آج وہ گھر پر اکیلا تھا۔ اس نے پرانی تصویروں کا البم نکالا۔ پہلی تصویر پر ہی رک گیا۔ ہنستی مسکراتی لڑکی کی یہ تصویر اسے ماضی میں لے گئی۔ اس بڑے ہال میں اس کی بیٹی کا نام پکارا گیا تھا۔ تعلیمی میدان میں اعلیٰ ترین اعزاز وصول کرنے وہ تالیوں کی گونج میں سٹیج پر آئی تھی۔ جب اس کی بیٹی نے انعام وصول کرتے ہوئے فخریہ انداز میں اس کی طرف دیکھا تھا تو خوشی سے اس کی آنکھوں میں امڈتے آنسوؤں کے پیچھے برسوں کی کہانیاں تھیں، لیکن۔۔۔۔
افسانہ نگاری کو یہیں پر روک کر واپس سائنس کی طرف۔ لیکن اس سے پہلے ایک مشق۔ ہماری اس کہانی میں البم دیکھنے والے شخص کی تصویر اپنے ذہن میں بنائیں، وہ کون ہے اور کیسا ہے۔
اس مختصر پیراگراف میں سائنس کی بہت سی چیزیں ہیں لیکن ابھی تجزیہ صرف البم میں لگی تصویر کو دیکھ کر ہونے والے ری ایکشن کا۔
کبھی کسی تفریحی مقام کی سیر کرنے گئے ہوں، کوئی یادگار موقع ہو یا پھر کوئی اچھوتا منظر۔ کیمرے سے ان لمحات کو محفوظ کر لینا ہر جگہ نظر آئے گا اور پھر کبھی فارغ وقتوں میں ان تصویروں سے پرانے وقت کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
جب پرانی یادداشت دہرائی جاتی ہے تو ذہن میں کئی چیزیں اکٹھی ایک ساتھ ایکٹو ہو جاتی ہیں۔ لوگ، جگہ، آوازیں، خوشبوئیں۔ پرانی یاد دہرانا کسی فلم کو دیکھنے جیسا ہے۔ جس میں کئی الگ ٹکڑے اکٹھے ملا کر ذہن ایک ترتیب اور پیٹرن میں جوڑ دیتا ہے۔ کوئی تصویر، آواز، خوشبو اور موسیقی اس پرانی یاد کو دہرانے کے آن ہونے کا سوئچ بن جاتی ہے۔
ڈاکٹر ایڈن ہارنر جنہوں نے اس وقت میں ہونے والی دماغی ایکٹیویٹی کا مشاہدہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ہم یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس پورے تجربے میں مکمل طور پر ڈوب جائیں۔ وہ کمرہ، اس میں چلتی موسیقی، وہ باتیں کرتا دوست اور اس کے الفاظ، یہ سب الگ جگہ پر سٹور ہیں لیکن ہپوکیمپس اس کو ایک واقعے کی صورت میں اکٹھا کرتے ہوئے یادداشت کی لہر بنا دیتا ہے۔ اس پر تفصیل نیچے دئے گیے لنکس میں۔
یادیں ہمارے لئے کتنی اہم ہیں، اس کے لئے ایک سوچ کا تجربہ۔ آپ کے پاس دو چیزوں کا انتخاب ہے۔ آپ کو پانچ دنوں کے لئے آپ کے پسندیدہ ترین مقام پر لے جایا جائے گا، جہاں آپ اپنی زندگی کا بہترین وقت گزار سکیں گے۔ ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے کہ اس دوران نہ کوئی تصویر لے سکیں گے اور آخر میں آپ کو ایک کیپسول دیا جائے گا جس سے آپ وہ گزارے ہوئے دن بھول جائیں گے۔ دوسرا انتخاب یہ کہ پانچ دن کی چھٹی اپنے گھر پر ہی گزار دیں۔ آپ کا انتخاب کیا ہو گا؟
اب مشق کی طرف۔ آپ کے ذہن میں اس شخص کے بارے میں جو خیال بنا، وہ اوپر پیراگراف میں کہیں نہیں لکھا لیکن اس شخص کے بارے میں آپ کچھ تاثر شاید قائم کر چکے ہوں، یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی آج کی کیفیت اور اس کی وجہ کا کچھ اندازہ بھی لگا لیا ہو۔ اس کے پیچھے ہمارے زندگی کے دیکھے اور یاد رکھے گئے تجربات ہیں اور اس میں بڑا ہاتھ ہماری تہذیبی اور ثقافتی معمولات کا ہے۔ ان کہے الفاظ سے جو ہم مطلب اخذ کر لیتے ہیں، اس کا خود ہی کیا گیا تجزیہ ہمیں اپنے ذہن اور پھر اس کے کونے کھدروں میں پوشیدہ تعصبات سے آگاہ کرتا ہے۔
موسیقی اور خوشبو کے یادداشت سے تعلق کی تفصیل نیچے دئے گئے لنکس میں۔
اب کچھ سوال جو اس مختصر پیراگراف میں تھے مگر جن پر بات رہ گئی۔ اس پر اب آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔
ہم تالیاں کیوں بجاتے ہیں؟
جذبات میں آنسو کیوں آتے ہیں اور آنسو ہیں ہی کیا؟
بیٹی نے عین انعام لیتے ہوئے پورے ہال میں اپنے باپ کو ہی کیوں دیکھا؟ آنکھ سے رابطے کی کیا سائنس ہے؟
ایموشن ریگولیشن تھیوری کیا ہے؟
اگر پیراگراف پڑھتے ہوئے آپ کے ذہن میں ساتھ کوئی منظر بنتا جا رہا تھا تو یہ کیسے؟ الفاظ نہ جاننے والا کے ذہن میں یہ منظر نہیں بنے گا۔ الفاظ کے ذخیرہ کہاں سٹور ہے اور اس کی مدد سے یہ پراسسنگ کیسے؟
ہم فکشن کہانیاں پڑھنا، سننا یا پھر اس طرح کے ٹی وی ڈرامے دیکھنا پسند ہی کیوں کرتے ہیں؟