ایوب دور میں۔۔ ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
بھٹو دور میں۔۔۔ لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو
ضیأالحق دور میں۔۔۔ ظلمت کو ضیأ، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
بےنظیر دور میں۔۔۔ وہی حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
لکھنے کی جرأت کرنے والے درویش حبیب جالب 1993 کے اوائل میں اپنی موت سے پہلے ہسپتال میں تھے تو جناب جواد نظیر نے ان کی خدمت کا ایک وسیلہ پیدا کیا تھا۔ حبیب جالب قریبآ روز چند اشعار ہسپتال سے اپنے بیٹے کے ہاتھہ دفتر جنگ بھجواتے اور جواد نظیر صاحب اسی روز صفحہ2 پر لگوادیتے۔ انہی میں سے یہ پرزہ میں نے سنبھال رکھا۔ اب کوئی تحقیق کرے کہ ان دنوں جنگ میں چھپنے والے اشعار جالب کے مجموعے میں شامل ہوئے یا نہیں۔اگر نہیں ، تو جنگ لاہور کی فائلوں سے جمع کر لئے جائیں۔
افسوس کہ جالب کی اولاد تقسیم ہے۔ الگ الگ برسی مناتے ہیں۔ بلکہ الگ الگ دن !
حبیب جالب کی تاریخ وفات 12 مارچ 1993 ہونےکا مغالطہ شاید یوں پیدا ہوا کہ جالب کا انتقال 12 اور 13 مارچ 1993 کی درمیانی شب ساڑھے بارہ اور پونے ایک کے درمیان ہوا تھا۔ اخبارات تین بجے تک تیار ہوتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ 13 کے اخباروں میں خبر چھپ گئی ہوگی۔ یوں سمجھا گیا کہ 12 کو انتقال ہوا۔
صحیح تاریخ وفات 13 مارچ ہی ہے، جو ان کی قبر کے کتبے پر بھی درج ہے۔
حبیب جالب کے کچھہ اشعار
آنے والی برکھا دیکھیں کیا دکھلائے آنکھوں کو
یہ برکھا برساتے دن تو بن پریتم بیکار گئے
چھوڑ اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے
ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسائے رکھا
دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھہ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
دنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں
دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھہ کہتے ہیں
اک تری یاد سے اک تیرے تصور سے ہمیں
آ گئے یاد کئی نام حسیناؤں کے
اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری
دو روز میں ہم پر جو یہاں بیت گئی ہے
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
جن کی یادوں سے روشن ہیں میری آنکھیں
دل کہتا ہے ان کو بھی میں یاد آتا ہوں
کچھہ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں
کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے
کچھہ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں
بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں
لاکھہ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری
ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں
نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے
پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو
جستجو آج بھی اسی کی ہے
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ
الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے
ان کے آنے کے بعد بھی جالبؔ
دیر تک ان کا انتظار رہا
اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی
ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا
یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم
لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“