پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے پھیلاؤ سے کئی سازشی تھیوریوں کے پنپنے اور پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایسا نہیں کہ انٹرنیٹ کے دور سے پہلے کوئی سازشی تھیوری یا غلط اطلاع یا افواہیں نہیں پھیلتی تھیں۔ ایک خاندان کی مثال ہی لے لیجیے۔ گھر میں بھی ساس، نندیں، دیور، بھاوج، سسر، ماموں ، تایا، پھوپھی، خالو، دادا، لکڑ دادا، پر دادا، لکڑ کا بھی لکڑ دادا وغیرہ وغیرہ سب کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی گھریلو افواہوں کی لپیٹ میں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں یا سازشی ذہن رکھتے ہیں۔ افواہ یا غلط معلومات کا تبادلہ خاندان سے لیکر معاشرے کی ہر اکائی میں ہوتا ہے۔ غاروں میں رہنے والے انسان یا جنگلوں میں جانوروں کا شکار کرتے لوگ سبھی افواہوں کا شکار یا افواہ پھیلانے کا آلہ کار بنتے رہے ہیں۔ اور کوئی بھی افواہ یا غلط معلومات سازشی تھیوری کی بنیاد بن جاتی ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے؟
یہ ایک دلچسپ انسانی رویہ ہے۔ انسان دراصل کسی کمپیوٹر پروگرام کی طرح من و عن ایک خبر کو یا ایک معلومات کو دوسرے تک نہیں پہنچا پاتے۔ فرض کیجئے میں نے ایک واقعہ دیکھا اور اب جب میں آپکو اسکی تفصیل بتاؤ گا تو آپکا دماغ اسے اپنے مطابق سمجھے یا تصور کرے گا۔ یہاں میں آپکو واقعہ سنانے کے دوران جہاں جہاں آپکی دلچسپی بڑھتی دیکھوں گا وہاں وہاں غیر شعوری طور پر اُس بات کو مزید کھینچوں گا۔ اس میں مزید تفصیل بتانے کی کوشش کرونگا۔ یوں معلومات ہو بہو آپ تک نہیں پہنچے گی۔ اس میں کچھ بدلاؤ آئے گا۔ بالکل ایسے ہی جب آپ میرا سنایا گیا واقعہ کسی اور کو سنائیں گے تو وہاں آپ اپنے مطابق بات کو تبدیل کر دیں گے۔ ایسا کرتے کرتے اصل بات کا مطلب و معانی بالکل ہی تںدیل ہوتا چلا جائے گا۔ سازشی تھیوریاں کچھ ایسے ہیں پھیلتی ہیں۔ مگر اس میں ایک فرق اور بھی ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کہ آپ جس چیز پر پہلے سے ہی یقین کیے ہوتے ہیں یہ سازشی تھیوری اسے مزید پختہ کرتی ہے۔ جب وہ تھیوری آپکے کسی یقین کی کسی بھی بات کو دور کی کوڑی لاتے ہوئے بھی کنفرم کر دے تو آپ پکے ہو جاتے ہیں۔ آپ ثبوت نہیں مانگتے۔ آپکے دلائل کا محور کسی کی کہی بات یا کسی کے سنے جملے پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ آپ مکمل حقائق نہیں دیکھتے۔
اب مثال لیتے ہیں ہارپ ٹیکنالوجی کی سازشی تھیوری کی۔ ہمارے ہاں یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ امریکہ ہر وقت ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے اور امریکہ ہمیں تباہ کرنا چاہتا ہے۔ اس بات کے پیچھے ماضی کے کئی واقعات، امریکہ کے دنیا بھر میں غاصبانہ تسلط اور امریکہ کی خارجہ پالیسیوں سے جڑے ہیں۔مزید یہ کہ ہماری اشرافیہ کے لیے یہ آسان ہے کہ وہ امریکہ کو دشمن ثابت کر کے اصل مسائل اور اپنی صدیوں کی نااہلی کا مکمل ملبہ امریکا یا مغربی ممالک پر ڈال دے۔ ایسے میں عام عوام میں آمریکہ کے خلاف بد اعتمادی ایک قابلِ فہم بات ہے۔ تو اب ہم یہ تو سمجھ گئے کہ امریکہ کے خلاف بداعتمادی موجود ہے تو ایسے میں اگر کوئی آپکو آ کر یہ کہے کہ آج پاکستان میں جو سیلاب آئے ہیں یہ سب امریکہ کی سازش ہے تو آپ اسے ماننے میں ذرا بھی تردد نہیں کریں گے بھلے آپکے پاس اسکے ثبوت ہوں یا نہ ہوں۔
انٹرنیٹ کے آنے سے البتہ یہ ہوا کہ ان سازشی تھیوریوں کو لوگوں نے سائنسی اصطلاحوں سے بھر کر انہیں بظاہر ایسا بنا دیا کہ لوگ ان پر یقین کرنا شروع کر دیں۔ مثال کے طور پر ہارپ ٹیکنالوجی کا تعلق زمین سے اوپر فضا میں 50 سے 1 ہزار کلومیٹر کے فضائی حصے کی تحقیق کے حوالے سے ہے۔ اس فضائی حصے کو آئینوسفیر کہا جاتا ہے۔ اب وہ لوگ جو سائنس سے یا موسموں کی سائنس سے ناواقف ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ زمین پر موسم جنکا تعلق دراصل پانی کے بادلوں سے ہے، یہ بادل کتنے اوپر تک ہوتے ہیں؟ کم سے کم دو کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ تقریباً 7 کلومیٹر اوپر۔ ہارپ ٹیکنالوجی کا تعلق بادلوں سے کیسے ہو سکتا ہے جبکہ یہ آئنوسفیر (جو 50 کلومیٹر سے اوپر شروع ہوتی ہے) کے کسی خاص حصے کو ہائی فریکوئنسی ریڈیائی لہروں کے ذریعے متحرک کر کے اسکے اثرات کو سمجھنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اسکا ایک مقصد سورج کی تابکاری شعاعوں کا فضا کے اس حصے پر سثرات کو جاننا ہے اور دوسرا خکا میں سٹللائیٹس کمیونیکشن کے خلل کا اس فضائی حصے میں بدلاؤ سے تعلق سمجھنا ہے۔ اس پراجیکٹ میں ہائی فریکوئنسی ریڈیو اینٹنیا اور ریڈیو رسیور شامل ہیں۔ ہارپ ٹیکنالوجی کے حوالے سے تحقیقاتی ادارہ امریکی ریاست الاسکا میں موجود ہے۔ یہ 1993 میں قائم ہوا اور 2015 کے بعد یہ اب الاسکا کی ایک یونیورسٹی کے زیر انتظام ہے۔ اس ادارے کو عام عوام بھی دیکھ سکتی ہے۔ ہارپ ٹیکنالوجی کے حوالے سے سازشوں کے بارے میں اس ادارے کے ماہرین کو علم ہے اور وہ اس حوالے سے شفافیت کا مکمل مظاہرہ کرنے کی پوری کوشش کرتے رہتے ہیں۔ آپ انکی ویب سائٹ پر جا کر ہارپ ٹیکنالوجی کے بارے میں مزید پڑھ سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ کا ایک قانون ہے کہ غلط انفارمیشن کو غلط ثابت کرنے میں اس اس انفارمیشن کے پھیلانے سے دس گنا زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے۔ ایسا ہر سازشی تھیوری کے پھیلاؤ میں ہوتا ہے۔ ماننے والوں کی تعداد، حقیقت جاننے والوں سے زیادہ ہوتی ہے۔۔کیونکہ سمجھنے یا سمجھانے کا عمل وقت کیساتھ مشکل ہوتا جاتا ہے۔
موجودہ سیلاب یا آئندہ آنے والے سیلابوں کا تعلق ہارپ ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہے جسکی ذمہ داری چین، انڈیا، برطانیہ، روس، امریکہ جیسے بڑے ممالک کے کندھوں پر آتی ہے کیونکہ یہ فضا کو گرین ہاؤس گیسوں سے بھر رہے ہیں۔ جسکی وجہ سے دنیا کا بالعموم اور ہمارے خطے کا بالخصوص درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور موسموں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ہارپ ٹیکنالوجی کے بارے میں مزید اس لنک میں:
https://haarp.gi.alaska.edu/faq
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...