جب کوئی مصنف کتاب لکھتا ہے تو قاری پر اس کا پہلا حق یہی ہے کہ اس کی کتاب خرید کر پڑھی جائے، خریدنے کی سکت نہ ہو تو کم از کم تعریفی یا تحسینی کلمات سے اس کی ہمت افزائی کی جائے۔ اکثر لوگوں کو اس کا احساس ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو ذرا برابر احساس نہیں ہوتا کہ اس شخص نے کتاب کی تیاری میں کتنی تکلیف ومشقت اٹھائی ہے، کتنی محنت سے اپنے افکار وخیالات کو عملی جامہ پہنایا ہے، اور کتنی راتوں کا چین اور آرام تیاگ کر، جان جوکھوں میں ڈال کر کتاب تیار کی ہے۔ خصوصا اگر مصنف ہم جیسے متوسط طبقہ کا ہو تو ذہن میں کتاب کے خیال آنے سے لیکر، اس کا خاکہ بنانے، سالہا سال کی محنت سے اسے قرطاس پر اتارنے، پھر اسے کمپوز کرکے، مکمل سیٹنگ کرنے تک کا ہر مرحلہ خود ہی مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر کسی ناشر کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے، یا لاکھوں روپے خرچ کرکے اپنی ساری جمع پونجی گویا داو پر لگانی پڑتی ہے۔
__ اب ایسے میں کوئی شیر جوان آتا ہے اور ان ساری باتوں پر لات مارکر مصنف کا دل کرچی کرچی کردیتا ہے، اس پر طرہ یہ کہ یہ شیر جوان عموما کوئی جاننے والا یا دوست ہی کوئی ہوتا ہے۔ ان کے بھی اپنے اپنے درجات ہوتے ہیں، مثلا:
1_ پہلا درجہ اس شیر بھائی کا ہوتا ہے جو کتاب کا ہدیہ مانگتا ہے۔ بھئی! اگر مصنف میں، اتنی محنت کے بعد کچھ دم خم بچا ہے کہ وہ کتاب کا ہدیہ پیش کرسکے، اور آپ کو ہدیہ کا اہل بھی سمجھتا ہے تو خود ہی کتاب ہدیہ میں بھیج دےگا، آپ ہدیہ مانگ کر ہدیہ کو کیوں شرمندہ کررہے ہیں؟
2_ دوسرا درجہ، جو پہلے سے بھی نیچے قسم کے شیر نوجوان کا ہے۔ اس کو جب کہا جائے کہ بھیا میرے پاس محدود نسخے تھے، وہ ختم ہوچکے ہیں تو یہ صاحب (جس نے کبھی سال میں ایک بار بھی آپ سے رابطہ نہ کیا ہوگا) شرم نگل کر، پوری ڈھٹائی سے حکم صادر فرماتا ہے کہ ناشر سے قیمۃً خرید کر مجھے بھیجو!۔ دل میں خیال آتا ہے کہ گالی کی کوئی قسم جائز ہوتی تو ایسے وقت میں اس کا ہدیہ آپ کو ضرور عطا کیا جاتا۔
3_تیسرے قسم کے شیر سپاہی، جو دوسرے درجے والوں سے بھی اسفل ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مفت خوری کی عادت نہیں چھوڑسکتے، اس لیے جیسی ہی کتاب منصۂ شہود پر آتی ہے تو یہ جوان ایک کمنٹ تیار رکھتے ہیں کہ: “کتاب کی پی ڈی ایف کاپی بھیجیں”۔
مانتا ہوں کہ کچھ مصنفین اپنی کتاب کی سافٹ کاپی خود ہی عام کردیتے ہیں، (خصوصا وہ نام نہاد مصنفین جن کو سرمایہ کی کمی نہ ہو اور کتاب پر مصنف سے زیادہ اس کے شاگردوں، کمپوزر اور مصححین نے محنت کی ہو،) لیکن بھیا ہمارا جگرا کم از کم اتنا بڑا نہیں ہے کہ ہم کتاب چھپتے ہی فورا یہ کام کرسکے۔
جن ممالک تک کتاب کی ترسیل ممکن نہ ہو یا جو دوست خریدنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں، وہ اگر ایسا مطالبہ کریں تو زیادہ دکھ نہیں ہوتا، لیکن ایسے لوگ بھی سافٹ کاپی کا مطالبہ کرتے ہیں، جو باآسانی کتاب خرید سکتے ہیں، لیکن کتاب پر کچھ رقم لگانے سے ان کی جان جاتی ہے، جبکہ ان کی فیس بک آئی ڈی ان کے ٹورز، اعلی قسم کے دعوتوں اور اسراف کی خرمستیوں سے بھری ہوتی ہے۔
خدارا! کتاب پڑھیں، نہ پڑھیں، لیکن صاحب کتاب سے ہدیہ یا سافٹ کاپی مانگ کر، اور پھر انکار پر اسے کنجوسی یا کتمان علم کے طعنے دیکر شرمندہ نہ کریں۔
والسلام
اسجد قاسمی