پچھلے 15-20 سال سے پاکستانیوں کے ساتھ 'گوادر گوادر' کھیلا جا رہا ہے، ہم پاکستانیوں کی گوادر پر اتنی زیادہ امیدیں وابستہ کرا دی گئی ہیں، کہ بس گوادر پاکستان کے لئے سونا اگلنے والا ہے، اسے علاقے کی معیشت کا ' گیم چینجر' کہتے ہیں۔ گوادر، سی پیک، چین۔۔۔ دو دہائیوں سے ایک شور برپا ہے، کئی سال سے گوادر کو اخباری اشتہاروں میں دبئی، ہانگ کانگ، سنگا پور کی طرز کی بلند خوبصورت بلڈنگوں کے فوٹو شاپ بنا کر۔۔۔ پراپرٹیوں کے ٹائیکون۔۔۔ اربوں کما چکے ہیں۔۔ اشرافیہ کے علاوہ، عام انوسٹرز، بیرون ملک پاکستانی، گوادر کے پلاٹوں کو خرید چکے ہیں۔ یعنی گوادر کی زمین کئی کئی بار بک چکی ہے۔۔۔ ایک سے دوسرے نے لی، دوسرے نے تیسرے سے لی۔۔ گوادر میں اس طرح کی 'سرمایہ کاری' کرنے والوں کی اکثریت ایسی ہے جس نے کبھی گوادر دیکھا نہیں۔۔۔ وہ ریاستی پروپیگنڈے کا شکار ہیں۔ اور زمین کے دلالی میں اربوں کھربوں کمانے والوں کی جعلی فوٹو شاپ چمک کاریوں کے شکار ہیں۔۔۔
چنانچہ ہمیں بھی تجسس تھا، کہ براہ راست آنکھوں سے گوادر کی صورت حال جا کردیکھی جائے۔۔۔ گوادر کے پنجرے میں پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے طوطے کی جان ہے۔۔ آپ دوستوں کو پتا ہی ہے، اندروں ملک ہو، بیرون ملک۔۔ سفر میرا خاص شوق ہے۔۔ دور دراز رہنے والے اپنے چاہنے والے دوستوں سے مل لیتا ہوں، سیر سپاٹا ہو جاتا ہے۔۔ فٹنس بھی رہتی ہے۔ متنوع دنیا کو دیکھ لیتا ہوں۔۔ سفر سے انسان بہت سیکھتا ہے۔۔ اب مسئلہ تھا، گوادر جایا کیسے جائے۔۔ پنجاب سے کراچی، اور پھر کراچی سے گوادر اور پھر واپس، ہزار کلومیٹر کا سفر بنتا ہے۔ لہذا ایک ممکنہ طریقہ یوں اپنا لیا، کہ پنجاب (لاہور) سے چلنے والے ایک کمرشل گروپ ٹوور کو جائن کرلیا۔۔۔ انہوں نے بائی روڈ لاہور سے کوچ میں کراچی اور پھر گوادر بائی روڈ کوسٹل ہائی وے سے جانا تھا۔ میں یہ چار پانچ ہزار کا سفر برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ جس میں تین چار راتیں بھی شامل تھی۔۔ ایسے گروپ ویسے بھی اکانومی بجٹ پر چلتے ہیں۔۔اپنی کلاس اور عمر کے لحاظ سے۔۔۔ یہ معاملہ بھی قابل برداشت نہ تھا۔ چنانچہ میں گروپ انتظامیہ سے کہہ کر اپنے لئے کسٹمائزڈ کرلیا۔ پنجاب سے کراچی بائی ائیر سفر کرلیا، اور گوادر جا کر بھی ان سے الگ ہو کر پی سی کے آرام دہ ماحول میں جا بسیرا کیا،
گروپ والوں سے میرا بس یہ مقصد تھا، کہ کراچی سے گوادر کوسٹل ہائی وے کو ایکسپیرنس کیا جائے۔۔ یہ کوئی بیس بائس لوگوں کا گروپ تھا، جس میں متوسط عمر اور نوجوان افراد شامل تھے، نوجوانوں میں فی میلز بھی تھی۔ سب اجنبی لوگ تھے، چونکہ سب تفریحی موڈ میں سفر کررہے تھے، چنانچہ ان کا عمومی مزاج رونق میلے والا ہی تھا، خوش باش، میوزک چلاتے، ہنستے کھیلتے، باہمی مذاق کرتے۔۔۔ سفر کرتے رہے۔۔ تفریحی سیر سپاٹا اپنی فطرت میں لبرل ایکٹویٹی ہوتی ہے۔۔ اور یہ جو ٹور گروپ ہوتے ہیں۔۔ لبرل ماحول رکھنا ان کے بزنس کی پروموشن کے لئے لازمی ضرورت ہوتی ہے۔۔ ٹورانتظامیہ دو تین نوجوانوں پر مشتمل تھا، وہ جلد ہی میرے قریب ہوگے۔۔ ساتھ ہی نوجوان فی میلز بھی۔ پہلے دن سفر میں رات ہو گئی، تو شیڈول کے مطابق انہوں نے قیام ایک beach کنارے کیمپ لگا کر کیا۔۔ چودھویں کی رات تھی، سمندر کا کنارا۔۔ خیمے لگائے جا چکے تھی، کچھ بار بی کیو کرلیا، میوذک وغیرہ چلاتے رہے۔ وہ نوجوان میرے ساتھ ہی رات گے موج مستیاں کرتے رہے۔۔ ان کو ایک 'سینئر' اپنے جیسا نوجوان مل چکا تھا۔۔ وہ میرے آزاد منش خیالات سے بھی متاثر ہوتے، گیٹ اپ اور شخصیت وائز بھی میں سب سے پڑھا لکھا اور خوشحال دکھائی دیتا تھا۔۔ تو ان نوجوانوں کے ساتھ ہم عمروں جیسی دوستی ہوگئی۔۔
جو کبھی گوادر نہیں گے، ان کے لئے عرض ہے، روڈ عمومی طور پر اچھی حالت کی ہے۔ اگرچہ سنگل ہے۔ 636 کلومیٹر لمبا راستہ زیادہ تر ویران، ریگستانی ہے۔۔ آبادی نہ ہونے کے برابر۔۔ راستے میں بے شمار چیک پوسٹیں ہیں۔۔۔ (ان پر تفصیلی پوسٹ الگ لگانی ہے)۔ ٹریفک کی آمدو رفت بھی خال خال ہی ہے۔۔ راستے میں قابل دید دو ہی مقامات ہیں۔
1۔ ایک Mud volcano ہے، 'آتش فشان' کی طرح کی چیز۔۔ مگر اس میں آگ کی بجائے مٹی کا ' لاوا ' ابلتا ہے۔۔۔ اس مٹی کے آتش فشان نے ایک بڑا اور اونچا سا ٹیلہ بنا رکھا ہے۔۔ حکومت نے اوپر جانے کے لئے سیڑھیاں بنا رکھی ہیں۔۔ جو تقریبا چار سو ساٹھ ستر ہیں۔۔۔۔۔ پہلی نظر میں لگتا ہے کہ ان سیکنڑوں سیڑھیوں کو چڑھنا۔۔ کتنا دشوار کام ہوگا۔۔ جو ہے بھی۔۔ لیکن حیرت کی بات ہے میں بھی اس مٹی کے آتش فشاں کی چوٹی پر چڑھنے میں کامیاب ہوگیا۔۔ اور اوپر سے گارا اور مٹی کا لاوا نکلتا بھی دیکھ لیا۔۔
2۔ دوسرے مقام کا نام ہے، Princes of Hope
یہ نام پتا نہیں کیوں اور کس نے رکھا۔ سنا ہے کہ کوئی شائد امریکی فلی ایکٹریس آئی تھی، تو اس نے اس علاقے کو دیکھ کر یہ نام رکھا تھا۔۔ یہ مٹی ریت کی چٹانیں ہیں۔۔۔ لیکن ہزاروں سال کے جغرافیائی اور موستی اثرات نے ان چٹانوں کی کانٹ چھانٹ اس طرح کردی ہے۔۔ کہ وہ عجوبہ سا معلوم ہوتے ہیں۔۔ ایک ایسے لگتا ہے شیر سا بنا ہوا ہے، ایک اونچی جگہ پر لگتا ہے کسی لیڈی کا بڑا سا مجسمہ ہے۔۔۔ آس پاس کی چٹانیں ایسے لگتی ہیں، جیسے رومن، گریک۔۔۔ قلعوں کی دیواریں ہوں۔۔۔
گوادر کا جب ذکر آتا ہے، تو اس کی ' بیچز' کا زکر کیا جاتا ہے، جی ہاں بیچز تو ہیں۔۔ مگر کس کام کی۔۔ وہ تو لاکھوں سال سے ہونگی۔۔۔ ویران بیچز کو کسی نے کرنا کیا ہے۔۔۔ بیچز تو انسانوں کی گہما گہمی سے آباد ہوتی ہیں۔۔ پاکستان جیسے مذہبی اور جنگی جنونی ملک میں بیچز کا کیا کام۔۔ لہذا ایک بے کار چیز کی کیا ویلیو ہو سکتی ہے؟
دنیا میں خوبصورت بیچز۔۔ کی خوبی ہوتی ہے، پانی بہت صاف ہو، شیلو واٹر کا حصہ زیادہ ہو۔۔۔ گہرا پانی جلد نہ آتا ہو، اور ریت کی کوالٹی دیکھی جاتی ہے۔۔۔ بھلے گوادر کی بیچز اس طرح کی ہوں۔۔ لیکن ڈویلپمنٹ اور انسانی استعمال کے بغیر۔۔ بے کار سی چیز ہے۔ اور انشا اللہ بے کار ہی رہیں گی۔۔۔
سیکورٹی ایجنسیاں ہی ایجنسیاں:
کراچی سے گوادر جانے والی کوسٹل ہائی وے پر فوجی لباس میں مسلح افراد کا سخت کنٹرول شروع ہو جاتا ہے۔ کراچی سے گوادر تک مختلف سیکورٹی ایجنسیوں کی بیسیوں مسلح چیک پوسٹیں ہیں۔ اس میں کوسٹل گارڈ، نیوی، لیویز، ۔۔ میں ان کے نام نہیں گن سکا۔ جا بجا ہر قسم کی ٹریفک کو ان چیک پوسٹوں پر کھڑا کیا جاتا ہے، سامان کی تلاشی لی جاتی ہے، شناختی کارڈ چیک کئے جاتے ہیں۔ سونگنے والے کتے چھوڑے جاتے ہیں۔۔ اور اچھا خاصہ مسافروں اور ٹورسٹوں کی ہراسگی کا ماحول بنایا جاتا ہے۔۔ پوری کوسٹل ہائی وے۔۔ ان مسلح سیکورٹی دستوں کے کنٹرول میں ہے، یہ نظارا آپ کو ایک ٹورسٹ، انٹرنیشنل بزنس مرکز کی طرف آنے جانے کا نہیں۔۔ کسی فوجی مقبوضہ علاقہ کا منظر پیش کرتا ہے۔
روز آنے جانے والے لوگ بچارے سر جھکائے، اطاعت گزار بنے۔۔ ان فوجی نما دستوں کے سامنے مسکین صورت بنا کر ہر بات مانتے ہیں۔۔ اس میں مجموعی طور پر گھنٹوں وقت ضائع بھی ہو سکتا ہے۔ ان چیک پوسٹوں کے آس پاس فوجی انسٹالیشنز نظر آتی ہیں۔ سڑک اور چوکوں پر ان سیکورٹی ایجنسیوں کے بڑے بڑے 'لوگو' بھی انسٹال کئے ہوئے ہیں۔ یہ سیکورٹی گوادر کوسٹل ہائے وے کو مشکوک بنا دیتی ہے۔۔ کیا گوادر واقعی۔۔۔ کسی انٹرنیشنل کمرشل، انٹرنیشنل سمندری تجارت کا مرکز بننے والا ہے۔ کیا گوادر واقعی کسی ٹورسٹ کسی سویلین سوشل، کمرشل، صنعتی، سرگرمیوں کا گہوارہ بننے جا رہا ہے؟ جی نہیں۔۔۔ کیا دنیا کے اس طرح کے کمرشل ، صنعتی hub اس طرح بنائے گے تھے۔۔۔ ؟ میں نے دبئی کو ریگستان سے چمکتی دھمکتی آسمان سے باتیں کرتی عمارتوں میں بدلتے دیکھا ہے۔۔ لیکن کبھی کہیں۔۔ کسی طرح کی فوجی سیکورٹی کا نام و نشان نہ تھا۔۔۔
جب ہم گوادر شہر کے اندر داخل ہونے والے پوائنٹ پر پہنچ گے۔ تو پھر ایک چیک پوسٹ آ گئی۔۔۔ میں نے اپنے کوچ کے ڈرائیور کو کہا، کہ مجھے گوادر پی سی میں پہلے اتار دے۔ اب ہم شہر کی داخلی سڑک پر تھے۔۔ جو ساحل سمندر پر کوہ باتل پر تعمیر پی سی کی طرف جا رہی تھی، ظاہر ہے اس طرح کا علاقہ قدرے ایلیٹ کلاس کا ہوتا ہے، لیکن اس روڈ پر مجھے کچھ 'ایلیٹ' سا منظر نظر نہ آیا۔۔۔ اس وقت حیرت ہوئی، کہ ابھی چند فرلانگ پیچھے موڑ پر چیک پوسٹ سے فارغ ہوئے تھے، کہ اگلے اشارے پر ایک اور مسلح دستے نے کوچ کو روک لیا، کون ہو، کہاں سے آ رہے ہو، کہاں جا رہے ہو۔۔ بتایا ایک سواری پی سی کی ہے۔ پھر شناختی کارڈ لئے گے۔۔ ابھی شائد کچھ رعائت بھرتی جا رہی تھی، کہ ڈرائور اور ٹور آپریٹر۔۔ 'ہم لاہور سے آ رہے ہیں'۔ کوچ باقاعدہ طور پر ایک ٹورسٹ کوچ تھی، جس کی ساری باڈی پر پاکستان کے ٹورسٹ علاقوں کی تصویریں بنی ہوئی تھی۔۔ اور اس کمپنی کا واضح نام پتا، فون نمبر لکھے ہوئے تھے۔۔ ظاہر ہے وہ لائنسنس یافتہ ٹورسٹ آپریٹر ہونگے۔۔
پی سی جاتے جاتے دو تین کلومیٹر پر تین چار چیک پوسٹیں بار بار چیک کرچکی تھی۔۔ خدا خدا کرکے پی سی گیٹ پر پہنچے، تو وہاں بھی منظر سخت سیکورٹی کا تھا۔۔۔ اندر سے بکنگ کا پتا کروایا گیا، ہٹو بچو، گاڑی کو ادھر اور ایسے کھڑی کرو۔۔ مجھے اندر جانے سے روکا گیا، کہ اندر سے بندہ آ کر اندر لے کر جائے گا۔۔۔!! لگا میں 5 سٹار ہوٹل میں نہیں۔۔ کسی فوجی قلعے میں داخل ہوا ہوں۔۔۔
یہی حال جب بھی آپ ہوٹل سے شہر کی طرف آئیں گے۔۔ تو یہی حال ہوگا، ہوٹل اونچی پہاڑی پر ہے، نیچے اترتے گاڑی سے اتر کر سامنے کے منظر کی تصویر لینے کی کوشش کی تو وہاں بورڈ تھا " یہاں تصویر لینا منع ہے"۔۔۔ مجھے سندھ کے ایک دوست نے بتایا کہ وہ فیملی کے ساتھ تھے، اسی مقام سے فوٹو لینے پر ان کو رینچرز نے نیچے پکڑ لیا، کون ہو، کہاں سے آئے ہو۔۔ کیمرے سے فوٹو ڈیلیٹ کروائی۔۔۔ کیا یہ پاکستانی شہریوں کی توہین نہیں۔۔ ادھر کونسا ایٹم بم ہے جس کی تصویر لے لی تھی۔۔ مقصد پاکستان شہریوں اور خاص طور پر بلوچوں کی قدم قدم پر تذلیل کرنا ہے۔۔۔۔
میں اس وقت دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔ کہ مجھے ایک مقامی بلوچ اعلی سویلین افسر اپنی سرکاری گاڑی پر لے کر شہر دکھانے جا رہے تھے، گاڑی پر باقاعدہ ' حکومت بلوچستان' اور گوادر کے متعلقہ محکمے کے الفاظ بھی تھے۔۔ اسے شہر کے اندر چیک پوسٹ پر فوجی نے پوچھا۔۔ ' کہاں سے آ رہے ہو، کہاں جانا ہے'۔۔۔!!! اسی شہر کا سینئر گریڈ کا مقامی آفسر تھا وہ۔۔۔ ہماری سیکورٹی اسٹیبلش منٹ کی جنونیت کا اس سے پتا چلتا ہے۔۔ وہ ساری سوک اور سول سینس کھو چکی ہے۔۔
گوادر کچھ نہیں ایک فوجی چھاونی ہے۔۔ جس پر درجنوں سیکورٹی اداروں کے جا بجا ڈھیرے ہیں۔۔ ہر شہری پر فوجیوں کی نگاہ ہے۔۔ اور وہ ہروقت ان کی زیر تلاشی ہیں۔۔ کیا ان حالات میں۔۔ گوادر سے کوئی امید لگائی جا سکتی ہے۔۔ کہ وہ کوئی کسی طرح کی کاروباری، شہری، سماجی سرگرمیوں کا مرکز بن پائے گا۔۔۔۔ ؟
آخر گوادر میں آج ہے کیا
یہ آج کے موجودہ گوادر کی تصویریں ہیں۔ عمومی نظر میں ایک ویرانی اور پراسراریت لگتی ہے۔۔۔ وہ ' کچھ نہیں' جس کا لوگوں کو انتظار ہے۔۔ ہاں البتہ کسی نئے شہر کی توسیع یا تعیمر لگتی ہے۔۔ کھلے بڑے روڈز کا نیٹ ورک نظر آتا ہے۔ کچھ نئی بستیاں ( رہائشی کالونیاں) آباد ہوتی نظر آتی ہیں۔ لیکن میں نے کسی نئی آبادی کی گلیاں پکی نہیں دیکھی۔۔ شہر میں عمومی طور پر ریت کا غلبہ ہے، جو نئی شاہراہیں بنی ہیں۔ ان پر بھی ریٹ کا ڈیرا ہے۔۔ یعنی آبادی اور ٹریفک نہیں۔۔۔ گوادر کا ترقیاتی ادارہ بہرحال ترقیاتی کام کرتا نظر آتا ہے۔۔ میں نے ایک انٹرمیڈیٹ تک کا اسکول دیکھا عمارت بہت اچھی تھی، کلاس رومز بھی دیکھے۔ دل خوش ہوا۔۔ کہ ایک دور دراز پس ماندہ علاقے کے بچے ایسے سرکاری اسکول میں پڑھین گے یا پڑھ رہے ہیں۔۔ دیگر ضلعی انتظامی اداروں کی عمارتیں۔۔ سرکاری اسپتال، پبلک پارکس بھی اچھی حالت میں دیکھے۔۔ لیکن ان پر ویرانی غالب ہے۔ کوئی استعمال کرنے والی آبادی نظر نہیں آئی۔۔۔۔
کوئی پلازہ ، بڑی کمرشل بلڈنگ نظر نہیں آئی۔۔۔ یہ شہر آج پراسرار سا نظر آتا ہے۔۔ پس ماندہ بھی ہے، اس میں کچھ بھی ظاہری طور پر اکنامک پوٹینشل نظر نہیں آتا۔۔۔ لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ اور یا پھر کچھ ہونے والا ہے۔۔ یہ یا تو چین جانتا ہے۔ یا پھر ہماری فوجی قیادت۔۔۔۔ معاملہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔
سارا دارومدار گوادر پورٹ پر ہے۔۔ اس کی حالت دیکھنے میں مایوس کن ہے۔۔ پورٹ پر تین چار کرینیں نظر آتی ہیں۔۔۔ اور نیچے سمندر میں جہاز تو دور کی بات۔۔۔ کوئی کشتی بھی کھڑی نظر نہیں آئی۔۔۔۔ بتایا گیا، کہ تین ماہ میں کھاد کا ایک جہاز پاکستان کے لئے آتا ہے۔۔ اور پھر اس جہاز کی کھاد ٹرکنگ کے زریعے کراچی پہنچائی جاتی ہے۔ پوچھنے پر یہ کیا، تو مذاق کے موڈ میں کہا، کہ گوادر پورٹ کی 'پریکٹس ' کرائی جاتی ہے۔ یا یہ تاثر کے کچھ ایکٹوٹی ہو رہی ہے۔۔۔
ایک مقامی دوست نے بتایا کہ اس کے ایک پراپرٹی ڈیلر دوست نے ایک دن کہا۔۔۔ ' چین کب آئے گا"۔۔۔۔ جب گوادر کی قسمت بدلے گی۔۔۔۔ میں اس بات پر بہت ہنسا۔۔۔۔۔ گوادر کی ساری کہانی اس ایک فقرے میں پوشیدہ ہے۔۔ ' چین کب آئے گا۔۔۔' پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ عالمی طاقتوں کی طفیلی رہی ہے۔۔۔۔ جہاں پیسا ملا۔۔ وہی سودا کرلیا۔۔۔۔ اب گوادر کا سودا کس قیمت اور کس مقصد کے لئے کیا گیا ہے۔۔ اس کا کسی کو معلوم نہیں۔۔۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو غربت اور خستہ حالت میں رکھ کر۔۔۔ سہانے مستقبل کے خواب دکھائے گے ہیں۔۔۔ فیک ازم ہماری سب سے بڑی ریاستی صلاحیت ہے۔۔۔ ہم جھوٹ بولنے اور خوابوں کی دنیا میں رہنے والے لوگ ہیں۔۔۔
میرے اندازے کے مطابق۔۔ گوادر میں اگر کچھ ہونے والا ہے۔۔ تو اس کا اگلے 40 -50 سال تک ۔۔۔ یا شائد 100 سال کے بعد کچھ ہوتا نظر آئے۔۔۔۔ اس وقت تک انتظار کیجئے۔۔ اور کہتے رہییے۔۔ ' چین کب آئے گا'' ہم نہ کبھی کچھ کیا ہے۔ نہ کبھی کچھ کریں گے۔۔۔۔ ایک طفیلی بکاو ریاست ہیں۔۔۔ پاک فوج کو سلام۔۔۔ جنگی اور مذہبی جنونیت زندہ باد۔۔۔
گوادر کیا ہے ہم جیسے سادہ دماغوں کی سمجھ میں کچھ آنے والا نہیں۔۔ یہ شائد معاشی ترقیاتی کسی منصوبے کی بجائے۔۔ کسی سٹریٹیجک فوجی مقاصد کا منصوبہ ہے۔۔۔
ورنہ پاکستان کی کوئی معاشی خوشحالی کا راستہ کھولنا ہوتا۔۔۔۔ تو اتنی زیادہ فوجی سیکورٹی کنٹرول کی ضرورت نہ تھی۔۔۔ اور پاکستان کی سماجی، ثقافتی، اقتصادی آزادیوں کی راہ کھولنی ہوتی۔۔۔ پاکستان بھکاری ملک ہے۔۔۔ فوجی اور مذہبی فتور۔۔۔ اسے اسی خستہ حالت میں رکھے گا۔۔ فوجی اور سویلین اشرافیہ ملک کو یونہی لوٹتی اور جھوٹ بولتی رہے گی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...