غلاموں کے بیوپار آواز لگا رہے ہیں بازار میں خوب چہل پہل ہے، خریدار اپنے من پسند کی خریداری کررہے ہیں، انسانوں کا یہ بازار بھی کیا خوب ہے یہاں تو صرف انسان بیچے اور خریدے جاتے ہیں ، بیچنے والے بھی کیا خوب ہیں دور دراز سے چن چن کر انسانوں کو لاتے ہیں تاکہ اپنے شہر کے بازار میں زیادہ قیمت پر بیچ سکیں، کوئی موٹا تازہ غلام کو خرید رہا ہے تو کوئی لمبا تڑنگا کوئی حسن کو ترجیح دے رہا ہے تو کوئی قبیلہ اور خاندان کا انتخاب کررہا ہے، اسی بازار میں ایک بیوپار کے پاس ایک غلام ہے جو نہایت ہی کالا کلوٹا رات کی تاریکی سے بھی زیادہ سیاہ لیکن جثہ کے اعتبار سے نہایت ہی ڈیل ڈول ہے، چہرہ پر بھی بشاشت کے آثار نمایاں ہے ذہن و دماغ بھی بالکل جچا تلا ہے اس کا مالک آواز لگا رہا ہے لیکن ہر کوئی اس کو نظر انداز کر رہا ہے اتنے میں ایک عقل و خرد رکھنے والا ایک شخص نمودار ہوتا ہے جو اس غلام کے چہرہ پر بشاشت کے آثار کو وہ پرکھ لیتا ہے اور اس کو منہ بولا قیمت پر خرید لیتا ہے خرید نے والا شخص بڑا متمول تھا بڑی دولت و ثروت اس کے قدموں میں تھی علاوہ ازیں وہ اپنے قبیلہ کے سرداروں میں سے ایک سردار بھی تھا اس غلام کو خرید نے کے بعد اس سے بڑا بڑا کام لے رہا تھا وہ نوجوان بھی اپنے مالک کا خوب وفادار تھا اطاعت و فرمانبرداری اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کر چکی تھی لیکن غلام غلام ہی ہوتاہے،
انہیں دنوں مکہ میں ایک روشنی نمودار ہوئی اور دھیرے دھیرے تاریکیاں چھٹنے لگیں اس روشنی میں اس قدر کشش تھی کہ جس پر اس کی کرنیں پڑ جاتی اس کے دل کی تاریکی دور ہو جاتی ہر شخص اس روشنی کا دیوانہ ہو چلا تھا کیونکہ وہ روشنی فطرت کے بالکل عین مطابق تھی وہ روشنی ایسی تھی کہ اس سے ظلم و بر بریت کا خاتمہ ہورہا تھا، بھولے بھٹکے انسانوں کو راہ راست کی طرف گامزن کررہی تھی وہ روشنی کسی اور ذات سے نہیں نمودار ہو رہی تھی بلکہ وہ ذات حضور صلی االلہ علیہ کی ذات تھی جس کی آمد کی دنیا منتظر تھی ، ایک طرف آپ علیہ السلام کو ماننے والوں کی تعداد روز افزوں تھی تو دوسری طرف کفار تھے جو ماننے والوں کیلئے آگ کی حیثیت رکھتے تھے انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جاتی ظلم کا وہ کونسا جادو ہے جو ان پر چلایا نہ گیا ہو ۔۔ ادھر اس کالے کلوٹے غلام کو بھی اس روشنی کی بھنک لگ چکی تھی اور اس کے فرمانبردار ہو گئے تھے باطل چھوڑ کر حق کو اپنا لیا تھا شرک کی دل دل سے نکل کر صاف ستھری زندگی میں داخل ہوچکا تھا جب اس کے مالک کو خبر ہوہی کہ میرا فرمانبردار اب میری اطاعت سے نکل چکا ہے اپنے باپ دادا کے راہ سے بھٹک چکا ہے تو پھر اس کے تیور بدل گئے اور غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ پھر کیا تھا ظلم کرنے والوں میں بھی ان کا ایک اپنا مقام تھا اپنے غلام پر پل پڑے اور مارنا شروع کیا اس قدر ماررہا تھا کہ دیکھ کر ہر شخص کی آنکھیں نم ہو جاتی مار مار کر جب تھک جاتا تو اس حبشی نوجوان سے کہتا اب بھی ۔۔ محمد۔ کی باتوں کا انکار کردو تم پر سے یہ مصیبت ہٹا لی جائے گی، لیکن وہ حبشی نوجوان جواب میں کہتا۔۔ احد احد۔۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ سزا کافی نہیں ہے تو اب اس کے پیچھے غنڈوں کو لگا دیا وہ غنڈے عین دوپہر کے وقت اس نوجوان کو تپتی ہوئی ریت میں لٹا دیتا اور اس کے سر پر بھاری بھرکم پتھر رکھ دیتا تاکہ وہ کلمہ حق انکار کردے لیکن چونکہ اس نوجوان میں ایمان کی چنگاری پیوست ہو چکی تھی اور پورے بدن میں پھیل چکی تھی وہ نوجوان کا بس ایک ہی جواب ہوتا۔۔ احد احد۔۔ پھر اس پر تشدد کیا جاتا گھوڑے کی زین میں رسی باندھ کر گرم ریت میں اسے گھسیٹا جاتا لیکن حق کی محبت میں یہ سب برداشت کرنا وہ سعادت سمجھ رہا تھا ، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس کا مالک اسے مارا جارہا تھا کہ اچانک ایک شریف اور رحمدل انسان ادھر سے گزرا وہ اس تشدد کو دیکھ نہ سکا اس کے بدن کی حالت دیکھ کر اس کو خوب ترس آیا چنانچہ اس شریف اور نیک طبع انسان نے اس کو خرید کر آزاد کریا، اور اس مصیبت سے اس کی جان چھڑائی،
اب وقت آچکا تھا کہ اس نوجوان کو اس پر کئے مظالم کا بدلہ دیا جائے اور اس بدلہ کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا ، بدلہ یہاں سے شروع ہوا۔۔ کہ آذان کی مشروعیت ہو چکی تھی اب ضرورت تھی ایک ایسے شخص کی جو بخوبی اس کو انجام دے سکے چنانچہ نگاہ نبوت اس نوجوان پر پڑی اور قسمت نے اس حبشی نوجوان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مؤذن مقرر کردیا ، دنیا آج اس نوجوان کو ۔۔۔ حضرت بلال بن رباح کے نام سے جانتی ہے،
اسی بلال کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ۔۔ بلال کو میں جنت میں اپنے آگے آگے چلتا ہوا دیکھتا ہوں، حضرت بلال کا رگ رگ عشق نبی سے سرشار تھا عشق کا یہ عالم تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو وہ مدینہ چھوڑ کر چلا گیا یہ کہتے ہوئے کہ۔۔۔ جب میرا معشوق ہی نہیں رہا تو اب میرا یہاں کیا کام ۔۔ اور آذان نہ دینے کی قسم کھالی ،چند مہینہ بعد جب وہی بلال اپنے حبیب کے روضہ کی زیارت کو مدینہ آیا تو لوگوں نے خوب اصرار کی وہ آذان دیں بالآخر وہ لوگوں کے اصرار کو ٹال نہ سکا اور جیسے ہی وقت آذان ہوا اللہ اکبر۔ کی صدا بلند کی جیسے ہی حضرت بلال کی آواز کانوں سے ٹکرائ سب کی ہچکیاں بندھ گئیں ایسا لگ رہا تھا کہ گویا حضور تشریف فرماں ہیں اور بلال آذان دے رہے ہیں سب کے دل میں حضور کی یاد تازہ ہوگئی اور پورے مدینہ سے صرف رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی ، ادھر بلال کا یہ حال تھا کہ جیسے ہی ۔۔۔اشہد أن محمد الرسول اللہ۔۔ پر پہنچے آپ پر غشی طاری ہو گئی اور بے ہوش ہوکر گر پڑے، اس کے چند دن بعد وہ مدینہ چھوڑ کر روانہ ہو گئے اور مدینہ کے باہر اپنی بقیہ زندگی گزاری،
(عزیز بچو)۔
دیکھا آپ نے کہ ایک حبشی غلام جب حضور کی محبت میں گرفتار ہوا تو وہ کس مقام پر پہنچ گیا اگر ہمارے دل میں بھی حضور صلی االلہ علیہ کی ایسی محبت بیٹھ جائے تو پھر ہماری تقدیر بدل سکتی ہے اور ہم بھی دنیا و آخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں،