عشق کے دو پہلو ہیں۔۔
(1) عشق حقیقی جسے اہل مغرب عشق روحانی کہتے ہیں۔
(2) عشق مجازی۔ صوفیہ عشق حقیقی کے مدعی ہیں اور محبوب ازلی سے اظہار محبت کرتے ہیں۔
عشق مجازی کے دو معروف پہلو ہیں۔
(1) رومانی عشق
(2) ہم جنسی عشق۔
عشق حقیقی کا تصور بنیادی پر نو اشراقی ہے۔ سکندریہ کے ایک عارف فلاطینوس نے افلاطون کے اشراقی افکار کی نئے سرے سے ترجمانی کی تھی۔ افلاطون نے کہا تھا کہ کائنات کی جملہ اشیاء، حسن ازل کی جانب کشش محسوس کرتی ہیں۔ اسی کشش کو اس نے “عشق” کا نام دیا۔
افلاطون کے نظریہ عشق سے بحث کرتے ہوئے فلاطینوس نے کہا کہ انسانی روح عالم ہست و بود میں آکر مادے کی اسیر ہو گئی ہے۔ اور اپنے مبدا کے فراق میں تڑپتی رہتی ہے۔ تجرد اور ریاضت کی زندگی گزارنے سے روح مادے کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے اور دوبارہ ذات حقیقی میں جذب ہو جاتی ہے۔
عشق کا یہ تصور فلاسفۂ اسلام میں بڑا مقبول ہوا اور ان کے واسطے سے صوفیہ تک پہنچا ، فارابی کا قول ہے:
“خدا خود عشق ہے اور تخلیق و تکوین کا اصل سبب بھی عشق ہی ہے۔”
سنائی، عطار، رومی، جامی اور حافظ شیرازی نے ولولہ انگیز پیرائے میں اسی عشق کی گوناگوں کیفیات کو نظم کیا تھا۔ ہنود ویدانتی برہمن آتما ایکتا کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں آتما مایا کے جال سے آزاد ہو جائے تو وہ دوبارہ برہمن میں جذب ہو جاتی ہے۔ بھگت شاعروں نے رادھا (آتما) اور کرشن (برہمن) کے حوالے سے اس نظریے کی ترجمانی کی ہے، گووندا، میراں، سورداس وغیرہ کی شاعری میں رادھا کرشن سے والہانہ اظہار محبت کرتی ہے اور اس سے وصال کی خواہاں ہوتی ہے۔
المانوی اشراق میں نو فلاطونی نقطہ نظر کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ جرمن شاعر دلکے جو ا پنے ہم قوم مائسٹرا کہارٹ کے عرفانی افکار سے متاثر ہوا تھا اپنی ایک نظم میں کہتا ہے :
“خدایا! میری موت کے بعد تو کیا کرے گا؟
میں وہ سانچا ہوں جس میں تو موجود ہے ، اس کے ٹوٹ جانے کے بعد تیرا کیا بنے گا؟
میں وہ مئے ہوں جسے تو پیتا ہے اس کے سڑ جانے کے بعد تیرا کیا ہوگا ؟
میں تیرا لباس ہوں تیرا مشغلہ ہوں، مجھے کھو کر تیری اپنی ذات بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔”
تحلیل نفسی کی رو سے عشق لازماً جنسی ہوتا ہے۔ عشق روحانی یا عشق حقیقی بھی اسی کی ایک صورت ہے کہ صوفیہ عشق حقیقی کا اظہار ہمیشہ مجاز ہی کے پیرائے میں کرتے رہے ہیں۔ حافظ شیرازی کی غزلیات، میراں کے بھجنوں ، ولیہ تریسا کے مراقبات اور رومی کی مثنوی میں اظہار عشق کے لئے جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ خالصتاً مجاز کی زبان ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے محبوب کی آواز سنے، اسے دیکھے، اسے چھوئے اور گلے سے لگائے۔ غالب
تکلف بر طرف لب تشنہ بوس و کنار رستم
زراہم باز چیں دام نوازش ہائے پنہاں را
یہی وجہ ہے کہ ایک ذات مجرد و بسیط وبیچون و بیچگون سے جو شعور اور ادراک کی گرفت سے آزاد ہو، عشق کرنا محال ہے۔ اس لئے انسان حقیقت کو لباس مجاز میں دیکھنے کا متمنی ہوتا ہے ، اس لئے محبوب حقیقی کا تصور بھی مجاز کے پیرائے میں کرتا ہے تاکہ وہ اس سے عشق کرسکے۔
رومانی عشق کا تصور تحریک جوانمردی (عربی میں اسے فتوت یا فروسیت کہتے ہیں۔ فرانسیسی میں شیولر کا معنی شہسوار اور لفظ شولری فروسیت [شہسواری] کا لغوی ترجمہ ہے) کے ساتھ وابستہ ہے جس کا آغاز عرب سے ہوا تھا اور جو فلسطین ، صقلیہ اور ہسپانیہ سے مغربی ممالک میں پھیلی تھی۔ اس تحریک کے آداب تھے شجاعت ، حماست، مروت ، مہمان نوازی اور عورتوں کی حفاظت۔ مورخین اس کا آغاز عنترہ بن الشداد سے کرتے ہیں جس نے عورتوں کی حفاظت کرتے ہوئے جان دی تھی اور جو جاہلی دور کا مشہور جوانمرد اور شاعر تھا۔ عہد جاہلیت کی عورتیں اس قسم کے مضمون کے اشعار پڑھ پڑھ کر میدان جنگ میں اپنے مردوں کی ہمت بندھاتی تھیں۔
“ہمت! ہمت!! اے عورتوں کے محافظوں! ہمت سے کام لو۔ اپنی تلواروں کی دھار سے دشمن کو کاٹ ڈالو ، ہم طارق (ستارہ سحر) کی بیٹیاں ہیں۔ جن غالیچوں پر ہمارے پاؤں پڑتے ہیں، وہ نرم ہیں۔ ہمارے گلوں میں موتیوں کے ہار ہیں۔ ہماری زلفیں عنبریں ہیں۔ جو بہادر دشمن سے لڑیں گے ہم انہیں گلے لگائیں گی لیکن جو بزدل ہوکر بھاگ نکلیں گے ہم انہیں ٹھکرا دیں گی اور ہماری بانہیں ان کے گلے میں نہ پڑیں گی۔”
اشاعت اسلام کے بعد جناب امیر المومنین علی بن ابی طالب فتوت کے مثالی نمونے بن گئے۔ شامی لشکریوں نے عورتوں پر دست تعدی دراز کیا تو آپ نے فرمایا۔
مجھے تو یہاں تک خبرملی ہے کہ اس لشکر کا ایک آدمی مسلمان عورت کے گھر میں اور دوسرا ذمی عورت کے یہاں گھس جاتا تھا اور اس کے خلخال، دست بند، بندے، گوشوار ے چھین لیتا تھا ۔۔۔ یہ واقعہ سن کر اگر کوئی مرد مسلمان غم سے ہلاک ہو جائے تو اس پر تعجب نہیں کیا جا سکتا۔”
دنیائے اسلام میں الناصر عباسی ، صلاح الدین ایوبی، اور سلطان رکن الدین بیبرس بندوقداری جوانمردی ک درخشاں روایات کے پاسباں تھے۔ مرور زمانہ سے تحریک جوانمردی سے مسلک نسائیت نے جنم لیا یعنی عشق میں عورت کی پرستش مشمول ہوئی۔
عشاق اپنی محبوبہ کی ادنی سی خواہش کی تکمیل کو بھی فرض عین سمجھتے تھے اور اس کے دئیے ہوئے رومال کا پھریرا اپنے نیزے کے سرے پر لہرا کر اکھاڑوں میں اترتے تھے۔ اس مسلک میں عورت کو ایک مافوق الطبع مخلوق تسلیم کیا جاتا تھا اور نہایت پرجوش انداز میں اس سے اظہار عشق کرتے تھے۔ محبوبہ جتنی عالی نژاد ہوتی تھی اتنی ہی شیفتگی سے اس کے حسن و جمال کے گیت گاتے تھے۔
پاکبازی کے عشق کی روایت بدوؤں کے ایک قبیلے بنو عذرا سے یادگار ہے۔ مسعودی نے بنو عذرا کے بے لوث عشق کو الہوی العذری کہا ہے اور اس قبیلے کے دو عشاق عفراء اور عروہ کی المناک عشقیہ داستان بیان کی ہے۔ جمیل بن معمر العذری اور اس کی محبوبہ شبینہ اسی قبیلے کے افراد تھے۔ عذری عورتیں اپنے عشاق سے توقع کرتی تھیں کہ وہ ان کی تعریف میں شعر کہیں تاکہ ان کے حسن و جمال کا شہرہ دور دور تک ہو جائے۔ عشق عذری کا یہ تصور بغداد سے ہسپانیہ تک پھیل گیا۔ ہسپانیہ کی شاعری بلکہ تمام رومانی شاعری میں عذری نصیب العین دکھائی دیتا ہے۔ ابن داود اصفہانی اور ابن فرج جائنی عذری اس تصور عشق کے مشہور پاسبان تھے۔ ابن فرج عذری کہتا ہے۔
“’اگرچہ وہ سپردگی پر آمادہ تھی لیکن میں نے ضبط سے کام لیا۔ رات کو وہ کھلے منہ آئی، رات کے سایوں میں اس کا چہرہ چمک اٹھا۔ اس کی ایک ایک نگاہ دل کو بے قرار و بے خود کرنے کے لئے کافی تھی لیکن میں نے ہوس کے منہ زور گھوڑے کو بے قابونہیں ہونے دیا۔ میں نے رات اس کے ساتھ گذاری جیسے اونٹنی کا بچہ جس کا منہ رسیوں سے باندھ دیاجائے اور وہ اپنی ماں کے تھن سے دودھ نہ پی سکے۔ میرے جیسے لوگ پھولوں بھرے باغ میں صرف ان کا نظارہ کرتے ہیں۔ اور خوشبو سونگھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ میں آوارہ و حوش سے نہیں ہوں جو اس باغ کو اپنی چراگاہ بنالیتے ہیں۔”
اس کے دو سو برس کے بعد مرسیہ کے شاعر صفوان بن ادریس نے کہا:
“وہ کس قدر حسین ہے۔ حسن تو اس کی محض ایک صفت ہے ، اس کی حرکات نہایت جادو بھری ہیں۔ وہ چاند کی طرح خوبصورت ہے، چاند سے پوچھاجائے تم کیا چاہتے ہو تو وہ جواب دے گا میں اس کا ہالہ بننا چاہتا ہوں۔ چاند اس کے چہرے کے سامنے آجائے تو گویا وہ عکس ہے ، اس کے چہرے کا جو آئینے میں پڑ رہا ہے۔ رات کے وقت میں اس سے ملا۔ میرے جبے کے نیچے آگ سلگ رہی تھی۔جیسی کہ تمتمائے گالوں میں سلگی ہے۔ میں نے اسے گلے لگا کر بھینچا جیسے کہ بخیل اپنے خزانے کو بھینچتا ہے ۔ میں نے اسے بازوؤں میں جکڑ لیا کیوں کہ وہ غزال ہے، میں ڈرتا ہوں وہ بھاگ نہ جائے لیکن میری پاکبازی نے مجھے اجازت نہ دی کہ میں اس کا منہ چوموں اور میرا دل بھڑکتے ہوئے شعلوں میں جلتا رہا۔ اس شخص کا دھیان کرو جس کا اندرون پیاس کی شدت سے جل رہاہو ، لیکن وہ پانی سے اپنا حلق تر نہ کرے۔”
تاریک زمانوں کے دوران میں یورپ میں ایک بھی عشقیہ نظم نہیں کہی گئی کیوں کہ ایک تو عشقیہ شاعری مذہباً ممنوع تھی دوسرے یورپ کی اجڈ، وحشی اقوام جذبہ عشق کی لطافت اور حسن نسوانی کی قدر و قیمت سے نا آشنا تھیں، چنانچہ 11/ویں صدی سے پہلے یورپ میں رومانی عشق کا تصور ناپید تھا۔ اسی دوران میں ہسپانیہ اور صقلیہ کے عرب شاعروں نے بے نظیر عشقیہ نظمیں کہیں جن میں موشیح اور زجل کے اصناف کو خاص شہرت حاصل ہوئی۔ عرب طراب [انگریزی کا لفظ TROUBADOUR اور فرانسیسی کا لفظ TROVIER ، لفظ طراب ہی کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں۔ یہ لوگ عشق و محبت اور جنگ و جدال کے گیت سازوں کے ساتھ گا کر سناتے تھے] (گا کر شعر سنانے والے) عشق ناکام اور حرماں نصیبی کے مضامین دلدوز پیرائے میں گاکر سناتے تھے۔ تحریک جوانمردی کی اشاعت کے ساتھ یہ روایت فرانس کے ایک صوبے پروونس میں سرسبز ہوئی جو ہسپانیہ کی سرحد پر واقع تھا۔ مغربی اقوام کی عشقیہ شاعری پروونس کی شاعری ہی سے متفرع ہوئی ہے۔ ابن قزمان کی کتاب الاغانی میں ایک سو سے زیادہ عشقیہ قصائد ہیں جو عام فہم عربی روز مرے میں لکھے گئے تھے۔
ولیم نہم جو یورپ کی اس دور کی شاعری کا باوا آدم تھا۔ ابن قزمان ہی کا معاصر تھا اور عربی اصانف شعر سے متاثر ہوا تھا۔ بعد میں آنے والے شاعر گویوں نے اس کی تقلید میں روحانی نظمیں لکھیں۔ پروونس کی اس دور کی رومانی شاعری کا خاتمہ ری کو سر پر ہوا یعنی دو سو برس تک فرانس کی عشقیہ شاعری پر عربی شاعری کے اثرات ثبت ہوتے رہے۔ پروونس کے شاعروں نے موضوعات کے ساتھ عربی شاعری کے اسالیب بھی اپنالئے۔ عربوں نے جنس اور تقدس کے امتزاج سے رومانی شاعری کی بنیاد رکھی تھی۔ اندلس کے شاعروں نے اس روایت کی آبیاری کی اور عشق ناکام کی حسرت ناکی پر پرجوش نظمیں لکھیں لیکن مغرب کی اجڈ اقوام میں جنس اور تقدس کا تعلق برقرار نہ رہ سکا۔ مغربی سورما عربوں کی طرح عالی ظرف اور پاک بیں نہیں تھے۔اس لئے ان کے یہاں مسلک نسائیت کی پاکبازی مجروح ہو گئی۔ یہ سورما اپنی محبوب خواتین سے تمتع کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے تھے۔ جو سورما کسی حسینہ کو دشمن کے چنگل سے چھڑاتا وہ اس کے ساتھ خلوت میں جانے کا مستحق سمجھاجاتا تھا۔ گول میز کا ایک سورما سر لانسیلاٹ شاہ آرتھر کی ملکہ گینور سے کھلم کھلا معاشقہ کرتا تھا۔
صوفیہ کے عشق حقیقی کی طرح رومانی عشق بھی جنسی جبلت ہی کی مرتفع صورت ہے۔ شیخ اکبر ابن عربیاندلس کے مشہور وجودی صوفی تھے، انہوں نے اپنی حسین محبوبہ نظام سے عشق کیا تھا اور اس کے حسن و جمال کی تعریف و توصیف میں پرجوش قصائد لکھے تھے۔ ان کا قول ہے :
“جس نے عشق کیا اور مرتے دم تک پاک منشن رہا وہ شہید کی موت مرا۔”
یاد رہے کہ رومانی عشق ایسے معاشرے میں پنپ سکتا ہے جس میں مردوں عورتوں کو آزادانہ میل ملاپ کے مواقع نہ ملیں۔ اس تفریق سے دونوں ایک دوسرے کی ذات میں کشش نامعلوم محسوس کرتے ہیں۔ مرد عورت کوکوئی آسمانی مخلوق سمجھنے لگتا ہے اور عورت مرد میں بطل جلیل کو تلاش کرتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس معاشرے میں عورتیں مرد بلا تکلف اور بے محابا ایک دوسرے سے ملتے ہیں اس میں رومانی عشق کا کھوج نہیں ملتا۔ وحشی قبائل میں جن کے ہاں آزادانہ جنسی ملاپ کا رواج ہے۔ رومانی عشق کا تصور ناپید ہے۔ آسٹریلیا ، افریقہ اور جزائر غربالہند کے وحشی قبائل میں لڑکے لڑکیاں شادی سے پہلے جنسی تعلق قائم کرلیتے ہیں اور محبت کے نام ہی سے ناآشنا ہوتے ہیں۔
جب مشنریوں نے الگاکون قبیلے کے وحشیوں کی زبان میں بائبل کا ترجمہ کرنا چاہا تو انہیں مقامی بولی میں لفظ عشق کا کوئی مترادف نہ مل سکا۔ مارگریٹ میڈ لکھتی ہیں کہ سموان وحشیوں کو رومیو جولیٹ کی کہانی سنائی گئی تو وہ مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوگئے اور کہنے لگے :
“ان نادانوں کو خود کشی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ باہم مل کر ہنسی خوشی زندگی گزار سکتے تھے”۔
اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ رومانی محبت کا آغاز ایسے معاشرے میں ہوا جس میں مردوں اور عورتوں کے مابین شرم و حجاب کی دیواریں حائل کر دی گئی تھیں۔ جدید مغربی معاشرے میں بھی آزادانہ جنسی ملاپ نے رومانی محبت کا خاتمہ کردیا ہے۔ آج کل کے کسی مغربی نوجوانوں یا لڑکی کے سامنے رومانی عشق کا نام لیاجائے تو ان کے لبوں پر زہر خند پھیل جاتا ہے۔
افلاطونی یا ہم جنسی عشق کی روایت یونانی الاصل ہے۔ قدمائے یونان کے یہاں عشق صادق خالصتاً ہم جنسی ہوتا ہے۔ یورپ کے ادباء اور شعراء نے غلطی سے مرد عورت کے ایسے عشق کو افلاطونی کہنا شروع کیا جس میں عشاق پاک باز ہوں۔ فی الحقیقت افلاطونی عشق سے مراد ہم جنسی محبت تھی جسے اہل یونان جملہ محاسن اخلاق کا مصدر سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں نوجوانوں کی مناسب تربیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے سے عشق کریں کہ اس کے بغیر انسان کردار و شخصیت کی بلندیوں تک پہنچنے سے قاصر رہتا ہے۔ افلاطون سمپوزیم میں کہتا ہے:
“ایراس (عشق کا دیوتا) کو قدیم ترین دیوتا سمجھاجاتا ہے ، ہم اس کے فیوض و برکات کے لئے اس کے ممنون احسان ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کسی نوجوان کا اس سے بڑا فائدہ اور کس بات میں ہوسکتا ہے کہ اس سے عشق کیاجائے یا وہ کسی سے عشق کرے۔ جو لوگ شریفانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں ان کی زندگی کی تکمیل نہ دولت سے ہوسکتی ہے۔ نہ اعزاز سے نہ کسی اور شئے سے۔ عشق ہی اس مقصد کے حصول میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے”۔
اسی مکالمے میں عشق کی ماہیت سے بحث کرتے ہوئے افلاطون دیو تیمہ کی زبان میں کہتا ہے:
“وہ لوگ جن کی تخلیقی جبلت جسمانی ہوتی ہے عورتوں سے رجوع لاتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ بچے پیدا کر کے وہ اپنے پیچھے غرفانی یادگار چھوڑ جائیں گے۔ لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی تخلیقی تمنا روحانی ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کی تخلیقات جسمانی نہیں روحانی ہوتی ہیں کہ روح انہیں عالم وجود میں لاتی ہے۔ اگر تم پوچھو کہ وہ تخلیقات کیا ہوتی ہیں تو میں کہوں گی کہ وہ دانش اور نیکی ہیں جن کے خالق شاعر اور دوسرے فن کار ہوتے ہیں۔دانش کی اعلی صورت مملکت اور خاندان کی تنظیم ہے جسے ہم توافق اورعدل کا نام دیتے ہیں۔”
یہ کلیہ قائم کرکے افلاطون کہتا ہے کہ ایک حسین دوست کا عشق روحانی حسن کی جانب رہنمائی کرتا ہے حتی کہ وہ حسن مطلق کے نصب العین کو پالیتا ہے۔ اس عشق کا آغاز بقول اس کے خوبصورت نوجوانوں کی محبت سے ہوتا ہے۔ اسمیں عورت کی محبت کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ مرد اور عورت کا باہمی عشق ایک مرض ہے[1] اور جنوں کی ایک قسم ہے جس سے غوروفکر کی صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں۔
[1]: ہندوؤں کے ہاں مرضِ عشق کے دس مراحل ہیں۔ آنکھ کی محبت، دل کی کشش، خواہش کا ابھار، بےخوابی، دبلا پن، تمام چیزوں سے بےاعتنائی، شرم و حیا کا اٹھ جانا، خیالات کا انتشار، بےہوشی، موت۔
تھیوکریٹس نے مرض عشق کا علاج یہ تجویز کیا تھا کہ مریض کو گانا سننے کی ترغیب دلائی جائے افلاطون کے خیال میں حسین لڑکوں کا عشق جسمانی پہلو سے شروع ہوتا ہے۔ اور حسن، صداقت ، عدل اور خدمت خلق کے نصب العین پر منہتی ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مذہب، آرٹ اور اخلاق کی بنیاد اسی عشق پر استوار کی گئی ہے۔
سمپوزیم کے مباحثے میں شرکت کرنے والے اس بات پر متفق ہوجاتے ہیں کہ مرد کی مرد سے محبت مرد عورت کی محبت سے کہیں زیادہ شریفانہ اور ارفع ہوتی ہے۔ ایک اور مکالمے فیدرس میں بھی افلاطون نے ہم جنسی عشق کی تعریف و توصیف کی ہے۔ یہ ہے وہ افلاطونی عشق جسے شبلی، براؤننگ اور دوسرے شعراء نے غلط مفہوم دیا تھا۔
ہمارے ہاں صوفیہ بھی عشق مجازی کو عشق حقیقی کا پیش خیمہ سمجھتے رہے ہیں۔ ایک صوفی کا قول ہے “المجاز قنظرۃ الحقیقۃ” (مجاز حقیقت کا پل ہے) یہ مرحلہ بعض اوقات نوعمر حسین امردوں سے عشق کرکے طے کیاجاتا تھا۔
عشق کے تمام پہلوؤں کا ذکر کرنے کے بعد یہ سوال پیداہوگا کہ آخر عشق کیا ہے؟
راقم التحریر کے خیال میں اس کا جواب یہ ہوگا کہ عشق جنسی کشش کی شائستہ اور ارفع صورت ہے۔ بعض اصحاب فکر عشق کو سراسر ایک شہوانی ضرورت سمجھتے ہیں۔
* عشق محض ادعیہ منی کو خالی کرنے کی لذت کا نام ہے جس طرح ہم ادراربول سے اپنامثانہ خالی کرتے وقت یا رفع حاجت کے وقت بڑی انتڑیوں کے خالی ہونے سے تسکین محسوس کرتے ہیں اسی طرح ادعیہ منی کو خالی کردینے میں ہمیں اک گونہ حظ نفس محسوس ہوتا ہے۔قدرت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے لئے لذت اورغلاظت کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ (مانتین)
* عشق نام ہے محبت سے مقاربت کی خواہش کا۔ (مانتین)
* عشق کی تعریف کرنامشکل ہے ، عقلیاتی لحاظ سے یہ ہمدردی ہے اور روحانی پہلو سے یہ دوسرے شخص پر قابو پانے کی خواہش ہے۔ جسمانی لحاظ سے محبوب سے متمتع ہونے کی آرزو ہے۔ (راک فوکال)
* عشق اور بھوت کا حال ایک جیسا ہے ، سب ان کی باتیں کرتے ہیں لیکن کسی نے انہیں نہیں دیکھا۔ (راک فوکال)
* نظریاتی لحاظ سے عشق مثالیاتی رفعت طلبی ہے۔عقلاً یہ بد ترین قسم کی ہوس کاری ہے جس سے متعلق بات کرنے اور سوچنے سے بھی ننگ و عار محسوس ہوتا ہے۔ (لیو ٹالسٹائے)
* مرد کا عشق اس کی جنسی آسودگی کے ساتھ ہی ماند پڑ جاتا ہے۔ جب وہ اپنی محبوبہ سے فیض یابہوتا ہے تو دوسری عورتوں کی طرف مائل ہوجاتا ہے،اس لئے عشق فطرت کے حصول مقصد کا ایک وسیلہ ہے۔اسکا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہ مقصد پورا ہونے پرعشق کا جذبہ بھی سرد پڑ جاتا ہے۔ ( شوپنہائر)
* اکثر لوگ اپنی محبوبہ سے فیض یاب ہونے کے بعد عشق ومحبت کوبالائے طاق رکھ دیتے ہیں، یہ عین فطرتی ہے۔ کیا ایسا عشق بھی ممکن ہے جس میں یہ بات نہ ہو۔ ( ژنگ)
* عشق میں لذت کم اور درد زیادہ ہے، لذت ایک واہمہ ہے۔عقل کا تقاضا یہ ہے کہ عشق سے اجتناب کیاجائے۔ یہ محض جنسی جذبے کی کارفرمائی ہے اس سے بچنے کابہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو آختہ کرالے۔ (ہارٹ مان)
* بعض گمراہوں کو عشق سوجھتا ہے اوراس سے کمال درجے کی جہالت غرض اصلی جماع سے پائی جاتی ہے اور قوت بہیمی میں چوپایوں سے بھی بڑھ جاتا ہے اسلئے کہ چوپایہ اپنی شہوت کو کسی نہ کسی طرح دور کردیتا ہے اور عاشق ایک خاص شخص کے سوا اور کسی طرح اپنی شہوت رفع نہیں کرسکتا یہاں تک کہ اس کے لئے ذلت پر ذلت اور غلامی اٹھاتا ہے۔ (غزالی، احیاء العلوم)
* عشق کے نام پر بہت کچھ بکواس کی جاتی ہے اور اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ لوگ ایسے باتیں کرتے ہیں جیسے عشق دنیا کی عظیم ترین قدر ہے۔ افلاطون نے دلکش پیرائے میں جذباتی نفس پروری کا ذکر کیا ہے۔ قدماء کا یہ رویہ عشق سے متعلق مناسب اور قابل فہم تھا۔ مسلمانوں کے صحت مند حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے اسے ایک جسمانی ضرورت ہی سمجھاجاتا ہے۔ عیسائیت میں نو فلاطونی جذبات ممزوج ہوئے جس نے اسے زندگی کا ایک اہم مقصد اور جواز بنادیا لیکن عیسائیت غلاموں کا مذہب تھا۔اسنے کچلے ہوئے ستم رسیدہ لوگوں کو بہشت کی بشارت دی تاکہ ان کی حالیہ زندگی کے مصائب و آلام کی تلافی ہوسکے۔ دوسرے منشیات کی طرح عشق کے نشے نے بھی نشہ کرنے والوں کو مضمحل اور بے حس کردیا۔ اس نشے نے ہماری قوت ارادی کو سلب کرلیا ہے اور ہمیں بزدل بنادیاہے۔ جدید دور میں ہم جان گئے ہیں کہ ہمیں دنیا کی اور بہت سی چیزیں عشق کی بہ نسبت زیادہ عزیز ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ صرف احمق اور کمزور طبع لوگوں کے اعمال ہی عشق سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم اس کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ کتابوں میں منبرپر عشق و محبت کے بارے میں واہی تباہی بکے جارہے ہیں جس سے سکندریہ کے غلاموں نے دھوکا کھایا تھا۔ (سومرسٹ مام، کرسمس ہالی ڈے)
حیاتیاتی پہلو سے جنسی خواہش کھانے کی جبلت سے پیدا ہوئی ہے۔ بوسے میں دونوں کا امتزاج موجود ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ عشق اور بھوک ماں کے پستانوں میں جمع ہوجاتے ہیں۔ بوسہ لینے کی تمنا اور محبوب کے رخسار و گلو وغیرہ کو چومنے کی خواہش اس بات کا ثبوت ہے کہ منہ میں خوراک اور انسانی جبلتیں جمع ہوگئی ہیں۔ اس کے خیال میں جب جنسی جبلت اپنی اصل منزل یعنی جنسی تشفی سے بھٹک جاتی ہے یا اس تک پہنچ نہیں پاتی تو اس محرومی کو عشق کا نام دیاجاتا ہے۔ وہ عشق کو دورخا سمجھتا ہے یعنی جذبہ محبت میں نفرت بھی مشتمول ہے۔
ایک دفعہ ایک شخص نے فرائڈ سے لکھ کر استفسار کیا کہ آیا جنسی جبلت سے علاحدہ بھی عشق کا کوئی وجود ہے ، فرائڈ نے جواب میں لکھا:
“جناب من میں آپ کی درخواست پوری کرنے سے قاصر ہوں، آپ بہت زیادہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آج تک مجھے اس بات کی جرات نہیں ہوسکی کہ میں عشق کی ماہیت پر کوئی مفصل بیان دے سکتا۔ میرے خیال میں اس کے بارے میں ہمارا علم بہت محدود ہے۔”
فرائڈ کے اس خط سے مفہوم ہوتا ہے کہ وہ جنسی خواہش سے الگ عشق کا تصور کرنے سے قاصر ہے ایرک فروم اور کرن ہورنی نے فرائڈ سے اختلاف کیاہے۔ ایرک فروم کہتا ہے کہ جنس ہی عشق کی بنیاد نہیں ہے نہ محض جنسی جذبے کی تشفی یا محرومی سے انسانی کردار کی تشکیل ہوتی ہے ، وہ کہتا ہے کہ انسان معاشرتی وجود ہے۔ اس کے جذبہ عشق میں جنس کے علاوہ معاشرتی علائق بھی دخیل ہوتے ہیں۔ کرن ہورانی کہتی ہیں کہ عشق کا مطلب خود سپردگی ہے۔ کسی شخص کا اپنے آپ کو بے اختیار اپنے محبوب کے سپرد کردینا یہی عشق ہے۔
جو شخص جتنا زیادہ خود سپردگی کا اہل ہوگا اتنے ہی زیادہ عشق سے بہرہ مند ہوگا۔ جو عورت یا مرد کامل سپردگی کے قابل نہ ہو وہ کسی سے حقیقی محبت نہیں کرسکتا اس نوع کی عورت سرد مہر ہوتی ہے اور اس قسم کا مرد کسی کا مخلص دوست نہیں بن سکتا۔ فرائڈ کے خیال کے برعکس کرن ہورانی انا کی شکست کو عشق کا لازمی سمجھتی ہیں۔ کئی ارباب نظر عشق کو محض حیوانی جذبے کی آسودگی ہی نہیں سمجھتے بلکہ ایک اعلی وارفع جذبہ خیال کرتے ہیں جس کے اثرات انسان کے ذہن و قلب پر صالح اور رفعت بخش ہوتے ہیں۔
* عشق بے مایہ اور گھٹیا چیزوں کو باوقار بنا دیتا ہے۔ (شیکسپیئر)
* عشق سب سے بڑا معجزہ ہے۔ یہ ایک معمولی کلرک کو فرشتہ بلکہ دیوتا بنا دیتا ہے۔ ( وکٹر ہیوگو)
* عشق پاکیزہ ترین جذبہ ہے اور بے شمار خوبیوں اور نیکیوں کا مصدر ہے۔ یہ اعلی کارنامے انجام دینے کی تحریک کرتا ہے اور تمام عظماء اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ (مولیئر)
* عشق دنیا کا سب سے سریلا نغمہ ہے۔ (بالزاک)
ایک فرو مایہ،دنی الطبع شخص عشق اور فلسفے سے بہرہ یاب نہیں ہو سکتا۔ (ول ڈیوراں)
* عشق قوت ہے ، توانائی ہے ، روح کے تمام عوارض کا واحد علاج ہے۔ عشق ہر شخص کی دسترس میں ہے ، اس پر آشوب عالم میں صرف عشق ہی ایک مستقل اور محکم عنصر ہے۔ عشق ایسی لا زوال دولت ہے جس میں دوسرے حصہ نہیں بٹا سکتے۔ فیلڈز نے کہا ہے کہ عشق نہ صرف فرد کے دل کو گرماتا ہے بلکہ ہر اس شخص کومتاثر کرتا ہے جو اس کے قریب آتا ہے۔ ( فرینک کارپریو)
* میں ان عورتوں کا شکر گزار ہوں، جن کے عشق سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اگر میں محبت نہ کرسکتا تو نہایت تنگ نظر ہوتا۔ (برٹرنڈ رسل)
* ایک عورت نے کہا، جب میں عشق کررہی ہوں تو میرا اعتماد انسانیت پر بحال ہوجاتا ہے، ہر شے کامل و اکمل دکھائی دیتی ہے۔ ہر چیز حسین لگتی ہے ہر شے میں خواب ناک شریعت پیدا ہو جاتی ہے۔ (فرائڈ)
* عشق جنسی خواہش اور دوستی کے امتزاج کا نام ہے۔ ( سومرسٹ مام)
* فرائڈ کا یہ خیال صحیح نہیں کہ خلل ذہن جنسی فاقہ زدگی کا نتیجہ ہے۔فی الاصل خلل ذہن عشق و محبت سے محرومی کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ (تھیوڈور رائک)
برٹرنڈرسل نے پر مغز بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ عشق محض جنسی خواہش ہی نہیں ہے بلکہ اس احساس تنہائی کا مداوا ہے جو اس بے کراں کائنات اور معاندانہ معاشرے میں تمام عورتیں اور مرد محسوس کرتے ہیں وہ کہتے ہیں:
“عشق صرف جنسی خواہش تک محدود نہیں ہے۔ یہ اس احساس تنہائی کا جو اکثر مردوں اور عورتوں کے لئے زندگی بھر کا عذاب بن جاتا ہے سب سے بڑا مداوا ہے۔اکثر لوگ اربارب دنیا کی سرد مہری سے دہشت محسوس کرتے ہیں اور ابنائے زمانہ کے ظلم و ستم سے ڈرتے ہیں۔ انہیں محبت کی آرزو ہوتی ہے جسے اکثر اوقات مرد درشتی سرکہ جبینی اور غنڈے پن میں چھپاتے ہیں اور عورتیں اس پر بد مزاجی اور عیب جوئی کے پردے ڈال لیتی ہے۔ پرجوش باہمی محبت اس احساس تنہائی کا خاتمہ کر دیتی ہے ، انا کی سنگین دیواروں کو توڑ پھوڑ دیتی ہے اور ایک نئے آدمی کو جنم دیتی ہے جو یک جان دو قالب ہوتاہے۔فطرت نے انسان کو تنہا رہنے کے لئے پیدا نہیں کیا کیوں کہ بنی نوع انسان فریق ثانی کے بغیر حیاتیاتی تقاضے پورے نہیںکر سکتے نہ مہذب اشخاص عشق کے بغیر جنسی جبلت کی بھرپور تشفی کرسکتے ہیں۔اس جبلت کی کامل تسکین نہیں ہوتی جبتک کہ انسان پوری خودسپردگی سے فریق ثانی سے تعلق پیدا نہ کرتے۔ جن لوگوں کو پرمسرت محبت کی دلی رفاقت اور بے تکلفی کا تجربہ نہیں ہواوہ زندگی کی بہترین نعمت سے محروم رہے ہیں، شعوری طور پر نہ سہی لا شعوری طور پر انہیں اس محرومی کا احساس ہوتا ہے اس کے نتیجے میں انہیں جو مایوسی ہوتی ہے وہ انہیں رشک و حسد ، جوروستم اور جبروتشددکی طرف مائل کردیتی ہے۔”
برٹرنڈر سل کا یہ خیال نہایت قابل قدر اورفکر انگیز ہے کہ انسان عشق کی بدولت اپنے احساس تنہائی پر قابو پاکر سچی محبت سے بہرہ اندوز ہو سکتا ہے ، عشق کے موضوع پر بات کرتے ہوئے مارسل پروست کہتا ہے کہ ہم کسی حقیقی شخص سے پیار نہیں کرتے بلکہ اس آدمی سے محبت کرتے ہیں جسے خود ہمارے تخیل نے تخلیق کیا ہو۔ ایک عاشق صادق اپنے محبوب کی خامیوں اور کوتاہیوں سے قطع نظر کرلیتا ہے اور اسے مثالیاتی مقام عطا کرتا ہے۔والیٹر نے اپنی لغات فلسفہ میں کہا ہے کہ انسان بالطبع ہر شئے کو مثالیاتی رنگ دے دیتا ہے چنانچہ اس نے عشق کو بھی مثالیاتی بنادیا ہے۔ادون کہتا ہے کہ محبوب کی صورت میں ہم اپنی ہی ذات سے عشق کرتے ہیں۔ ہماری پہلی اور آخری محبت اپنی ہی ذات کی محبت ہوتی ہے۔ جب کسی عاشق کی محبوبہ اسے دھتا بتادیتی ہے تو اس سے جو صدمہ وہ محسوس کرتا ہے وہ اسلئے نہیں ہوتا کہ اسکی محبوبہ اسے چھوڑ کر چلی گئی ہے بلکہاس لئے ہوتاہے کہ اس کی انا کو ٹھیس لگتی ہے اور اس کا اعتماد اپنی کشش پر سے اٹھ جاتا ہے حسد عشق کا لازمہ اسی لئے کہ عاشق کے دل میں یہ شبہ گھر لیتا ہے کہ اس کا رقیب اس سے زیادہ پرکشش اور خوبصورت ہے اس احساس سے انا کی جراحت ہوتی ہے جو عذابناک تلخی کا سبب بن جاتی ہے۔
جن جن لوگوں نے عشق کیا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ عشق کیا ہے اور جو بد نصیب اس سے محروم رہے ہیں انہیں سمجھانے کی کوشش بے سود ہے بہر کیف جیسا کہ ہم نے کہا تھا علمی سطح پر عشق جنسی کشش کی شائستہ اور افع صورت ہے۔ ظاہراً ایک مہذب معاشرے میں جنسی جبلت کے اظہار میں شائستگیاور رفعت پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ انسان مہذب معاشرے کا فرد ہونے کی حیثیت سے عشق کا اہل ہوا ہے ، وحشی قبائل کے افراد جو تہذیب و تمدن کے برکات اور اخلاقی قدروں سے نا آشنا ہیں عشق کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ انسان ذی عقل و ذی شعور ہونے کے باعث عشق و محبت سے روشناس ہوا جب جنسی جبلت میں عقل و شعورکا شمول ہوا تو انسان نے حیوانی جنسیت سے انسانی عشق کی طرف پہلا قدم اٹھایا تھا۔اس سے قبل وہ بھی وحوش کی طرح اپنی جنسی تشفی کرلیا کرتا تھا گویا جذبۂ عشق عقل و خرد ہی کا پروردہ ہے۔فرائڈ اور اس کے پیرو جو انسان کے تمام ذہنی و معاشرتی عوارض کا علاج بے محابا جنسی ملاپ میں تلاش کرتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ بے مہری اور سرد دلی کی مقاربت انسان کو دوبارہ چوپایہ بنادے گی۔ انسانی سطح پر جنسی خواہش کی تسکین کے لئے عشق و محبت ضروری ہے کیونکہ عشق انسان کوبھر پورمسرت سے سرشار کردیتا ہے۔۔۔ایسی مسرت جومحض جنسی ملاپ سے ارزانی نہیں ہوا کرتی۔
برٹرنڈرسل نے کہاہے کہ بہترین زندگی وہ ہے جو علم سے راہنمائی حاصل کرے اورعشق سے فیضان پائے۔عشق انسان کی انا اورنرگیسیت کی بندشوں کو جوکسٹر،خود بیں،بے رحم، قابوچی اور خود غرض بنادیتی ہیں،توڑ پھوڑ دیتاہے اور عشق کے طفیل و ہ ایثار، بے نفسی، مروت، ہمدردی اور انسان دوستی کے خالصتاً انسانی احساسات سے آشنا ہوتا ہے۔
مولانا روم نے نہایت دلکش پیرائے میں عشق کے صالح اثرات کا ذکر کیا ہے:
از محبت تلخ ہا شیریں شود
وز محبت مسہا زریں شود
از محبت دردہا صافی شود
وز محبت دردہا شافی شود
ازمحبت خار ہا گل میں شود
وز محبت سر کہا مل می شود
از محبت دار تختے می شود
وز محبت یار بختے میں شود
از محبت سجن گلشن می شود
وز محبت دیو حورے می شود
از محبت سنگ روغن میں شود
وز محبت موم آہن می شود
از محبت خار سوسن می شود
وز محبت تار روشن می شود
ماخوذ از کتاب:
جنسیاتی مطالعے
مصنف : علی عباس جلال پوری