گزشتہ روز کی تین اہم خبریں
گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع جھل مگسی کے نزدیک فتح پور درگاہ پر ایک المناک واقعہ پیش آیا ۔اس درگاہ پر خود کش حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تین بچوں سمیت 18 افراد شہید اور 26 سے زیادہ زخمی ہوئے ۔ 15 محرم کی شب کی مناسبت سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد درگاہ فتح پور میں جمع تھی ۔ درگاہ کے مین گیٹ سے ایک مشکوک شخص نے داخل ہونے کی کوشش کی، پولیس کے بہادر جوان نے مشکوک شخص کو روکنے کی کوشش کی جس پر دہشت گرد نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑادیا ۔۔ ایک زور دھماکہ ہوا۔ جس کی وجہ سے خود کش حملہ آور کو روکنے والا پولیس اہلکار بھی شہید ہو گیا ۔خودکش حملہ آور اگر درگاہ کے اندر پہنچ جاتا تو اس سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا اندیشہ تھا ۔اس سے پہلے بھی پاکستان میں سولہ درگاہوں پر خود کش حملے کئے گئے جن میں سینکڑوں افراد شہید ہوئے ۔داتا دربار ،بری امام ،عبداللہ شاہ غازی اور لال شہباز قلندر جیسی عظیم ہستیوں کی درگاہوں میں بھی خودکش حملے کئے گئے ۔پولیس کے اس محافظ کو سلام جس نے دہشت گرد کو گیٹ پر دبوچ لیا ،وہ بیچارہ خود تو شہید ہوگیا ،لیکن اس عظیم انسان نے درجنوں افراد کی جانیں بچالی ۔دو ہزار سترہ میں اب تک دو درگاہوں پر حملے کئے گئے ہیں ۔خودکش حملے میں شہید ہونے والے افراد کے لواحقین کے غم میں ہم سب پاکستانی برابر کے شریک ہیں ۔۔جھل مگسی کوئٹہ سے اندازاً 350 کلو میٹر کے فاصلے پر جنوب مشرق میں واقع ہے جبکہ درگاہ فتح پور جھل مگسی کے ہیڈ کوارٹر گنداوہ سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ، اس درگاہ پر مارچ 2005 میں عرس کے موقع پر دھماکہ ہوا تھا جس میں 30 سے زیادہ افراد شہید ہوگئے تھے۔دو ہزار پانچ میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی زمہ داری لشکر جھنگوی نے تسلیم کی تھی ۔ایک بات تو واضح ہے کہ انتہاپسند تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائی کرنی ہوگی ورنہ اس طرح کے حملے ہوتے رہیں گے اور انسانوں کی جانیں اس طرح ضائع ہوتی رہیں گی۔یہ تو تھی پہلی بڑی خبر ،دوسری بڑی خبر پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف کے حوالے سے تھی ۔گزشتہ روز سے پہلے انہوں نے امریکہ میں سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلر سن سے ملاقات کی تھی ،گزشتہ روز انہوں نے امریکہ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر سے ملاقات کی ۔اس کے بعد انہوں نے United States Institute Of Peace کے فورم پر ایک مرتبہ پھر کھل کر اظہار خیال کیا اور تقریب میں چھا گئے ۔پاکستان کے نئے وزیر خارجہ خواجہ آصف عالمی فورمز پر شاندار انداز میں پاکستان کا حقیقی موقف کھل کر بیان کررہے ہیں ،کمال کے فارن منسٹر ہیں ،یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آٖف پیس کے فورم سے خطاب کے دوران پہلی مرتبہ مجھے محسوس ہوا کہ وہ ایک اعلی تعلیم یافتہ انسان ہیں ،جنہیں تاریخ اور انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے ۔امریکیوں سے انہی کی زبان میں انہوں نے کھل کر باتیں کی ،اس انسان کا شکریہ جس نے نواز شریف کو یہ مشورہ دیا تھا کہ خواجہ آصف کو وزیر خارجہ بنایا جائے ۔میرا مشورہ ہے کہ ہر پاکستانی ان کی تیس منٹ کی گفتگو ضرور سنے جو انہوں نے گزشتہ روز امریکہ میں کی ۔یہ ہوتے ہیں فل ٹائم فارن منسٹر کے فوائد ۔خواجہ آصف نے یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب کے دوران کہا کہ اگر پاکستان کی جوہری تنصیبات کو سرجیکل سٹرائیک کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تو کوئی ہم سے جواب نہ دینے کی اُمید نہ رکھے۔۔پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اب یہ وقت ہے کہ افغان پناہ گزین واپس جائیں اور یہ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو واپس ان کے شہروں میں بسائے کیونکہ امریکہ کی جنگ کی وجہ سے وہ پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ دراصل امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ امریکی وزیر دفاع کے بیان کے تناظر میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا جب ہمیں کوئی کہتا ہے کہ یہ آخری موقع ہے، تو یہ ہمیں قابل قبول نہیں،آخری موقع پہلا موقع یا دوسرا موقع، بولنے دیں انھیں، اگر وہ ہمارے ساتھ اس طرح بات کریں گے تو یہ ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں۔حقانی نیٹ ورک اور حافظ سیعد کو بوجھ قرار دینے کے بیان پر قائم رہتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ہم اس بوجھ سے ایک رات میں پیچھا نہیں چھڑا سکتے کیونکہ وہ یہاں بہت عرصے سے ہیں اور ہمیں ان سے یہ کہنے کے لیے وقت درکار ہے کہ وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ لیں۔پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے گذشتہ ایک ماہ کے دوران مشاہدہ کیا ہے کہ امریکہ صرف اور صرف پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے الزام پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، یہ وہ چیز ہے جو خود امریکہ کو افغانستان میں حاصل نہیں ہو سکی۔ انھوں نے کہا کہ اگر کچھ وقت کے لیے تسلیم کر لیں کہ الزام درست ہے اور پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے ہیں تو پھر وہ کون لوگ ہیں جو منشیات کی تجارت میں ملوث ہیں، کابل میں کرپشن میں ملوث ہیں، طالبان کو ہتھیار بیچ رہے ہیں، علاقے دہشت گروں کے ہاتھوں گنوا رہے ہیں اور شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو افغانستان میں لا رہے ہیں؟خواجہ آصف نے ویت نام وار کے حوالے بھی دیئے اور امریکیوں کے ہوش اڑادیئے ،میرا پاکستان کے تمام ڈپلومیٹس کو مشورہ ہے کہ وہ خواجہ آصف کی طرح دنیا کے سامنے کھل کر مدلل انداز میں پاکستان کا موقف رکھیں ،اس سے پہلے میں خواجہ صاحب کا بہت بڑا ناقد رہا ہوں ،لیکن اب کہوں گا ،تھینک یو خواجہ صاحب ،ایک بات تو واضح ہو گئی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے ۔۔۔۔خواجہ آصف واقعی ایک بہترین فارن منسٹر ہیں۔اب آتے ہیں گزشتہ روز کی تیسری بڑی خبر پر ،وہ ہے ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور کے حوالے سے ۔اسلام آباد احتساب عدالت کا کنٹرول کیسے رینجرز نے سنبھالا تھا ،انہیں کس نے احکامات جاری کئے تھے ؟کیوں وزیروں کو احتساب عدالت کے باہر گیٹ پر روکا گیا ؟اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کھل کر موقف دیا ،پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی حالیہ پیشی کے موقعے پر رینجرز کی تعیناتی کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات مقامی سطح پر غلط فہمی کا نتیجہ تھے اور اس معاملے میں اداروں میں تصادم کی کوئی صورتحال نہیں۔جمعرات کو راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج آصف غفور کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ریاست کے ساتھ کام کرتے ہیں اور مقامی سطح پر پیدا ہونے والی غلط فہمی کے نتیجے میں پیش آنے والے اس واقعے کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا۔احتساب عدالت میں رینجرز کی تعیناتی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کی پہلی پیشی کے موقعے پر وہاں امن و امان کی صورتحال پیدا ہوئی تھی جس کے بعد اسلام آباد کی پولیس، انتظامیہ اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے درمیان مشاورت ہوئی تھی۔ اس دوران اسلام آباد پولیس کی جانب سے ریجنرز کی تعیناتی کے لیے خط بھی لکھا گیا تھا جس کی نقل رینجرز کو بھی بھیجی گئی تھی۔اسی سلسلے میں پوچھے گئے ایک سوال پر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر حکم تحریری ہو۔پریس کانفرنس کے دوران ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے بعد جو معاملہ چل رہا ہے فوج کو اس بارے میں علم ہے تاہم اس خیال پر بات کرنا ہی فضول ہے کہ فوج اس سارے معاملے کے پیچھے ہے یا ملک میں مارشل لا لگانا چاہتی ہے۔ملی مسلم لیگ کے سیاست میں شرکت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ سیاسی عمل میں شرکت ہر پاکستانی کا حق ہے۔فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کا یہ بھی کہنا تھا کور کمانڈرز کی خصوصی کانفرنس کے بعد اعلامیہ اس لیے جاری نہیں کیا گیا کیونکہ خاموشی اپنے آپ میں اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ادھر پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری نے گذشتہ روز ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں رینجرز کی تعیناتی کے معاملے کی انتظامی تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں جن سے یہ بات واضح ہے کہ اسلام آباد کی انتظامیہ کی جانب سے رینجرز اہلکاروں کو طلب نہیں کیا گیا تھا۔اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں معاملات الجھے ہوئے ہیں ،سول اور ملٹری کے درمیان غلط فہمیاں ہیں ،لیکن ایک بات واضح ہے کہ کوئی مارشل لاٗ نہیں لگ رہا ،اس لئے ڈاکٹر شاہد مسعود جو بھی بک بک کرتا رہے ،عوام اس کی جہالت پر توجہ نہ دیں ،کیونکہ ریٹنگ کے چکر میں وہ گزشتہ پانچ سالوں سے جھوٹ پہ جھوٹ بولے جارہا ہے ۔عوام سے اپیل ہے کہ وہ ڈاکٹر جاہل کے پروگرام کا ہی بائیکاٹ کردیں ۔امید ہے پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل روشن رہے گا اور ریاست بہتر انداز میں چلائی جائے گی ،کل کا کیا پتہ ،کل کیا ہو جائے ،البتہ ہمیں تو ترجمان پاک فوج کی زبان پر یقین ہے کہ مارشل لاٗ کی بات کرنے والے فضول لوگ ہیں ۔امید ہے ڈاکٹر شاہد نے بھی ترجمان پاک فوج کی باتیں دھیان سے سنی ہوں گی ۔خدا حافظ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔