::: " حبسیات،۔۔۔۔۔ اردومیں قیدیوں کا ادب اور۔۔۔۔۔۔ امریکہ کا شعری زندان نامہ" :::
دنیا کی ادبیات میں زندان کا ادب دلپچسپی سے ہی نہیں پڑھا جاتا رہا ہے بلک اس پر کتابیں لکھی گئی اور نصابی سطح پر بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے اور اس پر تحقیقی مقلات بھی لکھے گئے ہیں اور جیل میں پابند سلاسل قیدیوں کے تحریرِیں جرائد اور اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں بلکہ اس کے دیگر زبانوں میں ترجمے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ یہ موضوع ایک علم بھی ہے اوراسے ایک مزاج بھی کہا جاسکتا ہے۔ زندان کے ادب کو اردو میں حبسیات یا حبیسہ بھی کہا جاتا ہے۔ زندان یا جیل میں لکھنے والے ادب کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ ایک زندان میں لکھا جانے والی نثر یا شاعری ہوتی ہے ، خانہ بندی یا نظر بندی میں لکھنے والا اپنی یاداشتوں، مشاہدات،ذہنی اور قلبی واردات کو لکھتا ہے، جس میں عموما اعصابی تناو، تنہائی ، زہنی اور قلبی وردات حاوی ہوتی ہے۔ اردو ادب میں بھی ہمیں بہت سا ایسا ادب ملتا ہے جو دورانِ قید تخلیق ہوا۔
اس حوالے سے ہم غالب سے شروعات کرتے ہیں،جنھیں 18477 میں جوئے کا اڈا چلانے کے الزام میں چھ مہینوں کے لیے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ بعد میں انہیں تین مہینے سزا کاٹنے پر رہائی ملی۔
اپنی قید کے دوران غالب نے 84 شعروں پر مشتمل فارسی میں ایک نظم { ترکیب بند} تیار کی جسے غلام رسول مہر نے لکھا۔
اس عرصے میں انہوں نے کم از کم ایک اردو شعر بھی لکھا جس کا محققین اکثر ذکر کرتے رہے ہیں۔
آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو 18577 میں 'برطانیہ کے خلاف بغاوت' کی کمان کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ جبکہ درحقیقت انہوں نے اپنے ملک اور لوگوں کو غیر ملکی غاضبانہ قوتوں سے بچانے کی کوشش کی تھی۔ ظفر اپنی ذات میں خود ایک شاعر تھے اور خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے قید میں شاعری کی۔
ہم یقین سے تو نہیں بتا سکتے کہ ان کے کون سے شعر قید میں لکھے گئے، لیکن قید کی وجہ سے ان کی کچھ غزلوں میں مایوسی کی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔علامہ فیض الحق خیر آبادی کو برطانیہ کے خلاف جہاد کرنے کے حق میں فتویٰ دینے پر انڈیمان کے جزائر بھیج دیا گیا تھا۔
اس دوران، انہوں نے 1857 میں جنگ آزادی کی تاریخ پر عربی میں 'صورت الہندیہ' لکھی۔
بعد میں عبدالشاہد خان شیروانی نے اس کا اردو میں ترجمہ اور 'باغیٔ ہندوستان' کے نام سے شائع کیا۔
انڈیمان جزائر پر موجود قیدیوں میں جعفر تھانیسری کا نام بھی شامل ہے، جنہوں نے ' نصائح جعفری' پر کام شروع کیا، تاہم حکام نے ان کا مسودہ ضبط کر لیا۔
بعد میں انہوں نے دورانِ قید دو کتابیں لکھیں جن میں سے ایک پورٹ بلیئر کے آئین کا اردو ترجمہ تھا جبکہ دوسری 'تاریخِ پورٹ بلیئر' عرف 'تاریخِ عجیب' تھی۔
ان کی مشہور سوانح عمری 'کالا پانی' دراصل 'تاریخِ عجیب' کا سیکوئل ہی تھی۔
سن 19088 میں مصر پر برطانوی پالیسی کے خلاف تنقیدی مضمون لکھنے پر حسرت موہانی کو دو سال قید بامشقت دی گئی۔
اس دوران انہوں نے کئی غزلیں اور نظمیں لکھیں جو ان کے مجموعہ کلام کا حصہ ہیں۔
مولانا محمد علی جوہر کو 1921 ،کراچی میں ایک باغیانہ تقریر کرنے پر گرفتار کیا گیا۔
اس شاعر، سیاست دان اور صحافی نے اسیری کے دنوں میں نظمیں لکھنے کے علاوہ اپنی سوانح عمری 'مائی لائف: اے فریگمنٹ' بھی لکھی۔
جوہر کے گرفتار ہونے کے بعد، مولانا عبدالکلام آزاد کو بھی جوہر کے نقطہ نظر کی حمایت کرنے پر کلکتہ کے علی پور جیل میں بند کر دیا گیا، جہاں ان کے ساتھ 'آزاد ہند' کے ایڈیٹر عبدالرزاق ملیح آبادی بھی موجود تھے۔
ملیح آبادی کے بے حد اصرار پر آزاد نے انہیں اپنی سوانح عمری لکھوائی، جسے بعد میں 'عبدالکلام کی کہانی خود ان کی زبانی' کے نام سے شائع کیا گیا۔
سن 19422 میں آزاد کو 'انڈیا چھوڑ مہم' میں حصہ لینے پر دوبارہ پکڑ لیا گیا۔ اس مرتبہ انہیں احمد نگر جیل بھیجا گیا جہاں انہوں نے حبیب الرحمان کے نام اپنے مشہور خطوط تحریر کیے۔
یہ خط 'غبارِ خاطر' اور 'کاروانِ خیال' کے نام سے شائع ہوئے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ قرآن پاک پر آزاد کے تبصرہ 'ترجمہ القرآن' کا کچھ حصہ بھی دوران قید ہی لکھا گیا۔
مجلسِ احرار کے ایک رہنما چوہدری افضل نے اپنی مشہور کتاب 'زندگی' جیل میں لکھی۔ حضرت محمد (صلی اللہ وعلیہ وسلم) کی زندگی پر ان کی کتاب 'محبوبِ خدا' بھی ملتان اور راولپنڈی کی جیلوں میں تالیف ہوئی۔
برطانوی حکام کی جانب سے بار بار قید میں ڈالے جانے کی وجہ سے ظفر علی خان نے کئی نظمیں جیل کی سلاخیوں کے پیچھے ہی لکھیں۔ان کا مجموعہ کلام 'حبسیات' مکمل طور پر جیل میں لکھا گیا۔
اسی طرح فیض احمد فیض کی 'دشتِ صبا' کا بڑا حصہ جیل میں تخلیق ہوا۔ ان کا تیسرا مجموعہ کلام 'زنداں نامہ' قید کی مرہون منت تھا۔احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، علی سردار جعفری اور نعیم صدیقی نے بھی اپنی کئی نظمیں جیل میں لکھیں۔{ " قید کے دوران تخلیق ہونے والا اردو ادب " از روف پاریکھ ، ڈان نیوز ، 3 فروری 2014 }اردو میں واجد علی شاہ نے میٹار برج کولکاتہ مین اپنی نظر بندی کےدوران ایک مظنوی اور اپنی بیگم زہرہ کے نام خطوط لکھے۔ حسرت موہانی کا جیل میں لکھا ہوا یہ شعر اب بھی اکثر پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ھے حسرت کی طعبیت بھی
سید سجاد ظہیر نے قید کےدوران جو خطوط لکھے تھے وہ " نقوش زندان" کے نام سے شائع ہوئے۔ شورش کاشمیری نے " پس دیوار زندان"،" تمغہ خدمت" اور " موت کی واپسی" کے نام سے کتابیں لکھیں۔ فیض احمد فیض کے جیل سے لکھے ہوئے خطوط " صلیبیں مرے دریچے کی" نے بھی شہرت حاصل کی۔ فیض جب جولائی 1951 میں حیدرآباد { سندھ پاکستان} جیل میں پابند سلاسل تھے تو وہ اس وقت بھی رومانی اور عاشقانہ شاعری کرنے سے باز نہیں آئے۔۔۔۔۔۔۔ تیرے حس سے رہتی ہے ہمکنار نظر
۔۔۔۔۔۔ تمہاری یاد سے دل ہمکلام رہتا ہے
اردو میں جیل سے لکھی جانے والی ادبّا اور شعرا کی تحریریں بہت مقبول رھی ہیں اور انھیں قارئیں نے دلچسپی سے پڑھا بھی ہے۔ ان تحریروں میں سیاسی احتجاج ، مزاحمت نااںصافیوں کی نشاندھی ہونے کے ساتھ ساتھ بہتر معاشرے کے خواب بکھرے ہوتے تھے ۔ مگر اردو ادب میں سنگین جرم کرنے والے قیدی تخلیق کاروں کی تحریرون کو کبھی جگہ نہیں دی گئی۔ حا لانکہ ان تحریرں میں ایم منفرد اور فکر انگیز معاشرتی ، جمالیاتی، احتجاجی اور رومانی سیاق اور نظر آتا ہے۔ راقم اسطور نے امریکی جیلوں میں خطرناک اور سنگیں جرائم کے مرتکب قیدیوں سے ملاقات کرکے یہ نظمین حاصل کی تھی۔ جو کہیں شائع نہیں ہوئی تھیں۔ یہ وہ قیدی ہیں جو اپنی زندگی میں کبھی جیل سے باہر نہیں جا پائے گے اور ان میں سے کچھ کو چندھی دنوں بعد زہر کا انجکشن دے کر موت کی سزا دی جائے گی۔ امریکہ کے جیلوں قیدیوں کے لیے اخبارات اور میگزیں بھی شائع کئے جاتے ہیں۔ جن میں ان قیدیوں کی تخلیقات چھپتی ہیں۔ راقم الحرف نے کچھ سال قبل امریکی کی ریاست ٹیکساس کے زندان خانوں میں قید ی شعرا کی نظموں کا ترجمہ کیا تھا۔ اور اس قیدیوں اے ملاقات بھی کی تھِی۔ زیر نظر نظمیں ممبئی کے ادبی جریدے " شاعر" کی نومبر 2010 کی اشاعت میں شامل تھے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔