(Last Updated On: )
تحریر: گی دے موپاساں (فرانس )
مترجم: شوکت نواز خان نیازی (راولپنڈی، پاکستان)
* * * *
وہ ان حسین و جمیل اور نفیس لڑکیوں میں سے تھی جو شاید قدرت کی غلطی سے کسی نچلے طبقے کے ملازمت پیشہ گھرانے میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس کے پاس نہ تو جہیز تھا اور نہ ہی کوئی ایسے اسباب جن کی بنا پر وہ جانی جاتی، سمجھی جاتی، اور کسی معروف امیر زادے سے بیاہی جاتی۔ اس لئے اس کی شادی خاموشی سے محکمہء تعلیم میں ملازم ایک کلرک سے کردی گئی۔
اپنے مالی حالات کی بنا پر وہ ہمیشہ سادہ ہی دکھائی دیتی تھی۔ لیکن اس کو اپنی کم مائیگی کا احساس گھن کی طرح چاٹے جاتا تھا۔ لڑکیوں کا کوئی خاندان کوئی قبیلہ نہیں ہوتا۔ ان کا حُسن ان کی چال ڈھال اور ان کے نازو انداز ہی ان کا نام و نسب ہوتا ہے۔ ان کی پیدائشی نفاست، فطری شائستگی اور سمجھ بوجھ ہی ان کا رتبہ و منصب ہوتا ہے۔ انہی خوبیوں کی بنا پر ہی غریب لڑکیاں بھی کبھی کبھار امراء اور شرفاء کی خواتین جیسی دکھائی دیتی ہیں۔
لیکن وہ اپنی محرومیاں اندر ہی اندر جھیلتی رہی۔ اسے احساس تھا کہ وہ آرام و آسائش سے بھرپور زندگی کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ اسے اپنا فرسودہ گھر، ننگی دیواریں، پرانی کرسیاں اور سالہا سال پرانے پردے چبھتے تھے۔ یہ ساری چیزیں، جو اس کے سماجی طبقے کی کسی اور عورت کے خواب و گمان میں بھی نہ آتیں، اس کا منہ چڑاتی، تحقیر اور تذلیل کرتی محسوس ہوتی تھیں۔ اپنے گھر میں کام کاج کرنے والی ‘بریتون’ کی رہائشی لڑکی پر جب بھی اس کی نظر پڑتی تو اس کے دل میں غربت اور ذلّت کا احساس اور بھی شدت سے پھنکارنے لگتا۔ پھر وہ خوابوں کی دنیا میں کھو جاتی۔ جہاں دبیز قالینوں اور مدھم روشنیوں والے کمرے تھے۔۔ کھڑکیوں کے سامنے مخملیں پردے تھے۔۔۔۔ جہاں بلبوں کے نیچے بھاری پیتل کے لمپ تھے۔۔۔ صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے دو ملازم تھے جو آتشدان کی گرمی میں اونگھتے دکھائی دیتے۔ وہ مخمل و کمخواب سے آراستہ استقبالیہ کمروں کے بارے میں سوچتی۔ جہاں کونوں کھدروں میں بھاری بھرکم فرنیچر پر قیمتی نوادرات سجے ہوتے ۔۔۔۔ اور خوشبوؤں سے معطّر اندرونی کمرے ہوتے جہاں دھیمی آواز میں وہ اپنے قریبی دوستوں سے باتیں کیا کرتی۔۔۔۔ خوبصورت اور نوجوان دوست جن کی صحبت اور قربت کی خواہش مند سارے شہر کی خواتین ہوا کرتیں۔
جب وہ رات کے کھانے پر اپنے شوہر کے سامنے بیٹھتی، میز پر تین دن پرانا دسترخوان بچھا ہوتا اور اس کا شوہر رکاب کا ڈھکن اٹھاتے ہوئے خوش مزاجی سے کہتا، “آہ! سبزی گوشت! بھئی یہ تو دنیا کی سب سے لذیذ چیز ہے۔” تو وہ اپنے خوابوں کی دنیا میں کھوجاتی، وسیع و عریض کھانے کے کمروں میں۔۔۔۔ جہاں چاندنی کے چمکدار چھری کانٹے ہوتے ۔۔۔ جہاں دیواروں پر بڑی بڑی تصاویر آویزاں ہوتیں، جن میں پرانے زمانے کے بادشاہوں اور طلسماتی دنیاؤں کے مناظر دکھائی دیتے تھے۔ آنکھوں کو خیرہ کردینے والے چینی اور بلّوری برتنوں میں پیش کئے گئے پر اشتہا کھانے ہوتے اور جہاں مہمان ایکدوسرے سے خوش گپیاں کرتے اور ساتھ ساتھ تازہ مچھلی اور شکار کیے گئے پرندوں سے لطف اندوز ہوتے۔
اس کے پاس کوئی قیمتی لباس نہ تھا اور نہ ہی کوئی زیورات۔ اسے صرف اسی کا دُکھ تھا۔ وہ تو شاید پیدا ہی انہی چیزوں کے لئے ہوئی تھی۔ اس کا دل چاہتا کہ اسے بھی لوگ چاہیں۔۔۔ اس کی نظرِ التفات کے منتظر رہیں۔۔۔ اس کے خواب دیکھیں۔۔۔۔ اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے بیتاب رہیں۔
اس کی ایک امیر دوست تھی جو سکول میں اس کی ہم جماعت تھی۔ لیکن اپنی اس دوست کو ملنے کے بعد وہ اپنے حالات پر اتنا کڑھتی تھی کہ اب اس نے اس دوست کو ملنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اپنے کمرے میں وہ کبھی کبھار سارا دن روتی رہتی۔۔۔ اپنی بے بسی پر۔۔۔۔ اپنی ناامیدی پر۔۔۔ اپنی مایوسی پر اور اپنی مفلسی پر۔ پھر ایک شام اس کا شوہر جب دفتر سے لوٹا تو اس کے چہرے پر ایک چمک اور ہاتھ میں ایک بڑا لفافہ تھا۔
” دیکھو تو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں؟”
اس نے بڑے اشتیاق سے وہ لفافہ کھولا۔۔ اندر سے ایک کارڈ نکلا جس پر مندرجہ ذیل تحریر درج تھی، “جناب وزیرِ تعلیم اور مادام جارج رامپونو اور مادام لوازیل کو سوموار 18 جنوری کو وزارتِ تعلیم کے دفتر میں ایک عشائیے پر مدعو کرتے ہیں۔”
اس کا شوہر جانتا تھا کہ وہ اس دعوت نامے کو پاکر بہت خوش ہوگی لیکن اس نے کارڈ انتہائی لاتعلقی سے میز پر پھینک دیا۔ اور دھیرے سے بولی، “تو پھر؟ میں اس کا کیا کروں؟”
“مگر۔۔۔ ؟؟ میری جان! میں تو سمجھا تھا کہ تم خوش ہوگی؟ تم ویسے تو کبھی باہر نہیں جاتی۔ یہ تو ایک بہترین موقع ہے۔ اور یہ دعوت نامہ میں نے بڑی مشکل سے حاصل کیا ہے۔ ہر شخص اس دعوت میں مدعو کئے جانے کے لئے بیتاب ہے۔ بڑے لوگ اس کے متلاشی ہیں اور وزارت کے صرف چند ہی ملازمین کو دیا گیا ہے۔ تم دیکھنا! وہاں تمام بڑے بڑے افسران آئے ہوں گے۔”
وہ بیزاری سے اس کو دیکھتی رہی اور پھر درشتی سے بولی، “اور اس دعوت پر میں پہن کر کیا جاؤں گی؟”
اس کے شوہر نے اس کے بارے میں تو سوچا ہی نہ تھا۔ وہ ہکلاتے ہوئے بولا، “وہ ۔۔۔ وہ ۔۔ لباس جو تم تھیٹر جاتے ہوئے پہنتی ہو وہ میرے خیال میں تو بالکل مناسب ہوگا یا پھر۔۔۔ “
وہ خاموش ہوگیا۔ حیرت سے اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ اس کی بیوی کی جھکی ہوئی پلکوں سے دو موٹے موٹے آنسو اس کے گالوں پر گرے اور دھیرے دھیرے اس کی ٹھوڑی کی جانب بہنے لگے۔ وہ رو رہی تھی۔
وہ بمشکل تمام یہی کہہ پایا، “ک۔۔ ک۔۔۔ کیا ہوا؟ کیا ہوا؟”
لیکن اس کی بیوی نے یکایک خود پر قابو پالیا اور اپنے گالوں سے آنسو پونچھتے ہوئے انتہائی پر سکون اور سپاٹ آواز میں بولی، “کچھ نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ میرے پاس کپڑے نہیں ہیں اس لیے میں دعوت میں نہیں جاسکتی۔ یہ کارڈ اپنے کسی دوست کو دے ڈالو جس کی بیوی کے پاس مجھ سے بہتر کپڑے ہوں۔”
اس کے شوہر کا دل کرچی کرچی ہوگیا۔ وہ بولا، “اچھا! مانیلدہ! بتاؤ ایک مناسب لباس جو تم بعد میں دوسرے مواقع پر بھی پہن سکو، کتنے میں آئے گا؟”
اس نے دل ہی دل میں حساب لگایا کہ اپنے شوہر سے کتنی رقم کا تقاضا کرے۔ اسے یہ بھی خدشہ تھا کہ کہیں اس کا کفایت پسند شوہر صاف انکار ہی نہ کردے یا پھر کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہوجائے۔ پھر وہ ہچکچاتے ہوئے بولی، “مجھے صحیح اندازہ تو نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ چارسو فرانک میں اچھا لباس تیار ہوسکتا ہے۔”
اس کے شوہر کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرا گیا۔ اس نے کچھ عرصے سے شکار کے لئے نئی بندوق خریدنے اور آئندہ گرمیوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ اُلوؤں کا شکار کھیلنے ‘ناتیر’ جانے کا لئے چار سو فرانک ہی بچا رکھے تھے۔
وہ بولا، “ٹھیک ہے میں تمہیں چار سو فرانک دیتا ہوں۔ تم اپنے لئے ایک عمدہ لباس تیار کرالو۔”
دعوت کا دن قریب آچکا تھا۔ لیکن مسز لوازیل افسردہ، پریشان اور فکرمند دکھائی دے رہی تھی۔ حالانکہ اس کا لباس تیار ہو چکا تھا۔ ایک شام اس کے شوہر نے پوچھ ہی لیا، “کیا بات ہے؟ تم پچھلے تین دن سے کچھ پریشان سی دکھائی دیتی ہو؟”
وہ بولی، “میں اس وجہ سے پریشان ہوں کہ میرے پاس کوئی زیور نہیں ہے۔ پہننے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ زیورات کے بغیر تو اس دعوت پر جانا بہت عجیب لگے گا۔ اس سےتو نہ جانا ہی بہتر ہوگا۔”
وہ بولا، “تو پھولوں کے گجرے پہن لینا۔ اس موسم میں تو بہت نفیس دکھائی دیتے ہیں۔ پانچ دس فرانک میں تمہیں دو تین بہترین گلاب کے گجرے مل جائیں گے۔”
لیکن اس کی بیوی نہ مانی، “نہیں۔ اس سے زیادہ بے عزتی کی اور کوئ بات نہیں ہوسکتی کہ اتنی امیر کبیر عورتوں کے درمیان میں غریبوں کی طرح دکھائی دوں۔”
اس کا شوہر اچانک بول اٹھا، “ارے تم کیسی بے وقوف ہو! اپنی دوست مسز فوریستیئے کے پاس جاؤ اور ایک شام کے لئے اس سے کچھ زیورات ادھار مانگ لو۔ وہ تمہاری بہت پرانی دوست ہے۔۔۔ اتنا تو ضرور کرسکتی ہے۔”
اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ “ارے ہاں۔۔ یہ ٹھیک ہے۔ میں نے اس کے بارے میں تو سوچا ہی نہ تھا۔”
وہ دوسرے ہی دن اپنی دوست کے گھر جا پہنچی اور اس کو اپنی مشکل بیان کر ڈالی۔
مسز فوریستیئے اٹھی اپنی الماری کی جانب گئی اس میں سے ایک بکس نکال کر اس کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ ڈھکن اٹھا کہ مسز لوازیل سے بولی، “جو پسند آئے چن لو۔”
پہلے وہ ایک کنگن دیکھتی رہی پھر موتیوں کا ایک نیکلیس اور پھر صلیب کی شکل کا ایک ہار جس میں قیمتی پتھر جڑے تھے۔ ایک ایک کرکے وہ زیورات پہن کر آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی۔ لیکن جو زیور اس کو پسند نہ بھی آتا اس کو اتارنا اور واپس بکس میں رکھنا اس کے لئے مشکل ہوجاتا۔ پھر اس نے پوچھا، “اور کچھ نہیں ہے؟”
پھر اچانک اس کی نظر سیاہ سائن کا ایک بکس دکھائی دی جس میں ہیروں کا ایک سیٹ جھلملا رہا تھا۔ اس سیٹ پر نظر پڑتے ہی اس کےدل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ اس کو تھیلی سے نکالتے ہوئے اس کی انگلیاں لرزنے لگیں۔ نیکلیس پہن کر وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی تو اس کی آنکھیں خود کو پہچان نہ سکیں۔ دھڑکتے دل کے ساتھ وہ مڑی اور پر امید لہچے میں پوچھا، “کیا میں یہ لے سکتی ہوں۔۔۔ صرف یہی؟”
“ہاں۔ کیوں نہیں!”
اس نے لپک کر اپنی بانہیں اپنی دوست کے گلے میں ڈال دیں اور اس کو چوم لیا۔ نیکلیس لے کر گھر واپس آتے ہوئے اس کےقدم زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔
دعوت کا دن آن پہنچا۔ مسز لوازیل سب لوگوں کی نگاہوں کا مرکز تھی۔ وہ خواتین میں سب سے حسین ترین دکھائی دے رہی تھی۔ ہنستی، مسکراتی، کھلکھلاتی ہوتی اس کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی تھی۔ سب مرد مڑ مڑ کر اس کو دیکھتے رہے۔ ۔ اس کا نام پوچھتے رہے۔۔۔ اس ہمکلام ہونے کی کوشش کرتے رہے۔ وزرات کے سبھی اعلٰی افسران اس کے ساتھ ڈانس کرنا چاہتے تھے۔ وزیرِ تعلیم نے بھی اس کے بارے میں دریافت کیا۔
وہ وارفتگی کے عالم میں ناچتی رہی۔ وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوچکی تھی۔ اسے احساس تھا کہ آج اس کا حسن سب پر بازی لے گیا ہے۔ آج اس کی جیت کا دن تھا۔ اسے یوں لگا کہ جیسے وہ بادلوں پر تیر رہی ہے۔ مردوں کی باتیں۔ عورتوں کی ستائشی نگاہیں۔۔ تعریفی کلمات۔۔۔ یہی وہ چیزیں تھیں جن سے کسی بھی عورت کی مکمل کامیابی کا احساس کیا جاسکتا ہے۔
صبح چار بجے وہ دعوت سے روانہ ہوئے۔ اس کا شوہر تو بارہ بجے رات سے ہی ایک چھوٹے کمرے میں تین اور مردوں کے ساتھ سویا ہوا تھا جن کی بیویاں بھی دعوت سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ وزارت کی عمارت سے باہر نکلتے ہوئے اس کے شوہر نے اس کا کوٹ کندھوں پر اوڑھ دیا۔ یہ کوٹ پرانا اور بوسیدہ تھا اور دعوت کے لئے بنائے گئے نئے لباس پر یوں دکھائی دیتا تھا جیسے کسی نے ریشم پر ٹاٹ رکھ دیا ہو۔ اسے اس بات کا احساس تھا اس لئے وہ کندھے جھٹک کر آگے بڑھ گئی تاکہ اور عورتیں اس کو نہ دیکھ پائیں جن کے کندھے مخملیں پشم دار شالوں اور کوٹوں میں لپٹے ہوئے تھے۔ لوازیل نے اس کو روکنے کی کوشش کی، “ارے ٹھہرو تو سہی! تمہیں ٹھنڈ لگ جائے گی۔ میں ابھی کوئی بگھی تلاش کرتا ہوں۔” لیکن وہ اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے تیز قدموں سے سیڑھیاں اترتی گئ۔ سڑکیں ویران پڑی تھیں۔ کبھی کبھار انہیں کوئی بگھی دکھائی دیتی تو وہ اس کو بلانے کے لئے آوازیں دیتے لیکن بے سود۔ سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے وہ دریائے سین کے کنارے تک آن پہنچے۔ وہاں بالآخر انہیں ایک تانگہ مل ہی گیا۔ ایسا تانگہ کبھی دن کے وقت دکھائی نہیں دیا تھا شاید وہ بھی دن کے وقت پیرس میں دکھائی دینے پر نادم ہو۔
اس تانگے میں وہ رُؤد مارتیر پر واقع اپنے گھر آن پہنچے۔ دونوں خاموشی سے گھر میں داخل ہوئے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آج کی دعوت کے بعد اس کی زندگی میں کیا رہ گیا ہے۔ اس کا شوہر سوچ رہا تھا کہ چند گھنٹوں بعد اس کو دفتر پہنچنا ہوگا۔
اس نے اپنا اوور کوٹ اتار پھینکا اور آئینے کے سامنے آخری بار خود کو دیکھنے کھڑی ہوئی۔ یکایک اس کی چیخ نکل گئی۔ اس کی گردن کے گرد ہیروں کا سیٹ موجود نہیں تھا۔
اس کا شوہر جو کپڑے اتار رہا تھا، مڑا اور پوچھا، “کیا ہوا؟”
وہ اپنے شوہر کی جانب مڑی تو اس کا رنگ فق ہوچکا تھا۔ “وہ ۔۔۔ وہ۔۔۔۔ مسزفوریستیئے کا ہیروں کا ہار نہیں ہے۔”
وہ سیدھا کھڑا ہوگیا، “کیا؟ ۔۔۔ کیسے؟ ۔۔۔۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟”
انہوں نے اس کے نئے لباس میں تلاش کیا۔ اوور کوٹ کی جیبوں میں ڈھونڈا۔ ہر جگہ دیکھا لیکن سیٹ نہیں ملا۔
اس کا شوہر بولا، “کیا تمہیں پورا پورا یقین ہے کہ دعوت سے نکلتے ہوئے وہ تمہارے پاس ہی تھا؟”
“ہاں ۔ ہاں۔ میں نے عمارت سے باہر نکلنے سے پہلے چھو کر دیکھا تھا۔”
“لیکن اگر وہ سڑک پر گرتا تو ہمیں آواز تو سنائی دیتی ۔ یہ ضرور بگھی میں ہی گرا ہوگا۔”
“ہاں۔ ہوسکتا ہے۔ تم نے نمبر نوٹ کیا تھا؟”
“نہیں۔ تم نے بھی نہیں دیکھا؟”
“نہیں۔”
وہ دونوں ششدر نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر لوازیل نے دوبارہ کپڑے پہننا شروع کردیئے۔
“ہم جس راستے سے آئے ہیں میں اس راستے پر دوبارہ جاتا ہوں شائد کہیں پڑا مل جائے۔” یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
وہ اپنے نئے لباس میں ملبوس ایک کرسی میں بیٹھی رہی۔ اس میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ وہ سو ہی جاتی۔ بغیر سوچے سمجھے وہ تاریک اور ٹھنڈے آتشدان کو تکتی رہی۔
اس کا شوہر صبح سات بجے واپس آیا ۔وہ خالی ہاتھ تھا۔
پھر وہ پولیس میں رپورٹ درج کرانے گیا۔ ڈھونڈنے والے کو انعام دینے کا اعلان کرانے کے لئے اخبار کے دفتر گیا۔ بگھیوں والی کمپنی کے دفتر گیا۔ ۔۔۔ ہر اس جگہ گیا جہاں سے امید کی کوئی موہوم سی ٹمٹماتی ہوئی لَو دکھائی دیتی تھی۔ اور وہ اسی حالت میں اسی کرسی میں سارا دن بیٹھی رہی۔ سارا دن اس کی نگاہیں دروازے پر جمی رہیں۔
شام کے وقت لوازیل واپس لوٹا تو اس کے کندھے جھکے ہوئے اور چہرے کا رنگ پیلا پڑا تھا۔ اسے کچھ نہیں ملا تھا۔
“اپنی دوست کو خط لکھو اسے کہو کہ سیٹ کا کنڈا ٹوٹ گیا ہے اور تم نے مرمت کے لئے سنار کو دیا ہے۔ اس سے ہمیں کچھ وقت مل جائے گا۔”
ایک ہفتے کے بعد وہ امید کھو بیٹھے تھے۔ اس ایک ہفتے میں یوں دکھائی دیتا تھا کہ لوازیل پانچ سال مزید بوڑھا ہوچکا ہو۔ پھر وہ بولا۔ “اب ہمیں نیا سیٹ بنوانے کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔”
دوسرے روز وہ دونوں وہ بکس لے کر اس جوہری کے پاس گئے جس کا نام اس بکس پر کندہ تھا۔ اس نے اپنے کھاتے دیکھے اور بولا، “مادام، یہ سیٹ تو میں نے نہیں بنایا۔ البتہ بکس ہماری دکان ہی کا ہے۔” پھر وہ ایک کے بعد دوسرے جوہری کے پاس گئے۔ ہر دکان پر اس جیسا سیٹ تلاش کرتے۔ ہر سیٹ کو دیکھ کر اپنی یاداشت پر زور دیتے۔ پھر پالے روئیال کے قریب ایک عالیشان دکان میں انہیں ایک ایسا ہیروں کا سیٹ دکھائی دیا جو ان دونوں کے اندازے کے مطابق عین اس سیٹ جیسا تھا جو وہ تلاش کررہے تھے۔ اس کی قیمت چالیس ہزار فرانک تھی۔ اگر وہ خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو جوہری ان کو چھتیس ہزار فرانک میں دینے پر تیار تھا۔ انہوں نے جوہری سے درخواست کی کہ وہ تین دن تک اس سیٹ کو فروخت نہ کرے۔ جوہری اس شرط پر بھی تیار ہوگیا کہ اگر فروری تک پہلا سیٹ مل گیا تو وہ اپنا سیٹ چونتیس ہزار فرانک میں واپس خرید لے گا۔
لوازیل کے پاس اپنے باپ کے چھوڑے ہوئے اٹھارہ ہزار فرانک موجود تھے۔ باقی رقم اس نے ادھار لی۔ اس ہر جگہ سے ادھار اٹھایا۔ ۔۔۔ ہزار فرانک ادھر سے پانچ سو فرانک اُدھر سے ۔۔۔۔ کچھ اس سے کچھ اُس سے۔۔۔ شہر کے سارے سود خوروں سے ادھار اٹھایا۔ اپنا ہر مال و اسباب گروی رکھ دیا۔ اپنی ساری ہستی ہی گروی رکھ دی۔ ہر اس کاغذ پر دستخط کر ڈالے جس سے اس کو کچھ رقم ادھار مل سکتی تھی یہ جانے بغیر کہ وہ یہ ادھار ادا بھی کرسکے گا یا نہیں۔ پھر ایک روز اپنے تاریک مستقبل کے وسوسوں اور آنے والی محرومیوں کے بوچھ تلے دبے بھاری قدموں سے چلتے ہوئے جوہری کے کونٹر پر چھتیس ہزار فرانک رکھ کر لوازیل نیا ہیروں کا سیٹ خرید لایا۔
جب مسز لوازیل ہیروں کا سیٹ مسز فوریستئیے کو لوٹانے گئی تو اس نے سرد مہری اور بے اعتنائی سے صرف اتنا کہا، “تمہیں یہ بہت پہلے لوٹا دینا چاہیئے تھا۔ مجھے اس کی ضرورت پڑسکتی تھی۔” لیکن اس نے بکس کھول کر بھی نہ دیکھا۔ مسز لوازیل نے سکھ کا سانس لیا۔ اگر اسے شک ہوجاتا کہ سیٹ تبدیل کیا گیا ہے؟ وہ کیا سوچتی؟ کیا کہتی؟ کیا اس کو چور نہ سمجھتی؟
اس دن کے بعد مسز لوازیل کو اندازہ ہوا کہ درحقیقت غریب کیسی زندگی گزارتے ہیں۔ اس نے انتہائی بہادری سے حالات کا سامنا کیا۔ آخر اس ساری صورتحال کی ذمہ داری وہی تو تھی۔ یہ پہاڑ جیسا ادھار بھی تو اتارنا تھا۔ اس سے جو کچھ بھی ہوسکا وہ ضرور کرے گی۔ اپنے حصے کی صلیب اٹھائے گی۔ سب سے پہلے خادمہ کو فارغ کیا گیا۔ برا فلیٹ چھوڑ دیا گیا اور ایک کمرے والا ایک سستا سا گھر کرائے پر لیا گیا۔
گھر کے۔۔۔۔ باورچی خانے کے۔۔۔ سب چھوٹے بڑے کام وہ اپنے ہاتھ سے کرنے لگی۔۔۔ برتن تک خود دھونے لگی۔ اس کی نرم و نازک مخروطی انگلیاں برتنوں سے چکنائی اور دیگچیوں سے کالک اتارتے اتارتے کھردری ہوگئیں۔ ہاتھوں سے کپڑے دھوتی رہی اور انہیں سوکھنے کے لئے تار پر لٹکاتی رہی۔ ہر روز صبح وہ کچرا اٹھائے گلی تک جاتی اور پانی کی بالٹیاں بھر کر اوپر لاتی۔ ہر منزل پر رک کر سانس لیتی۔ ملازماؤں جیسے کپڑے پہنے ہوئے وہ بازار سودا سلف لینے جاتی۔ بغل میں ٹوکری دابے، سبزی فروش، قصائی اور پنساری، سب کے پاس جاتی اور ایک ایک پیسے کیلئے گھنٹوں بھاؤ تاؤ کرتی۔
ہر ماہ قرض کی اقساط ادا کرنا تھیں۔ کچھ کو ادائیگی کی جاتی، کچھ سے مزید مہلت مانگی جاتی۔ اس کا شوہر، سرکاری نوکری کے بعد شام کو ایک دکاندار کے کھاتے لکھتا۔ اور آدھی رات تک آدھ فرانک فی صفحہ کے حساب سے وثیقے لکھا کرتا۔
زندگی کے دس سال ایسے ہی بیت گئے۔
اور ان دس سالوں میں انہوں نے قرض کی ایک ایک پائی چکا دی۔ اصل زر، سود، سود در سود، ایک ایک فرانک واپس کردیا۔
مسز لوازیل اب ایک ادھیڑ عمر خاتون دکھائی دیتی تھی۔ سب غریب عورتوں کی طرح اب وہ ہٹی کٹی، سخت جان اور تلخ زبان ہوچکی تھی۔ ملگجے بال، بوسیدہ کپڑے اور سخت کھردرے ہاتھوں کے ساتھ وہ سرِ عام کپڑے دھوتی اور اونچی کرخت آواز میں دوسری عورتوں سے باتیں کیا کرتی۔ لیکن کبھی کبھار جب اس کا شوہر دفتر ہوتا اور وہ گھر کے کاموں سے فارغ ہوتی تو کھڑکی کے پاس بیٹھ جاتی اور اُس ایک شام کے بارے میں سوچنے لگتی جب وہ اتنی حسین اور اتنی مقبول تھی۔
اگر وہ ہیروں کا سیٹ نہ کھوجاتا تو کیا ہوتا؟ کون جانے؟ کون جانے؟ زندگی بھی کتنی عجیب اور ناپائدار ہوتی ہے؟ ایک ہی لمحہ کیسے زندگی کو تباہ کرسکتا ہے اور ایک ہی لمحہ کیسے زندگی کو سنوار بھی سکتا ہے!
ہر اتوار کو وہ اپنے گھریلو کام کاج سے فارغ ہوکر ‘شانزے لیزے’ جاتی اور وہاں چند لمحوں کے لیے اپنے حالات بھول جانے کی کوشش کرتی۔ ایک اتوار اسے اچانک ایک عورت دکھائی دی جو اپنے بچے کے ساتھ چہل قدمی کررہی تھی۔ وہ مسز فوریستئے تھی! اتنی ہی جوان، اتنی ہی خوبصورت اور اتنی ہی دلفریب۔ مسز لوازیل تذبذب کا شکار ہوگئی۔ کیا اس کو جا کر ملنا چاہیئے؟ ہاں ۔۔۔ کیوں نہیں اب جب کہ وہ ساری ادائیگی کرچکے ہیں تو اس کو سب کچھ بتا دینے میں کیا حرج ہے۔۔۔۔ کیوں نہیں؟
وہ اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
“صبح بخیر ژان!”
وہ اس کو پہچان نہ پائی۔ اس کے چہرے پر کچھ ناگواری اور کچھ تحّیر کے تاثرات ابھرے ۔۔۔۔ یہ غریب عورت اس سے یوں بے تکلفی سے بات کررہی ہے؟ وہ کچھ گڑبڑاسی گئی۔ “لیکن ۔۔۔۔ خاتون! ۔۔۔۔ میں تو۔۔۔ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔؟
“نہیں ۔۔۔ میں مانیلدہ لوازیل ہوں۔”
اس کی دوست کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔
“اوہ! ۔۔۔۔ میری مانیلدہ! ۔۔۔ تم کتنی بدل گئی ہو!”
“ہاں ۔ جس دن ہم آخری مرتبہ ملے تھے اس کے بعد سے ہم نے بہت برے دن دیکھے ہیں اور بہت برے حالات اور ۔۔۔۔ اور یہ سب تمہاری ہی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔ “
“میری وجہ سے؟ لیکن کیسے؟”
“تمہیں یاد ہے میں نے وزیرِ تعلیم کی دعوت پر جانے کے لیے تم سے ہیروں کا ایک سیٹ پہننے کے لئے ادھار لیا تھا؟”
“ہاں۔ یاد ہے۔ تو پھر؟”
“وہ سیٹ مجھ سے کھوگیا تھا۔”
“کیا مطلب کھوگیا تھا؟ ۔۔۔۔ وہ تو تم نے مجھے لوٹا دیا تھا۔”
“لیکن میں نے تمہیں ایک اور اسی جیسا نیا سیٹ خرید کر لوٹایا تھا۔ اور اب دس سال ہوچکے ہیں ہم اس کی قیمت چکا رہے تھے۔ جانتی ہو یہ کوئی آسان بات نہیں تھی۔ ہمارے پاس تو پہلے ہی کچھ نہ تھا۔۔۔ بحرحال اب سب ختم ہوچکا اور میں بالکل خوش ہوں۔”
مسز فوریستیئے خاموشی سے اس کا چہرہ تکتی رہی۔
“کیا تم یہ کہہ رہی ہو کہ تم نے میرے ہیروں کے نیکلیس کی ہیروں کا ایک نیا نیکلیس خرید کر مجھے لوٹایا تھا؟”
“ہاں ۔ اور تمہیں معلوم ہی نہ ہوا تھا۔ ہے نا؟ دونوں بالکل ایک جیسے تھے۔”
پھر اس کے ہونٹوں پر ایک فخریہ اور مطمئن مسکراہٹ پھیل گئی۔
مسز فوریستیئے چہرے پر عجیب سے تاثرات لئے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی دوست کے دونوں ہاتھ تھام لئے۔
“اوہ مانیلدہ! میرا سیٹ تو نقلی تھا۔ اس کی قیمت تو صرف پانچ فرانک تھی۔۔۔۔۔!”
نوٹ: موپاساں کی اس مشہور کہانی پر فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں مختصر فلمیں بن چکی ہیں۔ جو youtube پر دیکھی جاسکتی ہیں۔
Orignal Title: La Parure
English Title: The necklace / The diamond necklace
Written by:
Guy de Maupassant (5 August 1850 – 6 July 1893) was a French writer, remembered as a master of the short story form, and as a representative of the naturalist school of writers, who depicted human lives and destinies and social forces in disillusioned and often pessimistic terms.