ہائی فریکوئنسی ایکٹو ایرورل ریسرچ پروگرام یا ہارپ، سازشی نظریات گھڑنے والوں کے لئے بڑا زرخیز میدان ہے۔ چاند پر لینڈنگ کی طرح اس سائنسی پروگرام کو ان حضرات کی طرف سے اتنی توجہ کیوں ملی ہے؟ اس کے لئے ایک نظر اس کی تاریخ پر۔
موسم کنٹرول کئے جا سکتے ہیں، طوفان برپا کئے جا سکتے ہیں، زلزلے لائے جا سکتے ہیں، دریا اچھالے جا سکتے ہیں، میزائل اور جہاز گرائے جا سکتے ہیں، دنیا بھر کا مواصلاتی نظام ناکارہ کیا جا سکتا ہے، لوگوں کے ذہنوں اور موڈ پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ یہ وہ دعوے ہیں جو اس پروگرام کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی دعویٰ درست ہوتا تو یہ دنیا میں ٹیکنالوجی کا طاقتور ترین پروگرام ہوتا اور یہ حکومتی یا عسکری راز ہوتا۔ اس کے برعکس یہ کلاسیفائیڈ بھی نہیں ہے۔ البتہ، اس کی فنڈنگ میں یو ایس ائیر فورس، نیوی اور ڈارپا کا حصہ بھی ہے۔ 2014 میں اس کے بجٹ میں کی جانے والی تخفیف کی وجہ سے اس پروگرام کی زمین اور آلات سمیت پروگرام کی ملکیت یونیورسٹی آف الاسکا کے حوالے کر دی گئی تھی۔ اب یہ پروگرام یہ یونیورسٹی چلاتی ہے۔
اس کا مقصد کیا ہے؟ زمین کی فضا میں آئینوسفئیر کی سٹڈی، اس کا خلائی موسم سے انٹر ایکشن اور ان کی وجہ سے ریڈیو ویوز پر مواصلات پر ہونے والے اثرات کی سٹڈی، انتئی کم فریکوئنسی (وی ایل ایف اور ای ایل ایف) ریڈیو ویوز کی جنریشن۔ اس کم فریکوئنسی پر بڑی دور تک رابطے کئے جا سکتے ہیں۔ زیرِ زمین سٹرکچرز کا مشاہدہ جا سکتا ہے۔ زیرِ سمندر آبدوزوں سے رابطہ رکھا جا سکتا ہے۔ یہ پیچیدہ سائنس ہے اور یہ پروگرام جس طریقے سے کام کرتا ہے، وہ بھی پیچیدہ ہے۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ کوشش کی جائے کہ جس طرح سورج زمین کی بالائی سطح کے ساتھ انٹرایکٹ کرتا ہے، وہی کام کرنے کی کوشش کی جائے تا کہ آئینوسفئیر پیدا کیا جا سکے اور پھر اس کے اثرات کا مطالعہ ہو سکے۔ اس کو ایک کنٹرولڈ طریقے سے ایسے کرنا جسے دہرایا جا سکے، یہ اس پروگرام کا چیلنج ہے، اور ظاہر ہے کہ اس کو بہت بہت چھوٹے سکیل پر کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی سائنس کو سمجھنے کیلئے تھوڑا سا تعارف آئینوسفئیر کا۔ بالائی فضا میں یہ علاقہ زمین سے ساٹھ کلومیٹر سے ایک ہزار کلومیٹر کی بلندی پر ہے اور مسلسل تغیرپذیر ہے۔ فضا اس قدر باریک ہے کہ سورج سے آنے والی الٹراوائلٹ اور ایکس ریز یہاں پہنچ سکتی ہیں، لیکن اتنی کثیف ہے کہ یہ یہاں جذب ہو کر گیس کو آئن بنا دیتی ہیں یعنی یہ ریڈی ایشن ایٹم یا مالیکیول سے الیکٹران کو دھکیل کر نکال دیتی ہے۔ مثبت اور منفی چارج الگ ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے زمین کے گرد چارجڈ پارٹیکلز کا ایک خول سا بن جاتا ہے۔ اس وجہ سے یہ آئینوسفئیر کہلاتا ہے۔ قطبین کے قریب اورورا بننے کی وجہ بھی یہی پراسس ہے جو اس کے دوران خارج ہونے والی روشنی اور حرارت کا نتیجہ ہے۔ زمین کے قریب فضا میں مثبت اور منفی چارج بہت جد ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں لیکن بالائی فضا میں دور دور ہونے کی وجہ سے یہ پارٹیکل دیر تک آزاد رہتے ہیں۔ ان آزاد الیکٹران کی موجودگی کی وجہ سے بالائی فضا کنڈکٹر کا کام کرتی ہے۔ اس تہہ کو ڈی، ای اور ایف، تین تہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
یہ اثر ساٹھ کلومیٹر سے شروع ہو جاتا ہے، تین سو کلومیٹر پر سب سے زیادہ ہوتا ہے اور ایک ہزار کلومیٹر تک یہ تقریبا ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اتنی بلندی پر فضائی غلاف نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ چونکہ یہ تہیں کنڈکٹر کا کام کرتی ہیں تو یہ زمین سے آنے والی الیکٹرومیگنیٹک ویوز، جیسا کہ ریڈیو براڈکاسٹ ہے، کے ساتھ انٹرایکٹ کرتی ہیں۔ فریکونسی کے حساب سے کچھ ریڈیو ویوز جذب ہو جاتی ہیں، کچھ منعکس ہو جاتی ہیں۔ چونکہ یہ تہیں سورج کی شعاعوں کی وجہ سے بنتی ہیں، اس لئے رات اور دن، سردی اور گرمی میں ان میں بہت فرق پڑ جاتا ہے۔ سب سے نچلی تہہ “ڈی لئیر” صرف دن کے وقت ہوتی ہے اور رات کو مکمل طور پر غائب ہو جاتی ہے۔ اسی طرح شمسی موسم سے بھی یہ متاثر ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہارپ دو سے دس میگاہرٹز کا ریڈیو سگنل استعمال کرتا ہے۔ اس کی مدد سے آئینوسفئیر کے چھوٹے سے علاقے، جو کہ اس تجربہ گاہ کے عین اوپر ہے، وہاں پر گیس کے مالیکیولز کو اور 3.6 میگاواٹ کی توانائی سے ایکسائیٹ کرتا ہے۔ اس کے لئے استعمال کیا جانے والا اس کا مین آلہ آئینوسفئیر ریسرچ انسٹرومنٹ (آئی آر آئی) ہے۔ یہ چوبیس ایکڑ پر پھیلا ہوا 180 اینٹینا پر مشتمل فیزڈ ایرے ریڈیو ٹرانسمیٹر ہے۔ اس سے ایک بیم پھینکی جاتی ہے۔ جب یہ آئینوسفئیر میں پہنچتی ہے تو فریکوئسی کے مطابق، اس کا سائز ساٹھ سے سو کلومیٹر کے درمیان پھیل چکا ہوتا ہے۔ آسمان کے چھوٹے ٹکڑے پر اس کا رخ تیزی سے بدل کر اس سے گرم ہونے کا عمل ماڈیولیٹ کر کے کم فریکوئنسی کے سگنل جنریٹ کئے جا سکتے ہیں۔ انتہائی اختصار کے ساتھ، یہ ہارپ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پر پھیلی جانے والی سب سے بڑی غلط فہمی پاور کی آوٗٹ پُٹ ہے۔ اس سے منسلک بلند و بانگ دعووں کی سب سے بڑی بنیاد ان پر ہے اور اس کی سائنس کو نہ سمجھنے پر ہے۔ ٹرانسمیٹر کی پاور ساڑھے تین میگاواٹ ہے، جبکہ سازشی مواد میں لکھا جانے والا فِگر پونے چھ گیگا واٹ ہے۔ ڈیڑھ ہزار گنا بڑا فِگر دراصل ایک بالکل ہی مختلف چیز کا ہے، جس کو براڈکاسٹ انڈسٹری میں موثر ریڈی ایشن پاور (ای آر پی) کہا جاتا ہے۔ یہ اضافی نظر آنے والا نمبر اس وجہ سے نہیں کہ اس میں اضافی توانائی بن جاتی ہے بلکہ اس اصطلاح کی اپنی ڈیفی نیشن کی کے طریقے کی وجہ سے ہے۔ کسی بیم کا فوکس جتنا اچھا ہو گا، یہ فگر اتنا زیادہ ہو گا۔ فضا میں جذب ہونے کے بعد ہارپ کا جتنا سگنل آئنوسفئیر تک پہنچتا ہے، یہ محض 36 ملی واٹ فی مربع میٹر ہے۔ (ملی کا مطلب ہزاروں حصہ ہے)۔ اس کے مقابلے میں سورج کی توانائی ہارپ کی توانائی سے 37000 گنا زیادہ ہے۔ ایک سائنسدان کے مطابق، یہ پروگرام ایک دریا کو گھریلو ہیٹر کے ساتھ گرم کرنے کی طرح ہے۔
اگر آپ کہیں کہ اس کا ثبوت کہ پاور پونے چھ گیگا واٹ کیوں نہیں؟ تو یہ بہت آسان ہے۔ یہ سیٹ اپ الاسکا میں ہے اور اس ریاست کی پوری کیپیسیٹی ہی 2.5 گیگاواٹ ہے۔ سازشی لٹریچر کے دعووں کے لئے صرف اس ایک آلے کو چلانے کے لئے ریاست کی پوری توانائی سے دگنے سے زیادہ دینا پڑے گا۔ ایریزونا میں نصب امریکا کا سب سے بڑا نیوکلئیر پاور پلانٹ پالو ورڈی بھی اتنی بجلی پیدا نہیں کرتا۔ ہارپ کے نزدیک اتنا بڑا پاور جنریٹر اور اس تک بجلی لانے کا نیٹورک کہاں ہے؟ کہیں پر بھی نہیں۔ ہارپ کیلئے پاور کہاں سے جنریٹ ہوتی ہے؟ اسی سائٹ پر لگے ڈیزل کے پانچ جنریٹرز سے، جن کو دیکھا جا سکتا ہے۔ چند میگاواٹ کے ڈیزل جنریٹرز کی طاقت سے دنیا میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟ یہ حساب کتاب کرنا اتنا مشکل نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہارپ کے بارے میں غلط فہمیوں کا بڑا ماخذ اس کی تاریخ ہے۔ الاسکا میں کام کرنے والی تیل اور گیس کی کمپنی اٹلانٹک رچ فیلڈ (آرکو) کو الاسکا کے شمالی سلوپ علاقے میں پائے جانے والی گیس فیلڈ کے حقوق حاصل تھے، لیکن یہ ذخائراس گیس کے گاہکوں سے بہت دور تھے۔ گیس کو مائع میں تبدیل کر کے ٹرانسپورٹ کرنا بہت مہنگا تھا۔ اس لئے یہ ذخائر ناقابلِ استعمال تھے۔ آرکو کو اس کے قریب ایک کسٹمر کی ضرورت تھی۔ برنارڈ ایسٹ لنڈ پلازمہ فزکس میں کام کرنے والے سائنسدان تھے جنہوں نے فیوژن ٹارچ کی ڈویلپمنٹ میں کردار ادا کیا تھا۔ ایسٹ لنڈ 1980 کی دہائی میں آرکو کے لئے کام کر رہے تھے اور ان کی پروکشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے سربراہ تھے۔ انہوں نے ایک انوکھا خیال پیش کیا۔ آرکو ان اضافی توانائی کے ذخائر سے بڑے اینٹینا بنا کر آئینوسفئیر میں گیس ایٹمز کو گرم کر سکتی ہے اور مصنوعی پلازما بنا سکتی ہے۔ زمین کے مقناطیسی فیلڈ کے ساتھ ریڈیو بیم سائیکلوٹرون کا کام کرے گی۔ زمین پر آلات کی مدد سے اس عمل کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ پلازمہ زمین کی مقناطیسی لائنز کے ساتھ ساتھ چلے گا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتا ہے۔ آرکو اور برنارڈ ایسٹ لنڈ کو یہ پیٹنٹ 11 اگست 1987 کو ملا۔
اس پیٹنٹ کر پڑھنا خاصا دلچسپ ہے کیونکہ اس میں کئی غیرمعمولی باتوں کہی گئی ہیں۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ اس طریقے سے پلازمہ پیدا کرنا مواصلاتی رابطوں پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ نہ صرف زمینی بلکہ سیٹلائیٹ کے ذریعے رابطوں میں بھی، جس سے دفاعی رابطے متاثر ہونا کا بھی اندیشہ ہے۔ یہ وہ وقت تھا جس سے کچھ سال قبل سوویت یونین اور امریکہ نے فضا میں ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ ان سے پیدا ہونے والے چارجڈ پارٹیکل بہت دیر فضا میں ٹریپ رہے تھے جو اس وقت متوقع نہیں تھا۔ پیٹنٹ میں اس کا ذکر تھا کہ اس طرح پلازمہ پیدا کرنے سے نیوکلئیر ڈیوائس کے بغیر ویسا اثر پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور دعویٰ بہت بلندی پر اجسام، میزائل یا سیٹلائیٹ، کو ڈریگ فورس کے ذریعے غیرمستحکم کرنے کا تھا۔ اس کے علاوہ موسمی اثرات کا ذکر بھی ہے، جس میں بالائی فضا میں ہوا کے پیٹرن پر اثرات کی بات کی گئی ہے۔ مختلف شکلوں کے پارٹیکلز کے بادلوں کے ڈھیروں کی مدد سے لینز ایفیکٹ پیدا کرنا اور شمسی توانائی کو فوکس کرنے اور جیٹ سٹریم کا رخ بدلنے کے ذریعے طوفان اور بادل کا رخ موڑنے کا بھی لکھا ہے۔ کم فریکوئنسی کی ویوز کے ساتھ زمین کے نیچے دیکھ لینے کا ذکر بھی اس میں موجود ہے۔ ای ایل ایف ویوز کی فریکوئنسی دماغ کی الفا اور تھیٹا رینج میں بھی ہے۔ اس پیٹنٹ میں ان ویوز کو دشمن کی طرف فوکس کر کے ان کا حوصلہ پست کرنے بھی بات کی گئی ہے۔ اوزون بڑھا کر اس میں ہونے والے سوراخ کی مرمت کرنے کا بھی اس میں ذکر کیا گیا ہے۔ ضرر رساں اور زہریلی گیسوں کے مالیکیول توڑنا کا بھی اس میں لکھا گیا ہے۔
آرکو نے یہ پیٹنٹ امریکی دفاعی تحقیق کرنے والے ادارے ڈارپا کے حوالے کر دیا۔ اس میں کئے جانے والے دعوے غیرمعمولی تھے اور پیٹنٹ میں اس کے لئے تجویز کردہ توانائی 100 گیگا واٹ تھی۔ (یہ ہارپ کی توانائی سے 27700 گنا زیادہ ہے)۔ ایسٹ لینڈ کے ڈیزائن کو بنانے کے لئے پچاس لاکھ اینٹینا چاہیے تھے اور اس کے لئے 2600 مربع کلومیٹر کے رقبے کی ضرورت تھی، جو ایک بڑے شہر جتنا تھا۔ اس لئے آرکو اور ایسٹ لنڈ نے یہ تجویز دی تھی کہ اس کے لئے توانائی آرکو کی گیس سپلائی سے آئے۔
اگر محکمہ دفاع اس پروگرام کی حامی بھر لیتا تو آرکو کو اپنی گیس فروخت کرنے کے لئے ایک بہت بڑا صارف مل جاتا۔ کتنا بڑا؟ پاکستان میں کُل توانائی کی کھپت اس وقت 90 گیگاواٹ ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا گیس پاور پلانٹ روس کا سرگاٹ پاور پلانٹ پانچ گیگاواٹ کا ہے۔ ایسٹ لینڈ کے پلان کو عملی جامہ کے لئے اس طرح کے اٹھارہ پاور پلانٹ لگانے ہوتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسٹ لینڈ کے خیالات غیرمعمولی بھی تھے لیکن انہوں نے سائنسدانوں کو فضا کے اس حصے پر تجربات کیلئے اس کے مقابلے میں بہت چھوٹے سکیل پر ریسرچ فیسلٹی کے قیام کا آئیڈیا دیا جس سے آئیڈیاز کو ٹیسٹ کیا جا سکے اور آئینوسفئیر کو سمجھا جا سکے۔ اس کے لئے ایک کروڑ ڈالر کی فنڈنگ کی منظوری ملی اور آرکو کو ریسرچ فیسلٹی بنانے کا کام سونپا گیا۔ گاکونا کے علاقے میں افق کے پار ریڈار بنانے کا پراجیکٹ مکمل ہونے سے پہلے کینسل ہو گیا تھا۔ یہ اس پراجیکٹ کی سائٹ بن گئی۔ قطبِ شمالی کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ ارورل الیکٹروجیٹ کا بھی فائدہ اٹھا سکتی تھی۔ یہ وہ برقی کرنٹ ہے جو قطبین میں آئینوسفئیر میں سرکولیٹ کرتا ہے اور اس جیٹ سے کم فریکوئنسی کا سگنل بھیجنے کے لئے ایک بڑے اینٹیا کا کام لیا جا سکتا ہے۔ آبدوزوں سے رابطہ کر لینے کی صلاحیت حاصل کرنے کے امکان کی وجہ سے اس اس میں بحریہ کو خاصی دلچسپی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تمام پس منظر کے بعد ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کونسے الگ الگ آنے والے خیالات آپس میں مل کر نئی کہانیاں کیسے تخلیق کرتے ہیں۔ ایسٹ لنڈ کا پیٹنٹ اور ہارپ کا اصل ریسرچ سنٹر خود بالکل الگ ہیں۔
ہارپ سال میں کبھی کبھار مختصر مدت کے لئے آپریٹ کرتا ہے۔ یہ فضا میں مائیکروویو نہیں بھیجتا، یعنی کسی مائیکرویو اوون کی طرح نہیں۔ اس کی فریکوئنسی ریڈیو ویو میں میڈیم اور شارٹ ویو کے بینڈ میں ہے۔ (یہ مائیکروویو سے دو ہزار گنا کم فریکوئنسی ہے)۔ جب یہ آپریٹ کرتا ہے تو کئی ہزاروں کلومیٹر دور تک ریڈیو پر اس کا سگنل پکڑا جا سکتا ہے، جو کسی سیٹی کی آواز کی طرح موصول ہوتی ہے۔ اس فریکوئنسی پر ریڈیو سگنل دور تک جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہارپ اپنی نوعیت کا دنیا میں واحد ریسرچ سینٹر ہے؟ نہیں۔ دو اور مراکز بھی ہیں۔ ایک روس میں اور ایک ناروے میں لیکن یہ دونوں اس کے مقابلے میں چھوٹے سائز کے ہیں۔ ہارپ سے ہونے والی تحقیق سے ہمیں آئینوسفئیر میں ان ایفیکٹس کا پتا لگا ہے، جو پہلے نامعلوم تھے۔ عسکری مقاصد کے استعمال کے لئے یہ اتنے حوصلہ افزا نہیں رہے، اس لئے اس کے لئے مختص بجٹ کم کر دیا گیا۔ البتہ اس کے ساتھ منسلک سازشی نظریات ایک جا بجا پھیل کر نت نئے خیالات اور کہانیوں کو مسلسل جنم دے رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طوفان، سیلاب، زلزلے اور آفات۔ زمین پر ہمیشہ سے آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔ اس جیوفزیکل اور موسمیاتی نظاموں کے مقابلے میں انسان بہت ہی کمزور ہے، ان بہت سے عوامل کے آگے ابھی بالکل بے بس ہے۔ ہارپ سے بننے والی کہانیاں اب اس قدر طاقتور ہو گئی ہیں کہ وہ عوامل جن کو “خدا کے کام” یا “فطرت کی قوتیں” کہا جاتا رہا ہے، سائنس سے قطعی نابلد مگر سائنس سے حد درجہ مرعوب لوگوں کی بنائی گئی سازشی کہانیاں، ان کو بھی انسان کے کھاتے میں ڈالتی ہیں۔
پیٹنٹ نمبر 4686605 کے ذریعے گیس کی کمپنی کا اپنا گاہک ڈھونڈنے کی کوشش کی خاطر آنے والے اچھوتے خیال سے شروع ہونے والے اس پراجیکٹ کے ایکوئپمنٹ کی تصویر ساتھ منسلک ہے۔
اور نہیں۔ اس سے نہ موسم کنٹرول کئے جا سکتے ہیں، نہ طوفان برپا کئے جا سکتے ہیں، نہ زلزلے لائے جا سکتے ہیں، نہ دریا اچھالے جا سکتے ہیں، نہ میزائل اور جہاز گرائے جا سکتے ہیں، نہ دنیا بھر کا مواصلاتی نظام ناکارہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی لوگوں کے ذہنوں اور موڈ پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے۔ ڈیزل کے پانچ جنریٹروں پر چلنے والا یہ سائنسی آلہ اس قسم کا کوئی کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
اس کو پڑھنے کیلئے
https://curious-droid.com/…/why-is-project-haarp-so-contro…/
ایسٹ لنڈ کے پیٹنٹ کا لنک