”کشمیر میں اردو“ کے مصنف حبیب کیفوی کا اصل نام حبیب اللہ تھا لیکن علمی و ادبی حلقوں میں حبیب کیفوی کے نام سے متعارف ہوئے۔ جموں میں پیدا ہونے والے حبیب کیفوی آزادکشمیر آئے اور آغاز میں حکومت آزاد کشمیر نے انہیں شعبہ نشرواشاعت میں بطور پبلسٹی آفیسر تعنیات کیا۔ حبیب کیفوی بعد ازاں پاکستان رائڑز گلڈ لاہور سے وابستہ رہے اور باقی ماندہ زندگی علم و ادب و شعر وسخن سے وابستہ رہ کر گزاردی:
پاکستان آنے کے بعد ان کا ادبی کارنامہ شعری مجموعہ ”آتش چنار“ اور نثری تصینف”کشمیر میں اردو“ ہے۔ ہجرت کے بعد حبیب کا بڑا سرمایہ ان کی وطن سے وابستہ یادیں ہیں۔ ان یادوں کو بہت عزیز رکھتے ہیں ۔ ”کشمیر میں اردو“ اور ”آتش چنار“ حبیب کی وطن سے وابستہ یادوں کا عملی اظہار ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر میں اردو زبان و ادب کی ابتداءارتقاءاور عروج ، مختلف شعرا اور نثر نگاروں کے حالات و واقعات اور ادبی تصانیف و خدمات کی پہلی مربوط صورت ”کشمیر میں اردو“ ہے۔ کتاب کی انفرادیت و اہمیت کے بارے میں جان محمد آزاد لکھتے ہیں:
حبیب کیفوی کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین اردو کے ممتاز رسالوں میں شائع ہو تے رہے۔ زبان و بیان کا یہ دھلا دھلا انداز نہایت شیریں اور شگفتہ تھا۔ آپ نے ڈراموں اور فیچر نویسی کی طرف بھی توجہ کی اور ان شعبو ں میں نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ لیکن آپ کا جو کارنامہ ایک لازوال سوغات رکھتا ہے۔ وہ ان کی تصنیف ”کشمیر میں اردو“ ہے ۔ آپ کا یہ عظیم تحقیقی پراجیکٹ پہلی بار 1979ءمیں شائع ہوا۔ اس کی اشاعت کا اہتمام مرکزی اردو بورڈ لاہور نے کیا تھا۔ 566صفحات پر پھیلی یہ ضخیم کتاب جموں و کشمیر میں اردو و شعر و ادب کے ارتقاءکا سیر حاصل جائزہ لیتی ہے اور ان حالات و واقعات پر بھی کماحقہ روشنی ڈالتی ہے جن کی وجہ سے یہ کشمیر میں اردو فارسی زبان کی وارث قرار دی گئی۔
”کشمیر میں اردو“ کو ارمغان قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر سید عبداللہ بیان کرتے ہیں:
کشمیر میں اردو کی یہ کہانی جو حبیب کیفوی نے بڑی تحقیق اور دیدہ ریزی سے مرتب کی ہے اہل علم کے لیے ارمغان کا درجہ رکھتی ہے۔ میں اسے گنج شائگان بھی کہہ سکتا ہوں اور سرمہ¿ دیدہ¿ اہل بصیرت بھی۔ کشمیر کے مناظر کی دلفریبی و جاذبیت سے لطف اندوز ہونے کے لیے لوگ یہاں آتے ہیں لیکن برصغیر کے علمی و ادبی حلقوں کے لیے یہ سر زمین ایک زیارت کدہ بن گئی ہے۔ چناں چہ ان کی موجودگی سے یہ سرزمین دارلشعرا بن جاتی رہی۔ کیفوی صاحب نے ایک خاص رنگ ِ تحریر کے ذریعے کئی یادگار مشاعروں کی تصویریں کھینچی ہیں۔ میرے خیال میں اس موضوع پر اس سے بہتر کتاب اردو میں نہیں لکھی گئی۔
تاہم ڈاکٹر افتخار مغل مختلف رائے کا اظہار کر تے ہیں۔ ان کے مطابق:
اگرچہ اس مطالعے میں خطہ کے اردو ادب کے بارے میں وقیع اور قابل لحاظ معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں لیکن یہ معلومات ادب سے زیادہ زبان کے بارے میں ہیں اور ان میں ادبی اصناف ، رجحانات اور تحریکوں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگرچہ اس میں خطہ کے شاعروں اور ادیبوں کے حالات زندگی اور تصانیف کے ضمن میں تو سپاٹ انداز میں معلومات موجود ہیں لیکن یہ معلومات کسی کتاب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ مثال کے طور پر قدرت اللہ شہاب، محمود ھاشمی، منشی محمد دین فوق ، چراغ حسن حسرت ،غلام احمد پنڈت اور کہکشاں ملک جیسی مقتدر ادبی شخصیات کے بارمے میں معلومات اس میکانکی ، سپاٹ اور بے رس انداز میں جمع کر دی گئی ہیں۔
ڈاکٹرافتخار مغل کی رائے اپنی جگہ لیکن کتاب کی تصنیف و تالیف میں جس طرح حبیب کیفوی نے عرق ریزی سے کام لیا ہے اور متعلقہ مواد اکٹھا کرنے کے لیے مختلف کتابوں اورر سالوں کی جس انداز میں ورق گردانی کی اس نے کشمیر میں اردو ادب کو شرمندہ تعبیر کر دیاچنانچہ بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے عبدالقادر سروری کی ”کشمیر میں اردو“ ہو یا اس کے بعد کشمیر میں اردو سے متعلق آنے والی تصانیف ہوں جبیب کیفوی کی ”کشمیر میں اردو“ کو ایک اہم اور مستند حوالے کے طو ر پر لیا جاتا ہے۔
حبیب کیفوی نے ”کشمیر میں اردو“ کا آغاز کشمیری ادب سے کیا ہے اور کشمیر ی ادب کو چار ادوار میں تقسیم کیاہے:
پہلادور: ششی کٹھ، للہ عارفہ اور شیخ نورالدین ولی پر مشتمل ہے
دوسرا دور: حبہ خاتون سے ارنی مال تک ہے۔
تیسرا دور: محمود گامی سے وہاب پرے تک۔
چوتھا دور: مہجور سے شروع ہوتا ہے۔
حبیب کیفوی نے دوسرے دور کو رومانی شاعری کے عروج کا دور قرار دیا ۔ ان کے خیال میں :
ادب کے دوسرے دور کے نمائندہ شاعروں میں حبہ خاتون، خواجہ حبیب اللہ نوشہری اور ارنی مال نمایاں ہیں۔ اس دور میں رومانی شاعری کو عروج حاصل ہوا۔فارسی شاعری جو کشمیر ی میں رواج پاچکی تھی ، اس دور کی کشمیر ی شاعری پراثر انداز ہوئی حسن و عشق کے معاملات ، گل و بلبل کے راز و نیاز، فراق و وصال کی لذتیں اور حسن فطرت کی عکاسی کشمیری شاعری کے موضوعات بن گئے ۔ لیکن اس نئی تبدیلی سے پہلے دور کی حکیمانہ اقدار یکسر نظر انداز نہیںکر دی گئیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ صر ف جذبات کے اظہار کا اسلوب بدلتا رہا۔ اس عہد کی نمائندہ شاعرہ حبہ خاتون ہے جس نے کشمیر ی زبان میں رومانوی شاعری کی ابتداءکی ۔ حقیقت یہ ہے کہ حبہ خاتون نہ صرف اپنے عہد کی نمائندہ ہے بلکہ اس کے اشعار کے اثرات ہر دور پر مرتب ہوئے ہیں۔
حبہ خاتون کا تمام کلام عشق و محبت کے لطیف جذبات کا آئینہ دار ہے ۔ اس نے اپنے محبوب شوہر کی جدائی میں جو فراقیہ اشعار کہے وہ کشمیری شاعری کا سرمایہ ہے جو ہر دور میں عورت کے احساسات کی ترجمانی کرتا رہے گا اور اس کا نام ہمیشہ عزت و احترام سے لیا جاتا رہے گا۔ ۶
مثلاً یوسف شاہ کی جدائی میں حبہ خاتون اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہے:
میں تو ہاتھوں میں مہندی رچائے
کب سے بیٹھی ہوں آس لگائے
وہ کب آئیں گے کوئی بتائے
وہ جو آئیں گے سج کے سجا کے
مر ی جاتی ہوں کاش وہ آئیں
اب تو راہ نہ اتنی دکھائیں
اب تو دل کی لگی کو بجھائیں
چلی چلوں گی سیج لٹا کے
کوئی تیر ے بنا میرے پیارے
کیسے جیون کی رہن گزارے
میں تو جیتی ہوں تیرے سہارے
تیر ی یادوں کے ناز اٹھا کے۔
کشمیری شاعری کے ادوار کے ذکر کے بعد حبیب کیفوی نے ریاست میں اردو زبان کی آمد کا پس منظر ، اردو زبان کا آغاز، اس کے مقبول عام ہونے کے اسباب کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ان قابل ذکر شخصیات کے حالات و واقعات کو بھی بیا ن کیا ہے کہ جن کی وجہ سے خطہ کشمیر میں اردو زبان کو بہت قلیل مدت میں اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ وہ ریاست کی سرکاری زبان ٹھہری۔ ان شخصیات میں علامہ محمد اقبال، فانی بدایونی، میر ولی اللہ ایبٹ آبادی، مولانا ظفر خان، پنڈت برج نرائن، چکبست اور حفیظ جالندھری شامل ہیں۔ حبیب کیفوی نے تقریباً ایک سو بائیس نثر نگاروںاور شاعروںکے مختصر حالات زندگی ، تصانیف اور مختلف شعرا کے نمونہ کلام کو اپنی کتاب کا حصہ بنایا ہے ۔ اس کے علاوہ ان ادبی انجمنوں کا ذکر بھی کیا ہے جنہوںنے کشمیر میں اردو کے فروغ میں بنیادی اور اہم کردار اداکیا ۔