گزرے دِنوں کی جمع پونجی
پچھلے دو دن میں سے ایک دن گاوں اپنے گھر میں گزارا ۔ والدین ، بھائیوں اور چچا زداوں کے ساتھ یادوں کو سنوارا، گلیوں کھیتوں اور سکول کی دیواروں کو چوما ، خاک کی خوشبووں کو جذب کیا ۔ صبح اذان کے وقت میری ماں زبردستی سوئے ہوئے کو اٹھاتی اورمسجد میں بھیجا کرتی، جہاں نماز کے بعد مولوی صاحب سے قُرآن پڑھتا ، سورج نکل آتا ، تب گھر آتا، اُس کے بعد درانتی پکڑتااور گھر کے پچھواڑے میں موجود کھیتوں سے بھینسوں کا چارہ کاٹ کے لاتا ، وہیں پر اگر جامنوں کا موسم ہوتا تو صبح صبح پکے ہوئے جامن کھاتا جو رات بھر رس رس کر پیڑوں کے اُوپر سے گر جاتے تھے اور زمین کر بکھرے پڑے ہوتے تھے ۔
اگر امرودوں کا موسم ہوتا تو وہی کچے پکے کھا لیتا ، شہتوت بھی بہت مل جاتے تھے ۔ اگر مالٹوں کی بہار ہوتی تو بھی خالی نہ جاتی ۔ کچھ بھی نہ ملتا تو کھیتوں میں چِبڑ تو ضرور ہی مل جاتے ۔پاوں میں جوتے اُن دِنوں کم ہی ہوتے تھے، تریل اور گھاس پر پھیلی صبح کی تراوت میں پاوں دن بھر ٹھنڈے ٹھنڈے رہتے تھے ۔ چارہ لانے کے بعد رات کے بچ گئے ہوئے سالن سے یا ٹماٹروں اور مرچوں کی چٹنی سے دیسی گھی میں پکی روٹی کھاتا اور چھنے بھر بھر لسی پیتا ،پھر بستہ اُٹھاتا اور بیس قدم کی راہ میں پڑے سکول میں جا پڑتا ۔
قومی ترانہ مَیں خود کہتا تھا ، میرے دو دوست ،ندیم بھٹی اور امتیاز اِس میں ہم نوائی کرتے تھے، قومی ترانہ نماز کی طرح یاد تھا یعنی دونوں کا مطلب کبھی نہ آیا ۔ اُس کے بعد کلاسیں شروع ہوتیں ۔ اُستادوں سے واسطہ اُن دنوں جگرے دار ہی رکھ سکتا تھا کہ سکول کے آدھے درخت تو اُن کے ڈنٖڈوں کی نذر ہوتے تھے ۔ 2 بجے تک یہیں پرسہ داری ہوتی ۔ اُس کے بعد گھر آتے ، صبح کی پکی روٹی پسی ہوئی مرچیں لسی میں گھول اُن کے ساتھ کھاتے ۔
اور بھینسوں کو نہروں پر نہلانے نکل جاتے۔ پھر اُنھیں گھر لاتے ،چارہ کُتر کر ڈالتے۔ تب شام کے پانچ بج جاتے ، پھر سکول میں حاضر ہو جاتے ، کھیلتے جاتے ،کھیلتے جاتے اور شام ڈھلے لوٹ آتے ۔ عین اُسی وقت دن بھر کے تھکے ماندے پرندے بھی بستی بستی سے دانہ دانہ چُگ کر پپلی پہاڑ کے جنگلوں میں لوٹ رہے ہوتے تھے اور بھیڑیں چرانے والے اپنے ریوڑوں کو چروا کر گاوں میں لوٹ رہے ہوتے تھے ۔ رات آٹھ بجے ہی اپنے بستروں پر لیٹ جاتے۔ تارے اُن دِنوں بہت چمکتے تھے ، لیٹے ہی لیٹے اُنھیں گنتے رہتے ، چاند میں چرخہ کاتنے والی بوڑھی عورت کو آوازیں دیتے تھے اور وہ سُنتی نہ تھی ۔آخر تھک کر سو جاتے تھے ۔ اکثر ایسا ہوتا کہ رات خوابوں میں چاند والی عورت کے گھر میں تاروں کے ساتھ بیٹھے کھیل رہے ہوتے ۔ اِن تصویروں میں آپ میرے گھر کے پچھواڑے کے کھیت دیکھ سکتے ہیں ، سکول دیکھ سکتے ہیں میرا ساتھ بچپن میں کھیلنے والا میرے چچا زاد علی اختر کو دیکھ سکتے ہیں ، ان تصویروں میں بیتے زمانوں کی یادیں دریافت کر سکتے ہیں لیکن اُن زمانوں کو نہیں چھو سکتے کہ اب تو وہ میرے ہاتھ بھی نہیں آتے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔