خوں نابہ فشاں تک پہنچے
ابتدا میں جنہیں ہم ننگِ وفا سمجھے تھے
ہوتے ہوتے وہ گلے حسنِ بیاں تک پہنچے
آہ وہ حرفِ تمنا کہ نہ لب تک آئے
ہائے وہ بات کہ اک اک کی زباں تک پہنچے
کس کا دل ہے کہ سنے قصۂ فرقت میرا
کون ہے جو مرے اندوہ نہاں تک پہنچے
خلش انگیز تھا کیا کیا تری مژگاں کا خیال
ٹوٹ کر دل میں یہ نشتر رگ جاں تک پہنچے
نہ پتہ سنگ نشاں کا نہ خبر رہبر کی
جستجو میں ترے دیوانے یہاں تک پہنچے
نہ غبار رہِ منزل ہے نہ آوازِ جرس
کون مجھ رہرو گم کردۂ نشاں تک پہنچے
صاف توہین ہے یہ دردِ محبت کی حفیظؔ
حسن کا راز ہو اور میری زباں تک پہنچے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
حفیظؔ ہوشیار پوری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ
آپ حفیظؔ ہوشیار پوری کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔