گزارشِ احوالِ واقعی
(ثمینہ راجہ کے خطوط کے حوالے سے
’’ثمینہ راجہ کے خطوط‘‘جناب انیس شاہ جیلانی کے نام لکھے گئے خطوط ہیں جنہیں حال ہی میں شائع کیا گیا ہے۔۲۸ جنوری ۲۰۱۷ء کومجھے کراچی سے جناب راشد اشرف نے اس کتاب کی اشاعت کی خبر بذریعہ ای میل بھیجی اور ساتھ ہی لکھا کہ’’ اس میں دو تین جگہوں پر آپ کا’’ذکرِ خیر‘‘بھی ہے۔نہایت کھلے الفاظ میں‘‘تو میں نے ا نہیں لکھا کہ’’اگر میرے ذکر والا حصہ فراہم کر سکیں تو ممنون ہوں گا۔‘‘چنانچہ انہوں نے کرم کیا اور مجھے آٹھ تصویروں کی صورت میں متعلقہ صفحات فراہم کر دئیے۔وہی صفحات میرے پیش نظر ہیں اور انہی کی بنیاد پر میں اپنی’’ گزارشِ احوالِ واقعی‘‘پیش کررہا ہوں۔
اکتوبر۱۹۷۸ء میں ’’جدیدادب‘‘خان پورکی اشاعت کا سلسلہ شروع کیاتھا۔یہ میری ادبی زندگی کا ابتدائی زمانہ تھا۔۱۹۷۹ء میں ثمینہ راجہ کی طرف سے ایک خط موصول ہوا تو میرا ان کا رابطہ ہوا۔اس کے بعد ادبی زندگی میں وقفہ وقفہ سے ثمینہ راجہ کے ساتھ جو قلمی رابطہ ہوا،اس کی ترتیب مختصراََ بیان کرتا ہوں۔
۱۔اوّلین رابطہ ۱۹۷۹ء میں ہوا جب انہوں نے خط لکھا۔اس دوران وہ جدیدادب میں چھپنے لگیں اور ’’کرنیں‘‘کی اشاعت کے منصوبہ میں بھی شامل ہوئیں۔اسی دورانیہ میں ان کی ایک غزل(یا شاید نظم)روزنامہ امروز کے ادبی صفحہ پران کی تصویر کے ساتھ شائع ہوئی۔انہوں نے لکھا تھا کہ اس پر گھر میں خاصا ہنگامہ ہوا،ان پر تشدد کیا گیا۔پھر رابطہ نہ رہا،البتہ اتنا معلوم ہوا کہ اپنا گھر چھوڑ کر وہ کسی نہ کسی طرح اسلام آباد پہنچ گئی ہیں۔پھر اسلام آباد میں زمان ملک سے ان کی شادی کی خبر سننے میں آئی۔
۲۔دوسرا رابطہ غالباََ ۱۹۹۱ء۔۱۹۹۲ء میں روبرو ہوا۔عذرا اصغر نے اپنے گھر پر ایک گیٹ ٹو گیدر کا انتظام کیا تھا۔یہاں ثمینہ راجہ بھی آئی ہوئی تھیں،زمان ملک بھی تھے۔یہاں میں نے خوشگوار انداز میں ہلکا پھلکا سا جملہ بھی کہا تھا کہ اس محفل میں راجہ بھی ہیں اور مہاراجہ بھی ہیں۔
۳۔تیسرا رابطہ تب فیس بک پر ہوا جب ثمینہ راجہ کی فیس بک پرریحانہ قمر اور نوشی گیلانی کے خلاف شدید جنگ جاری تھی۔فیس بک پر یہ بہت ہی افسوسناک جنگ تھی۔محاذ جنگ پر دونوں طرف سے شدیدگولہ باری ہو رہی تھی۔الزامات کی نوعیت کا اندازہ اس سے کرلیں کہ ریحانہ قمرکی ٹیم ثمینہ راجہ پر فیصل عجمی اور احمد فراز کے حوالے سے بہت ہی کھلے الزامات عائد کررہی تھیں۔تب میں نے ثمینہ راجہ سے رابطہ کیا۔انہیں لکھا کہ اس نوعیت کا گند اچھالا جا رہا ہے تو آپ کو لا تعلق ہوجانا چاہئے۔لیکن وہ نہیں مانیں۔پھر میں نے انہیں دو مشورے دئیے۔ نوشی گیلانی کو کبھی کوئی اصلاح دیتا رہا ہو گالیکن یہ حقیقت ہے کہ اب وہ شعر کہہ سکتی ہیں اور اپنے ڈھب کی اچھی شاعری کر رہی ہیں۔اس لئے نوشی کے خلاف محاذ بندکریں اور صرف ریحانہ کے ساتھ لڑائی کر لیں۔یوں بھی ایک وقت میں ایک محاذ پر ہی لڑنا مناسب ہوتا ہے۔دوسرا مشورہ یہ دیاکہ فیس بک پر ہر بندہ متعددناموں کے ساتھ براجمان ہے۔الزام کے طور پرجو لوگ دوسروں کے فیک اکاؤنٹس کی بات کرتے ہیں وہ خود دس دس فیک اکاؤنٹس کھول کر کام کر رہے ہیں اور اوپر سے معلم اخلاق بھی بنے ہوئے ہیں۔اس لئے اگر اس قسم کی لڑائی لڑنی ہے تو اپنے احباب کو آگے کریں اور خود پیچھے رہ کر مقابلہ کریں۔فیس بک پر اسی طرح مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔آپ کے بارے میں جس قسم کا گنداچھالا جا رہا ہے،اس معاملہ میں آپ کو سامنے نہیں ہوناچاہئے۔لیکن انہوں نے میرے دونوں مشورے نہیں مانے۔جب خواتین کی گالی گلوچ انتہا تک پہنچ گئی تو فیصل عجمی اور عباس تابش کے درمیان رابطہ ہوا اور پھرایک دم ثمینہ راجہ اور ریحانہ قمر کے درمیان جنگ بندی ہو گئی۔لیکن تب بعض لوگوں نے کمنٹ دئیے کہ اس جنگ بندی کے انداز سے دونوں اطراف سے اچھالے گئے الزامات کی بالواسطہ طور پر تصدیق ہو گئی۔
۴۔چوتھا رابطہ ۲۰؍اکتوبر۲۰۱۲ء کو تب ہوا جب ان کی وفات کی خبر ملی اور میں نے اپنے ادبی فورم
پر ان کی وفات کی خبر جاری کی۔وہ خبر یہاں بھی شامل کررہا ہوں۔پہلے ناصر علی سید نے ایک خبر جاری کی۔’’اردو کے ادبی حلقوں میں یہ خبر انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ اردو کی معروف شاعرہ ثمینہ راجہ اب ہمارے درمیان نہیں رہیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔‘‘میں نے اسی خبر کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے مذکورہ فورم پر وفات کے روز ہی یہ خبر ریلیز کی۔
’’انا للہ وانا الیہ راجعون۔اس خبر سے دلی صدمہ ہوا۔ثمینہ راجہ میرے آبائی علاقہ ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھتی تھیں۔ان کی زندگی میں میری یادوں کا باب’’۔۔۔ادبی کائنات میں رنگ‘‘شائع ہوا تھا۔اس میں ان کا ذکرِ خیر بایں الفاظ کیا گیا:
ثمینہ راجہ رحیم یارخان کے قریب ایک گاؤں راجہ کوٹ میں رہتی تھیں۔ان میں شروع سے ہی شاندار تخلیقی صلاحیتیں تھیں۔گاؤں کے ماحول میں تو شاید یہ صلاحیتیں پوری طرح ابھر نہ پاتیں تاہم انہوں نے ہمت سے کام لیا اور قسمت نے یاوری کی اور وہ جلد ہی اسلام آباد کے کشادہ ماحول میں پہنچ گئیں۔اردو کے ایک اچھے شاعر زمان ملک سے ان کی شادی ہو گئی۔پھر غالباََ رشتہ زیادہ نبھ نہیں سکا۔تاہم ثمینہ راجہ نے بڑی بہادری کے ساتھ سماجی سطح پر بھی اور ادبی سطح پر بھی زندگی کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ثمینہ راجہ کو ادبی دنیا میں کافی حد تک پذیرائی ملی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا جو ادبی مقام بنتا ہے ابھی تک ان کے ساتھ وہ انصاف نہیں کیا گیا۔میری ان کے ساتھ رحیم یارخان کے زمانے سے ہی خط و کتابت تھی۔ادبی رابطہ تھا۔تاہم ان سے بالمشافہ ملاقات غالباََ ۹۲۔۱۹۹۱ء ہوئی تھی۔عذرا اصغر نے میری اسلام آباد میں آمد پر اپنے گھر میں ہی ایک ’’گیٹ ٹو گیدر‘‘ کا اہتمام کیا تھا۔ثمینہ راجہ بھی اس موقعہ پر آئی تھیں۔
دعا ہے کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا کرے۔آمین۔
ناصر علی سید صاحب! اس خبر کو بروقت ریلیز کرنے کے لئے آپ کا خصوصی شکریہ۔(حیدرقریشی)
۵۔اب پانچواں رابطہ میں کتاب ثمینہ راجہ کے خطوط کے متعلقہ صفحات کے حوالے سے اپنے اس مضمون کے ذریعے کررہا ہوں۔
ان سابقہ رابطوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ثمینہ راجہ کے بارے میں میری سوچ ہمیشہ مثبت رہی ہے۔انہیں ایسا کیا صدمہ پہنچا کہ وہ میرے بارے میں اتنے نامناسب انداز میں رائے مستحکم کرتی گئیں۔ اب مجھے خود ثمینہ راجہ کے خطوط کے اندر سے ہی اپنے موقف کی صفائی اور ان کی سوچ کی تردید کرنا پڑے گی تو مجھے اس کا بھی افسوس رہے گالیکن یہ شائع ہوئے ہیں تواپنی طرف سے اتنی وضاحت کرنا تو بنتاہے۔ اب میں ثمینہ راجہ کے خطوط میں اپنے ذکر والے سارے موصولہ حصے پیش کردیتاہوں تاکہ پھر مختلف نکات پر آسانی سے بات ہو سکے۔
٭٭٭’’یاد آیا حیدر قریشی سے اس کا رسالہ منگوائیے،اس نے تو مارے طعنوں کے میرا جینا دوبھر کردیا ہے،بے چارہ غضب کا کنجوس آدمی ہے۔اس کا ایک لطیفہ آپ کو سناؤں پچھلے دنوں میں نے تخلیق میں ’’جدیدادب‘‘کا اشتہار دیکھااور’’شفق رنگ ‘‘کا بھی،یہ کتاب ضلع رحیم یار خان کے شعراء اور شاعرات کے کلام کے انتخاب پر مشتمل ہے،میں نے اسے خط لکھا کہ اپنا پرچہ اور کتاب بذریعہ وی پی پی بھجواؤ،جواب میں اس کا خوب لمبا چوڑا خط آیا۔ایک ایک لفظ سے بے تابی ٹپکتی تھی۔بتائیے آپ نے اس سے پہلے خط کیوں نہیں لکھا،اتنی دیر کیوں لگائی،میں کب سے آپ کے خط کا منتظر تھا،ہر دوسری سطر کے بعد انہیں جملوں کی تکرار،میں سخت حیران ہوئی کہ یہ کیا ماجرا ہے بعد میں اس نے بتایا کہ وہ نہیں جانتاکہ میں بھی رحیم یار خان سے تعلق رکھتی ہوں۔’’شفق رنگ‘‘کی اشاعت کے بعد لاہور اور سرگودھا کے بعض ادیبوں اور مدیروں نے اس سے پوچھا کہ ثمینہ راجہ بھی تو رحیم یارخان کی ہے اسے کتاب میں کیوں شامل نہیں کیا۔اس پر بیچارہ میرے خط کا انتظار فرمانے بیٹھ گیا۔ظاہر ہے میرا پتہ تو اسے معلوم تھا نہیں کہ خود رابطہ قائم کرتا۔اچھا یہ تو تعارف تھا لطیفہ آگے ہے۔کتاب پر اس نے لکھا ’’بی بی ثمینہ کی نذرجن کا نام شامل نہ ہونے کی وجہ سے یہ کتاب ہمیشہ کے لئے ادھوری ہو گئی۔‘‘ کتاب اور رسالے کا بھجوایا بھی پارسل،میں سمجھی کہ اعزازی طور پر بھجوایا ہے لیکن خط کے آخر میں چند سطریں تھیں،ملاحظہ فرمائیے۔’’وی پی بھجوانے کی عادت میں نے سیکھی نہیں،اعتماد کرکے پارسل بھجوایا کرتا ہوں،اکثر دھوکہ بھی ملتا ہے مگر وی پی پی نہیں بھجوایا کرتا،آگے آپ جانیں۔‘‘اب کون کافر ہے جو ’’دھوکے‘‘کا لفظ سن کر بھی اس کے رسالے اور کتاب کو ہضم کرے گا۔سو میں نے ۴۵ روپے منی آرڈر کرادئیے،کتاب کی قیمت سمیت۔کتاب پر نوٹ تھاخیال تھا کہ یہ تو یقیناََ نذر ہو گیاور آجکل میں معذرت کا خط آئے گا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی،مگر توبہ کیجئے صاحب،جواب میں ایک عدد شکریہ آیا منی آرڈر کی وصولی پر۔اب جب بھی کتاب دیکھتی ہوں نوٹ دیکھ کر دل جل کر کباب ہوجاتا ہے،آپ براہ کرم اسے تیس روپے منی آرڈر کروائیے تاکہ وہ اپنا پرچہ آپ کو ’’اعزازی طور‘‘پر بھجوا سکے۔‘‘(ص ۲۰۱)
٭٭٭’’پہلی انتہا حیدرقریشی ہے۔آپ نے بہت اچھا کیا روپے اسے بھجوادئیے۔تیس چالیس یا سو روپوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا،ہاں آدمی کی’’اوقات‘‘معلوم ہو جاتی ہے۔‘‘(ص۲۰۶)
٭٭٭’’جدید ادب ‘‘کے دو شمارے رجسٹرڈ بھجوائے تھے موصول ہوئے ہوں گے۔حیدرقریشی صاحب ’’کرنیں‘‘کے نام سے بہاول پور ڈویژن کے شعراء اور شاعرات کے کلام کے انتخاب پر مشتمل ایک مجموعہ چھاپ رہے ہیں۔مجھے کہتے ہیں اس خیال کا محرک آپ ہیں،میں نے آپ کو’’شفق رنگ میں شامل نہیں کیا تھا،مگر اتنا بتا دوں کہ پانچ سو روپے ہر شاعر سے وصول کر چکے ہیں عجیب آدمی ہیں یہ صاحب بھی۔‘‘(ص ۲۲۱)
٭٭٭’’یہ تو آپ نے عجیب بات لکھی ہے کہ آپ لوگ یعنی ضلع رحیم یار خان کے لال بجھکڑاگر مل جائیں تو لاہور،کراچی پر بھاری پڑ سکتے ہیں،حیدرقریشی صاحب بھی یہی بات کہتے ہیں مگر میں متفق نہیں ہو سکتی۔‘‘(ص۲۲۲)
٭٭٭’’جدیدادب ‘‘واقعی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے پا کر وقت کٹنے کا کوئی سامان ہو سکے مگر چھپتا بھی تو خان پور سے ہے نا۔مدیر کی فرمائش پر میرا خیال ہے تمام بڑے لکھنے والے مطبوعہ چیزیں ہی بھجواتے ہیں،غیر مطبوعہ چیزیں معمولی رسالے میں دینے سے ان کی ساکھ پر اثر پڑتا ہوگا۔حیدرقریشی کی واقفیت بھی زیادہ لوگوں سے نہیں ہے کچھ یہ شخص انانیت زدہ بھی ہے لوگ رسمی طور پر جو چند جملے تعریف کے طور پر لکھ دیتے ہیں اسی پر یہ حضرت پھولے نہیں سماتے۔آپ کیوں ہمت نہیں کرتے ،حیرت شملوی اکیڈمی صرف نام کی اکیڈمی ہے،کچھ کام بھی لیجئے اس سے،کوئی رسالہ نکالئے،آئیے ہم مل کر رسالہ نکالیں،سید انیس شاہ جیلانی صاحب اورثمینہ راجہ۔ہم کوئی معمولی لوگ تھوڑے ہیں،بس ہمت کی بات ہے‘‘ (ص۲۲۲،۲۲۳)
٭٭٭’’جدیدادب‘‘ نے میری شاعری پر کچھ خاص نہیں لکھا۔حیدرقریشی ایک مضمون لکھ رہے تھے مجھ ناچیز پر،مکمل کر لیا تو مجھے بھی دکھایا،میری تعریف کم تھی پروین شاکر کی مذمت زیادہ۔حیرت ہے پروین نے بڑے بڑوں کو چکرادیا ہے۔مجھے بعض اوقات تو بڑا لطف آتا ہے کوئی صاحب اسے آفتاب بنانے پر تلے ہوئے ہیں کوئی ذرہ بھی نہیں سمجھتے۔میں نے حیدرقریشی سے کہا کہ ’’اگر وہ مجھ پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں توپروین شاکر کی مذمت مت کریں،ورنہ براہِ کرم مضمون لکھنے کا ارادہ ترک فرمادیں۔کسی شخص کو خوامخواہ اس کے مقام سے گرانے کی کوشش کرناسخت ذلیل حرکت ہے۔میں بھلا اپنی دکان چمکانے کے لئے کسی کو کیوں نیچا دکھانے کی کوشش کروں،مجھے تو یہ بالکل پسند نہیں۔اب میرا خیال ہے انہوں نے مضمون ہی رکھ چھوڑا ہے۔گروپ بازی کی لعنت ہمارے ادب پر مسلط ہو چکی ہے۔‘‘(ص ۲۲۳)
٭٭٭’’حیدرقریشی کا خط تلاش کرنا پڑے گااتنے بہت سے خطوط میں لیکن میں بھجوا ہی دوں گی۔آپ ذرا اس شخص کا لہجہ ملاحظہ فرمائیے گا،مجھے زندگی بھر کسی شخص پر اتنا غصہ نہیں آیا ۔آپ سوچتے ہوں گے پھر اس سے خط و کتابت کیا ضروری ہے۔لیکن سچ پوچھئے تو سانپ کے منہ میں چھچھوندرکا معاملہ ہو گیا ہے۔جب میں نے آپ کے لئے غلط الفاظ استعمال کرنے پرجھاڑا تو حضرت معذرت کرنے لگے لیکن میں نے تہیہ کیا ہے کہ اب ختم۔‘‘(راشد اشرف کی ارسال کردہ پکچر ۷ پر صفحہ نمبر درج نہیں ہے۔)
’’حیدرقریشی کا کوئی اور خط مجھے ملا نہیں،کاغذوں میں ادھر ادھر ہوگیا ہوگا،تحریر تو آپ نے اس شخص کی دیکھ لی،انداز گفتگو بھی ملاحظہ فرمالیا،اب لعنت بھیجئے۔‘‘(ص ۲۲۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میں ان فرمودات کے مختلف نکات کا الگ الگ جائزہ پیش کرتا ہوں۔ثمینہ راجہ کے الزامات کو ان کی اپنی تحریر اور حقائق کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔
۱۔عزت کے ساتھ استقبال کرنے کا گناہ: ثمینہ راجہ کو بعض ادبی رسائل میں پڑھا تھا،جب یہ معلوم ہوا کہ وہ میرے ہی ضلع کی رہنے والی ہیں تو خوشی ہوئی۔جب ان کا پہلا خط ملا تو میں نے اپنی خوشی کابے ساختہ اظہار کیا۔میرے خط کے جو مندرجات انہوں نے بیان کئے ہیں وہ کسی’’بے تابی‘‘کا نہیں بلکہ خوشی کا اظہار تھا۔اسی لیے بعد میں جب انہیں کتاب ’’شفق رنگ‘‘بھیجی تو اس میں یہ لکھا کہ: ’بی بی ثمینہ کی نذرجن کا نام شامل نہ ہونے کی وجہ سے یہ کتاب ہمیشہ کے لئے ادھوری ہو گئی۔‘‘
یہ عبارت تو میری ادبی ایمانداری کا ثبوت ہے کہ اگر پہلے اپنے ضلع میں ان کے موجود ہونے کاعلم نہ ہونے کے باعث’’شفق رنگ‘‘ان کے کلام کے بغیر چھپ گئی تھی تو میں نے اس انتخاب کو ادھوراقراردیا۔کوئی میرے ساتھ اس انداز کا سلوک کرے تو میں اس کی عزت افزائی کا ہمیشہ شکر ادا کرتا ہوں۔میری متعدد تحریروں میں اپنے معاصرین کی ادبی اہمیت کے برملااعتراف اور شکرگزاری کی مثالیں موجود ہیں۔ یہاں اپنے ایک بیان اور شکرگزاری کی دو مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔
٭٭٭’’ہماری ادبی دنیا میں بہت سارے ایسے ادیب ہیں جو کسی دوسرے ادیب کے بارے میں جو توصیفی رائے رکھتے ہیں،کسی مجلس میں اس ادیب کی موجودگی یا غیرموجودگی میں ذکر آنے پر بھی اس کا فراخدلانہ اعتراف کرلیتے ہیں جبکہ بعض ایسے ادیب بھی ہیں جو کسی سے ادبی سطح پر بہت زیادہ متاثر بھی ہوں تو اسے چھپا کر رکھتے ہیں،بلکہ اس کے تئیں اپنی بے نیازی ظاہر کرتے ہیں۔ میں کسی بھی بڑے یا چھوٹے بلکہ بہت ہی چھوٹے ادیب کے بارے میں بھی جو اچھی رائے رکھتا ہوں اس کا برملا اعتراف کرنے سے دریغ نہیں کیا کرتا۔‘‘
(تسلیم الہٰی زلفی کی فیض شناسی یا خودنمائی؟ از حیدرقریشی۔ مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر ۲۳۔فروری ۲۰۱۶ء)
ماسکو سے ڈاکٹر لدمیلاوسیلیویاکی ۲۴ستمبر ۲۰۱۶ء کی ایک خوش کن ای میل کے جواب میں، میں نے لکھا:
٭٭٭’’میں توآپ کی اس خبر سے ہی خوش تھا کہ آپ برصغیر سے باہر کے ادبی رسائل پر کام کر رہی ہیں۔یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ یہ کام تو صرف ایک حصہ ہے جبکہ آپ برصغیر سے باہر کی اردو دنیا پر پوری کتاب لکھ رہی ہیں۔پھر اسی حوالے سے جدید ادب کے بارے میں اور میرے تئیں آپ کی محبت اور اخلاص کا اظہار،ذکرِ خیر بھی اور شاعری کا روسی زبان میں ترجمہ بھی،اتنی خوشیاں۔۔۔۔۔سچی بات ہے میرا دامن چھوٹا پڑگیا ہے۔(میں ایسی خوشیوں پر اپنے جذبات کو چھپاتا نہیں ہوں۔ہمیشہ اپنی خوشی کا بے ساختہ اظہار کرتا ہوں)اللہ آپ کو خوش رکھے اور صحت تندرستی والی زندگی عطا کرے۔آمین۔‘‘
٭٭٭ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے روزنامہ آج پشاور۔۲۵؍جولائی ۲۰۱۰ء میں اپنے کالم میں ’’جرمنی کا ایک ادبی رسالہ‘ ‘کے ذیلی عنوان سے میری بہت زیادہ عزت افزائی کی،میری حیثیت سے زیادہ مجھے اہم گردانا۔میں نے ان کا تمسخر نہیں اڑایا بلکہ یوں شکریہ اداکیا۔
’’۱ :ڈاکٹر صاحب آپ کی محبت اور حوصلہ افزائی ہمیشہ میرے لیے تقویت کا موجب بنی ہے ۔آپ کے بعض القاب اور جملے میری حیثیت سے زیادہ ہو کر بھی مجھے اچھے لگے ہیں لیکن یہ ’’بابائے ادب‘‘کا لقب میری حیثیت سے زیادہ ہی نہیں بہت زیادہ ہے۔ادبی لحاظ سے تو بالکل ہی نہیں اور عمر کے لحاظ سے بھی ابھی ایسا بزرگ نہیں ہوا کہ اس لقب کا متحمل ہو سکوں۔ سو آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوں۔(حیدر قریشی) ‘‘ مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ نمبر ۱۶۔ص۔۵۵۔۵۶
میری زندگی کا یہ رویہ شروع سے اب تک ایسا ہی ہے۔ثمینہ راجہ نے اس کے برعکس میری طرف سے خوشی اور عزت کے ساتھ اپنا استقبال کئے جانے پر طنزیہ اور تمسخرانہ انداز اختیار کیا تو یہ ان کااپنا مزاج اور ان کا اپنا ظرف ہے۔میں صرف شرمندگی کا اظہار ہی کر سکتا ہوں۔
جدیدادب کی فروخت کا گناہ: ثمینہ راجہ نے لکھا کہ’’ اپنا پرچہ اور کتاب بذریعہ وی پی پی بھجواؤ‘‘۔میں نے لکھاکہ ’’وی پی بھجوانے کی عادت میں نے سیکھی نہیں،اعتماد کرکے پارسل بھجوایا کرتا ہوں،اکثر دھوکہ بھی ملتا ہے مگر وی پی پی نہیں بھجوایا کرتا،آگے آپ جانیں۔‘‘
اس پر ثمینہ راجہ نے جس نوعیت کی طعنہ زنی کی ہے وہ بے حد افسوسناک ہے۔نہ تو میں نے کوئی بل بھیجا۔نہ کسی معیّن رقم کا تقاضا کیا۔پارسل انہیں ملا اور انہوں نے جو مناسب سمجھا بھیج دیا۔اس کے بعد اس پر جتنے جملے تراشے گئے وہ ثمینہ راجہ کی ’’عالی ظرفی‘‘ہی کہلاسکتے ہیں۔اب ’’جدیدادب‘‘کی فروخت کی بات ہی آئی ہے تو آج اس حقیقت کا اظہار بھی کر دوں کہ جدید ادب خانپور کے دور میں ایک شمارہ بھی ایسا نہیں تھا جس کو دس خریدار نصیب ہوئے ہوں۔اکا دکا کسی نے تعاون کیاوہ بھی کبھی کبھار۔ثمینہ راجہ کی صورت میں حاتم طائی ایک ہی نصیب ہوئیں۔
جدیدادب خانپور ہی نہیں جدیدادب جرمنی کا معاملہ بھی ایسا ہی رہا ہے۔بمشکل تین یا چار احباب تعاون کرتے تھے۔رسالہ میں جیسے تیسے شائع کرلیتاتھا ۔ڈاک خرچ بھی برداشت کر لیتا تھا۔لیکن جب ڈاک خرچ بہت زیادہ ہو گیا،رسالے کی اشاعت کی لاگت سے بھی بڑھ گیا،تب میں نے مجبوراََ رسالہ بند کردیا۔اس معاملہ میں جدیدادب کے اداریوں اور بعض انٹرویوز اور دوسری تحریروں میں ثبوت موجود ہیں۔کسی نے طلب کئے تو وہ بھی پیش کردوں گا۔یہ بھی نصیب کی بات ہے کہ’’جدیدادب‘‘خان پورکو ایک دو بندوں نے ۴۵ روپے عنایت کردئیے تو اس کا اعلان بھی اس انداز میں کردیا گیا۔اور ہم جو گھر پھونک کر رسالہ چلا رہے تھے وہ سارا دریا برد ہوا۔یہاں اپنے ایک انٹرویو کا اقتباس بھی دے دیتاہوں۔صورتِ حال مزید واضح ہو جائے گی۔
’’ادبی رسائل کے حوالے سے‘‘عزیز نبیل کے سوالوں کے جواب
سوال نمبر۸: کیا آپ کو اپنے رسالے کے زیادہ تر نسخے اعزازی طور پر شعراء وادبا کو روانہ کرنے پڑتے ہیں؟
جواب:زیادہ تر نسخے نہیں جناب۔۔سارا رسالہ ہی اعزازی جاتا ہے۔میں نے اپنے رسالے پر قیمت درج ہی نہیں کرائی۔ایک بار چند دوستوں کے اصرار پر قیمت درج کرائی تو اتنی شرمندگی ہوئی کہ پھر فوراََ پہلی ڈگر پر آگیا۔ہاں کچھ دوست ڈاک خرچ کے طور پریا ویسے تعاون کے طور پر کبھی کبھار کچھ عنایت کر دیتے ہیں تو ان کا شکر گزار رہتا ہوں۔جو مدیرانِ جرائد ادب کے قارئین اور ادیبوں کواپنا رسالہ سہولت کے ساتھ قیمتاََ بھیجتے ہیں،مجھے ان کی کامیابی سے خوشی ہوتی ہے۔‘‘
(مطبوعہ دستاویز ۔دوحہ، قطر۔شمارہ نمبر ۲۔سال اشاعت ۲۰۱۲ء)
جدیدادب کی مزید ملامت: ثمینہ راجہ لکھتی ہیں۔’’جدیدادب ‘‘واقعی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے پا کر وقت کٹنے کا کوئی سامان ہو سکے مگر چھپتا بھی تو خان پور سے ہے نا۔مدیر کی فرمائش پر میرا خیال ہے تمام بڑے لکھنے والے مطبوعہ چیزیں ہی بھجواتے ہیں،غیر مطبوعہ چیزیں معمولی رسالے میں دینے سے ان کی ساکھ پر اثر پڑتا ہوگا۔حیدرقریشی کی واقفیت بھی زیادہ لوگوں سے نہیں ہے ۔‘‘
’’جدیدادب‘‘کی توصیف یا تنقیص کرنا ہرقاری کا حق ہے لیکن یہ تاثر دینا غلط ہے کہ اس میں بڑے لکھنے والے اپنی مطبوعہ چیزیں بھیجتے تھے۔پہلے شمارہ میں ہی ڈاکٹر سید عبداللہ کا مضمون اردو ادب میں پاکستانیت کے مسئلہ پر تھا اور اسے بعد کے شماروں میں انورسدید اور شمیم احمد جیسے نقاوں نے مزید آگے بڑھایا۔یہاں زیادہ تفصیل میں جانے کی بجائے ڈاکٹر لدمیلا ہی کی۱۹ستمبر۲۰۱۶ء کی ای میل کا اقتباس پیش کردیتا ہوں۔وہ خانپور کے زمانے سے جرمنی کے زمانے تک جدیدادب کو دیکھتے ہوئے لکھتی ہیں۔
٭٭٭’’محترم حیدر قریشی صاحب، آپ کے تفصیل جواب کے لیے بیحد شکریہ۔
جہاں تک 'جدید ادب" کے خانپور کے دور کی بات ہے تو اس کی پوری داستان مجھے معلوم ہے۔ ڈاکٹر وزیرآغا اور دوسرے اہل ِادب سے آپ کے روابط ، مالی سمیت وہ ساری مشکلات بھی جوآ پ کو رسالہ نکالنے کی راہ میں عبور کرنا پڑیں اور آپ کی اَن دیکھی قوت ِارادی اور استقلال، سب معلوم، اور اس سب کچھ سے میں بہت ہی متاثر ہوئی ہوں۔ برِ صغیرسے باہرشائع ہونیوالے جریدوں پر، جو سترکے عشرے سے لے کر آج تک نکالے جاتے تھے ، میرے مطالعہ، جائزہ میں آپ کا کردار اور آپ کا "جدید ادب" مرکز ِ توجہ ہے۔ آپ کا ایک مثالی فقرہ جو "جدید ادب" کے شمارہ نمبر ۷ ۱، ۲۰۱۱ء کے اداریہ میں درج ہے، آپکی ادبی سرگرمیوں کی بہترین وضاحت ہے ،جس پر خاص زور دئیے بغیر نہیں رہا جا تا ہے کہ "میں کوئی ادبی خدمت نہیں کر رہا بس اپنی زندگی اور ادبی زندگی بسر کر رہا ہوں"۔ کیا خوب آپ نے کہا۔ ‘‘
پھر اپنی ۲۰ستمبر ۲۰۱۶ء کی ای میل میں ڈاکٹر لدمیلا وسیلیویا لکھتی ہیں۔
٭٭٭’’مجھے افسوس ہے کہ اس قدر معیاری رسالہ تاریخ کے طاق پر آیا ہے۔ لیکن جس کے پاس اس رسالے کے کتابی شمارے ہیں اس نے ضرور گھر کی لائبریری میں ان کوایک نمایاں جگہ پر رکھا ہو گا۔ کم از کم میں اپنی بات بتا رہی ہوں۔ جب کچھ پڑھنے کو جی چاہتا ہے اکثر "جدید ادب "کا کوئی شمارہ اٹھا لیتی ہوں۔ اپنے کام کے لیے بھی کافی مواد ملتا ہے۔‘‘
جدید ادب کے بارے میں ڈاکٹر لدمیلا اور ثمینہ راجہ کے تاثر اور خیال کا فرق صاف ظاہر ہے!
ثمینہ راجہ کا خیال کہ تمام بڑے لکھنے والے’’مطبوعہ چیزیں‘‘ہی بھجواتے ہیں۔اس سلسلے میں شمیم احمد جیسے مشکل نقاد کے ایک خط کا اقتباس بھی پیش کرتاہوں۔اس سے عمومی صورتِ حال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭’’آپ نے جمیل جالبی کے معاملہ میں بری طرح پھانس لیا ہے۔اتنا شدید پھندہ نہ ڈالا کیجئے۔اخلاقی طور پر آپ اذیت میں مبتلا کردیتے ہیں۔بہر حال کوشش کروں گاکہ آئندہ ماہ فرمائش پوری کر سکوں۔‘‘(جدیدادب خان پور شمارہ مارچ ۱۹۸۳ء، ص ۳۰۱)
بندے کی اوقات: ثمینہ راجہ اپنی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔
’’پہلی انتہا حیدرقریشی ہے۔آپ نے بہت اچھا کیا روپے اسے بھجوادئیے۔تیس چالیس یا سو روپوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا،ہاں آدمی کی’’اوقات‘‘معلوم ہو جاتی ہے۔‘‘(ص۲۰۶)
’’جدید ادب ‘‘کے دو شمارے رجسٹرڈ بھجوائے تھے موصول ہوئے ہوں گے۔حیدرقریشی صاحب ’’کرنیں‘ ‘ کے نام سے بہاول پور ڈویژن کے شعراء اور شاعرات کے کلام کے انتخاب پر مشتمل ایک مجموعہ چھاپ رہے ہیں۔مجھے کہتے ہیں اس خیال کا محرک آپ ہیں،میں نے آپ کو’’شفق رنگ میں شامل نہیں کیا تھا،مگر اتنا بتا دوں کہ پانچ سو روپے ہر شاعر سے وصول کر چکے ہیں عجیب آدمی ہیں یہ صاحب بھی‘‘(ص ۲۲۱)
جہاں تک بندے کی اوقات کا تعلق ہے میں خود اس سے بخوبی واقف ہوں۔میں نے اپنی یادوں کے ایک باب کا عنوان ہی’’بندۂ مزدور کی اوقات‘‘رکھا ہے۔جب جدید ادب کا اجرا کیا تھا میری تنخواہ ڈیڑھ سو سے دو سوروپے ماہانہ کے درمیان تھی۔رضی صاحب نے ابتدائی ڈیڑھ برس میں سو ڈیڑھ سو روپے فی شمارہ اشتہار مہیا کئے۔باقی بیوی کا زیور بیچ کر رسالہ چھاپتا رہا۔(حوالہ:خاکہ’’ پسلی کی ٹیڑھ‘‘ )ویسے اللہ کے فضل سے وہ سارا زیور اسے جرمنی میں بنوا کر دے دیا ہے۔اب کوئی مائی کا لال دکھا دیں جس نے ایسی بے سروسامانی کے عالم میں ’’جدید ادب‘‘خانپور جتنا ہی رسالہ نکال دکھایا ہو۔بے شک یہ میرا اپنا شوق تھا لیکن اہلِ نظر اسے گہری نظر سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ڈاکٹر انور سدیدکا ایک اقتباس :
٭٭٭’’حیدر قریشی کو اردو ادب کی ترویج کا شوق اس وقت پیدا ہوا تھا جب وہ خانپور کی ایک فیکٹری میں محنت مزدوری کرتے تھے۔غزل کہتے تھے ، افسانہ لکھتے تھے۔ڈاکٹر وزیر آغا سے شنا سائی ہوئی تو ان کے باطن سے انشائیے کے شگوفے بھی پھوٹنے لگے۔ لیکن ادب کا یہ عمل ان کی ذات تک محدود تھا۔ اردو ادب کی خدمت کے لئے وہ اپنے عمل کے دائرے کووسیع کرنا چاہتے تھے۔چنانچہ انھوں نے خانپور جیسے دور افتادہ مقام سے رسالہ جدید ادب جاری کیا۔ فیکٹری سے محنت مشقت سے حاصل کیا ہوا رزقِ حلال اس پرچے کی طباعت اور اشاعت پر خرچ کر ڈالتے۔تھوڑے عرصہ میں جدید ادب اتنا معیاری پرچہ بن گیا کہ اس دور کے پاک و ہند کے بیشتر اہم ادیب اپنی اعلیٰ تخلیقات جدید ادب کو اشاعت کے لئے بھیجنے لگے۔ متعدد نئے لکھنے والوں کو حیدر قریشی نے اعتماد اشاعت عطا کیا۔ اور آج وہ اردو ادب کی کہکشاں کے روشن ستارے بن گئے ہیں۔‘‘
(جدید ادب اور حیدرقریشی۔از ڈاکٹر انورسدید۔ مطبوعہ ادبی صفحہ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔۱۹؍دسمبر۲۰۰۸ء)
یہاں یہ وضاحت بھی کردوں کہ شفق رنگ اور کرنیں دونوں کتابیں ہی امدادِ باہمی کے ساتھ شائع کی گئیں تھیں۔میرا ابتدائی ادبی زمانہ تھا۔وسائل تھے نہیں مگر کام کرنے کا شوق بھی تھا۔سو دوستوں کے ساتھ صلاح مشورہ کیا تو سب نے تعاون کیا۔ثمینہ راجہ سے بھی جب بات ہوئی تو میں نے صاف گوئی کے ساتھ انہیں بتا دیا کہ آپ کو اتنا ساتھ دینا ہوگا۔اس میں شاید صاف گوئی ہی عجیب چیز رہی ہے۔
اہلِ ملامت کی مزید ملامت: ثمینہ راجہ لکھتی ہیں۔
’’حیدرقریشی کی واقفیت بھی زیادہ لوگوں سے نہیں ہے کچھ یہ شخص انانیت زدہ بھی ہے لوگ رسمی طور پر جو چند جملے تعریف کے طور پر لکھ دیتے ہیں اسی پر یہ حضرت پھولے نہیں سماتے۔آپ کیوں ہمت نہیں کرتے ،حیرت شملوی اکیڈمی صرف نام کی اکیڈمی ہے،کچھ کام بھی لیجئے اس سے،کوئی رسالہ نکالئے،آئیے ہم مل کر رسالہ نکالیں،سید انیس شاہ جیلانی صاحب اورثمینہ راجہ۔ہم کوئی معمولی لوگ تھوڑے ہیں،بس ہمت کی بات ہے‘‘ (ص۲۲۲،۲۲۳)
ایک چیز ہوتی ہے اپنی عزت نفس کا احساس اور ایک چیز ہوتی ہے انانیت۔اگرمیں انانیت زدہ ہوتا توثمینہ راجہ کے پہلے خط پر ان کا اتنی خوشی اور عزت کے ساتھ استقبال نہ کرتا۔میرے بارے میں خود ان کے بقول:’’جب میں نے آپ کے لئے غلط الفاظ استعمال کرنے پرجھاڑا تو حضرت معذرت کرنے لگے ‘‘۔۔۔کیا انانیت زدہ اس انداز میں معذرت کرتے ہیں؟
جہاں تک انیس شاہ جیلانی کے بارے میں میری کسی رائے کا تعلق ہے،اگر ثمینہ نے کسی رائے کا اظہار کیا اور میں نے ان سے اختلاف کیا تو اس میں کیا غلط تھا؟حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس سلسلہ میں کچھ بھی یاد نہیں ۔اگر انیس شاہ جیلانی صاحب، ثمینہ راجہ کے فراہم کردہ میرے خط کی فوٹو کاپی عنایت کردیں تو ہو سکتا ہے کچھ بھولا بسرا ہوا یاد آجائے۔وگرنہ ،نہ تو میں کہیں انیس شاہ جیلانی کی راہ میں آتا ہوں اور نہ ہی وہ کہیں میرے رستے میں آتے ہیں۔ہم الگ الگ راہوں کے راہی ہیں۔
اسی خط میں ثمینہ راجہ اپنے تئیں لکھتی ہیں۔’’ہم کوئی معمولی لوگ تھوڑے ہیں،‘‘اب پتہ نہیں انانیت زدہ کون نکلا؟۔کون ہے کتنا گنہگار کہوں یا نہ کہوں!
ضلع رحیم یار خان سے اپنا رسالہ نکالنے کا خیال عمدہ تھا۔ثمینہ راجہ اور انیس شاہ صاحب دونوں صاحبِ حیثیت لوگ تھے۔دونوں مل کر رسالہ نکالتے تو بہت اچھا رسالہ نکال سکتے تھے۔ضلع رحیم یار خان سے اور بھی ادیبوں نے ادبی رسائل نکالے۔کوئی ایک شمارہ نکال پایا،کوئی دوسرے شمارے کے آنے تک ہانپ گیا۔یہ سارے لوگ بڑے باوسیلہ اور بارسوخ لوگ تھے،نجی طور پر بھی اور پبلک ریلیشننگ کے حوالے سے بھی۔لیکن شاید کچھ بات توفیق ملنے کی بھی ہوتی ہے۔میرے بارے میں ثمینہ راجہ کا یہ فرمان بھی دیکھتے ہیں۔’’لوگ رسمی طور پر جو چند جملے تعریف کے طور پر لکھ دیتے ہیں اسی پر یہ حضرت پھولے نہیں سماتے۔‘‘
ڈاکٹر لدمیلا کے نام اپنی ای میل درج کر چکا ہوں،اس کا یہ جملہ دہرادیتا ہوں۔
(میں ایسی خوشیوں پر اپنے جذبات کو چھپاتا نہیں ہوں۔ہمیشہ اپنی خوشی کا بے ساختہ اظہار کرتا ہوں)
اور اب جدیدادب خانپور کے شمارہ ۴(۱۹۷۹ء)میں چھپنے والے چند ادیبوں کے خطوط،جو بقول ثمینہ راجہ ’’رسمی طورپر‘‘لکھ دئیے گئے۔لیکن سچی بات ہے ایسے خطوط میرے شوق کوہمیشہ مہمیز کرتے رہے ہیں۔یہ ۸۰ صفحات پر مشتمل تین شماروں کے شائع ہونے کے بعدجیدادیبوں میں جدیدادب کے بارے میں پیدا ہونے والے تاثر کی ایک جھلک ہے۔
سید ضمیر جعفری(اسلام آباد):چھوٹے بھائی!آپ نے تو خانپور سے اتنا عمدہ ادبی جریدہ نکال کر خانپور کو بڑا شہر بنا دیا۔آفرین!میرے سامنے جدید کا وہ شمارہ ہے جس میں میرا مضمون بھی شامل ہے،سو سوائے میرے مضمون کے باقی تمام رسالہ موتیوں کی مالا ہے۔اللہ تمہارے حوصلوں کو جوان رکھے۔
ڈاکٹر وزیر آغا(سرگودھا):آپ کا محبت نامہ ملا،ساتھ ہی جدید ادب کا تازہ شمارہ بھی،جسے پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی۔خوشی اس لیے بھی ہوئی کہ جدید ادب نے تھوڑے ہی عرصہ میں اپنی شخصیت دریافت کر لی ہے۔اکثر رسائل سالہا سال کی محنت کے بعد اس مقام پر پہنچتے ہیں۔
ممتاز مفتی(اسلام آباد):مضامین آپ ہمیشہ اچھے حاصل کرتے ہیں اور ’’ناموں ‘‘والے حیرت ہے کہ کیسے حاصل کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا(لاہور):خط ملا ساتھ ہی جدید ادب کا شمارہ بھی۔خانپور جیسے دور افتادہ مقام سے ایسے معیاری جریدے کی اشاعت نے خوشگوار حیرت سے دوچار کر دیا۔
علامہ منظور احمد رحمت(ایڈیٹر ویکلی مدینہ بھاولپور):آپ نے جدید ادب کے سلسلہ میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ ٹھوس بھی ہیں اور صحت مند بھی۔آپ قلم کی آبرو کے محافظ ہیں۔ایسے لوگ خوش نصیب بھی ہوتے ہیں اور مرجع خلائق بھی۔راستے کی دشواری،حریفوں کی ملامت گری،وسائل کی کمیابی اور غمِ روزگار کی خلش،یہ سب پُر خلوص انسانوں کے نصیبے میں لکھ دئیے گئے ہیں۔ منافق اور شوریدہ سر ان نعمتوں کے جلال و جمال کو کیا جانیں!‘‘
یہ محض رسمی تاثرات نہیں ہیں۔اگر ان تاثرات کو غور سے پڑھیں تو ان میں معترضین کے کئی اعتراضوں کے بالواسطہ طور پر جواب بھی موجود ہیں۔
لاہوراورکراچی کے حوالے سے وضاحت: ثمینہ راجہ لکھتی ہیں
’’یہ تو آپ نے عجیب بات لکھی ہے کہ آپ لوگ یعنی ضلع رحیم یار خان کے لال بجھکڑاگر مل جائیں تو لاہور،کراچی پر بھاری پڑ سکتے ہیں،حیدرقریشی صاحب بھی یہی بات کہتے ہیں مگر میں متفق نہیں ہو سکتی۔‘‘(ص۲۲۲)
میری طرف سے لاہور اور کراچی پر بھاری پڑنے والی بات غلط ہے۔یہ انیس شاہ جیلانی صاحب کا خیال ہو سکتا ہے۔میرا موقف یہ رہا ہے کہ بڑے شہروں کے ساتھ چھوٹے شہروں کے ادیبوں کو بھی توجہ اور اہمیت دی جانی چاہئے۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔یہی بات ذہن پر نقش ہے۔ثبوت بھی پیش ہے۔
٭٭٭’’سوال نمبر4: رسالے کامختصرتاریخی پس منظراورمحرکات؟
جواب:میں خان پور ضلع رحیم یار خاں میں رہتا تھا۔تب ادبی رسائل بڑے شہروں سے نکلا کرتے تھے۔ لاہور کے اہلِ ادب چھوٹے شہروں کے ٹیلنٹ کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار نہ تھے۔سو چھوٹے شہروں کی طرف سے ادب کے مرکزی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کتابی سلسلہ کی صورت میں جدید ادب کا اجرا کیا۔‘‘
(سعید الرحمن کے تحقیقی سوالنامہ کے جواب۔۲۹جون ۲۰۱۲ء۔مشمولہ کتاب’’انٹر ویوز‘‘ مرتب سعید شباب۔انٹرنیٹ ایڈیشنص ۲۰۹)
یہی موقف بعد میں ایک اور ہی احساس میں بدل گیا۔ڈاکٹر نذرخلیق کے ساتھ انٹرنیٹ مکالمہ میں ان کے ایک سوال کے جواب میں ،میں نے یہ عرض کیا:
٭٭٭’’یہ بات تو میں جدید ادب کے نئے دور کے پہلے شمارہ کے اداریے میں واضح طور پر لکھ چکا ہوں کہ جدید ادب کا اجراء میری ادبی سرگرمی کا حصہ ہے اور ادب میرے نزدیک خود زندگی کی ایک اہم اور با معنی سرگرمی ہے۔اس لئے یہ کوئی ادبی خدمت نہیں ہے۔رسالہ نکال کر ادب کی خدمت کرنے والے پہلے ہی بہت ہیں۔میں کوئی ادبی خدمت نہیں کر رہا بس اپنی زندگی اور ادبی زندگی بسر کر رہا ہوں۔(’’انٹر نیٹ کے ذریعے مکالمہ ڈاکٹر نذر خلیق۔سہ ماہی توازن،مالے گاؤں،شمارہ:۴۰۔۔۔۔حریمِ ادب،بورے والا۔کتاب نمبر ۲)
پروین شاکر کا ذکر: ثمینہ راجہ ایک خط میں لکھتی ہیں۔
’’جدیدادب‘‘ نے میری شاعری پر کچھ خاص نہیں لکھا۔حیدرقریشی ایک مضمون لکھ رہے تھے مجھ ناچیز پر،مکمل کر لیا تو مجھے بھی دکھایا،میری تعریف کم تھی پروین شاکر کی مذمت زیادہ۔حیرت ہے پروین نے بڑے بڑوں کو چکرادیا ہے۔مجھے بعض اوقات تو بڑا لطف آتا ہے کوئی صاحب اسے آفتاب بنانے پر تلے ہوئے ہیں کوئی ذرہ بھی نہیں سمجھتے۔میں نے حیدرقریشی سے کہا کہ ’’اگر وہ مجھ پر مضمون لکھنا چاہتے ہیں توپروین شاکر کی مذمت مت کریں،ورنہ براہِ کرم مضمون لکھنے کا ارادہ ترک فرمادیں۔‘‘
اس سلسلہ میں واضح کردوں کہ ثمینہ راجہ کی شاعری کے بعض حصوں میں جنسی جذبوں کا اظہار بہت شدید تھا۔ایک نظم کا عنوان تھا’’حریمِ جاں میں وائلن‘‘۔اب ذرا تصور کریں کہ جنوبی پنجاب کا آخری کونہ،جہاں کی اپنی اخلاقیات اور اپنی تہذیب ہے۔پھرلڑکی غیر شادی شدہ ،(۱۹۶۱ء کی پیدائش کے حساب سے ۱۹۷۹ء میں۱۹ سال کی عمر ہے)،اورایسے حالات میں جنسی جذبات کابے محابااظہار۔میں نے اپنی سی کوشش کی تھی کہ ثمینہ کی شاعری پر اس طرح سے لکھا جائے کہ وہ اپنی فکری تطہیر کی طرف مائل ہو جائیں۔’’کرنیں‘‘میں ثمینہ راجہ کے تعارف میں بھی میں نے یہ کاوش کی تھی،ایک اقتباس دیکھ لیں:
٭٭٭’’اس کے اندر یقیناََ بغاوت کے جذبات ملتے ہیں لیکن اس نے ان جذبات کو بھی مشرقیت کے حصار سے باہر نہیں نکلنے دیا۔بغاوت اور مشرقیت کے تصادم سے ثمینہ نے مشرقیت کی فتح کا اعلان بھی کیا ہے اور اپنی تخلیقیت کو بھی جاوداں بنا لیا ہے۔ ‘‘(’’کرنیں‘‘ ص ۷۳)
یہ سب لکھنے سے میرا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح وہ شعوری طور پر بغاوت سے باز آنا شروع کردیں اور اپنی معاشرتی تہذیب کے ساتھ شاعری میں آگے بڑھ سکیں۔یہ چھوٹا سا ثبوت اس بات کا ہے کہ میری تحریر کی نیت اور مقصد واضح ہو جائے کہ میں نے باتوں باتوں میں ان کی باغیانہ سوچ کی تطہیرکرنے کی کاوش کی۔
جب ثمینہ راجہ اسلام آباد چلی گئیں ،زمان ملک کے ساتھ شادی ہو گئی،تب ان کی ایک اچھی نظم ’’اوراق‘‘میں شائع ہوئی تھی اور اس پر پسندیدگی کا اظہارکرتے ہوئے میں نے اس مفہوم کی رائے لکھی تھی۔’’جذبات کی تطہیر کے بعد اعتدال کی طرف مراجعت خوش آئند ہے،ثمینہ راجہ کے لیے بھی اور اردو شاعری کے لیے بھی۔‘‘ادبی جریدہ ’’اوراق‘‘کے اس زمانے کی فائل کے دو شماروں میں وہ نظم اور میرا خط آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔م