ابیے مارگنن کی نیک روح "خدا کے سپاہی" کے نام سے منسوب تھی ۔ وہ ایک قد آور، نحیف الجثہ پادری، عقائد میں متعصب مگر ایک بلند مرتبہ روح تھی۔ وہ اپنے تمام تر عقائد میں اتنا پختہ تھا کہ متزلزل ہونے کی ذرہ برابر گنجائش نہ تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ وہ خدا کی ذات میں اِس قدر مستغرق ہے کہ اُس کے نقوش، اُس کی خواہشات اور اُس کی ترجیحات کا حصہ بن چکا ہے۔
قصبے میں اپنے گھر کے باغ کی سیر میں لمبی لمبی فرلانگیں بھرتے ہوئے کبھی کبھی اس کے ذہن میں ایک سوال اُبھرتا: "خدا نے یہ سب کیوں بنایا؟" پھر تصور میں خود کو خدا کی جگہ پر رکھتے ہوئے بضد ہوجاتا اور خود کو مطمئین کر لیتا کہ اُسے وجہ مل گئی ہے۔ وہ عجز و انکساری میں بخل کرنے والا آدمی نہیں تھا۔ "اے خدا، تمہاری راہیں ماضی کو سمجھنے میں معاون ہیں!" جو کچھ اُس نے کہا وہ یہ تھا: " میں خدا کا خادم ہوں: میں متجسس ہوں کہ وہ کیا کرتا یا کیا الہامی ہوتا اگر میں نہ ہوتا"۔
اُس کے نزدیک فطرت کی ہر چیز کو خالص اور قابلِ فہم بنایا گیا تھا۔ "کیسے" اور "کیوں" جیسے سوالوں کو متوازن سطح پر رکھا گیا تھا۔ صبحِ سحر گاہی کو جاگتے ہی خوش ہونے کے لیے بنایا گیا، دنوں کو پکی ہوئی فصلیں کاٹنے کے لیے، بارشیں اِن فصلوں کو پانی دینے کے لیے، شام سونے کی تیاری کرنے کے لیے اور ظلمتِ شب سونے کے لیے بنائی گئی تھی۔
چار موسم زراعت کی ضروریات کے عین مطابق بنائے گئے اور اُس کے نزدیک شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ عالمِ رنگ و بو بغیر قصد کے ہے اور اس کی تمام تر موجودات خود بہ خود وجود کے پیکر میں ڈھل گئیں۔ اِس کے برعکس، مختلف ادوار کے سخت ترین حالات، موسمی تغیرات اور مادہ کے ماسوا۔
مگر اُسے عورتوں سے نفرت تھی؛ وہ اُن سے غیر شعوری طور پر نفرت کرتا اور فطرتاً ہی انھیں برا سمجھتا تھا۔ وہ ہمیشہ یسوع مسیح کے یہ الفاظ دہراتا، " عورت، مجھے تم سے کیا لینا دینا ہے؟" اور پھر وہ اضافہ کرتا، " ایسا کہا جاسکتا ہے کہ خدا خود بھی اپنے ہاتھوں کی اِس کاری گری سے ناخوش تھا۔" عورت اُس کے نزدیک "بارہ گنا نہ پاک بچے " کی مانند تھی جس کے بارے میں شاعر کہتا ہے۔ وہ دامِ محبت میں پھسنانے والی ہے جس نے پہلے آدمی کو جرم کا مرتکب کر دیا اور جس نے اب بھی اپنے ملامت انگیز کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کمزور، خطرناک اور بے حد پُر آشوب مخلوق تھی۔ اور اس کی زہر جیسی خوبصورتی سے کہیں زیادہ وہ اس کی محبت کرنے والی روح سے نفرت کرتا تھا۔
اُس نے ہمیشہ عورت کی نزاکت کو خود پر حملہ آور محسوس کیا تھا، اور اگرچہ اب وہ خود کو نہ قابلِ تسخیر سمجھتا تھا، پھر بھی ہمیشہ دلوں میں لرزش پیدا کر دینے والی محبت سے خفا رہتا۔
اُس کا خیال تھا کہ عورت کو بس مرد کی آزمائش اور اسے پرکھنے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ آدمی کو اپنے دفاع کے لیے احتیاطی تدابیر کیے بغیر عورت تک رسائی حاصل نہیں کرنی چاہیے اور وہ خوف جو وہ اپنے اندر پالتا ہے، گھات لگا کر حملہ کرنے کے لیے۔ درحقیقت عورت مرد کی طرف اپنے کھلے بازؤں اور نیم وا لبوں کے ساتھ ایک جال ہے۔
وہ بس راہِبہ خواتین کو ہی برداشت کرتا، جو کہ اپنے اقرار کی وجہ سے بالکل بے ضرور تھیں؛ اِس کے باوجود وہ اُن سے بڑی سختی سے پیش آتا، کیوں کہ، ہمیشہ اُن کے بے آرزو قلوب، اُن کے تذکیہ شدہ قلوب، کے لیے وہ ایک دائمی ملائمت محسوس کرتا جو مسلسل ابھر کر اس کے سامنے آتی حالاں کہ وہ ایک پادری تھا۔
اُس کی ایک بھانجی تھی جو اپنی ماں کے ساتھ پاس ہی میں رہتی تھی۔ وہ اُسے خیراتی ادارے کی راہِبہ بنانے کا آرزو مند تھا۔ وہ پیاری تھی اور عاقبت نا اندیش اور بہت زیادہ زچ کرنے والی۔ جب ایبے نصیت کرتا وہ ہنس دیتی؛ جب وہ اُس پر غصہ کرتا تو وہ اسے شدت سے چوم لیتی، اُسے جھنجھوڑتے ہوئے جب کہ وہ غیر ارادی طور پر خود کو اس کی بانہوں سے آزاد کروانے کی راہ ڈھونڈتا۔ تاہم، یہ احساس اُسے ایک ہلکا سا لطف مہیا کرتا، اُس کے اندر عمیق گہرائیوں میں جاگتا ہوا ایک باپ جو کہ ہر مرد کے اندر کہیں نہ کہیں اونگھ رہا ہوتا ہے۔
وہ اکثر کھیتوں کے درمیان سے راہگیروں کے لیے بنائی گئی پٹڑی پر اُس کے ساتھ چلتا ہوا اُس سے خدا کی باتیں کرتا، اپنے خدا کی۔ وہ بہ مشکل ہی متوجہ ہوتی مگر وہ اپنی آنکھوں میں زندگی کی رمق لیے ہوئے مسرت بھری نگاہوں سے آسمان، گھاس اور پھولوں کو دیکھتی۔ بعض اوقات کسی اڑتی ہوئی مخلوق کو پکڑنے کے لیے آگے کو دوڑتی اور پھر چِلاتے ہوئے اسے واپس لاتی۔ "دیکھیے، ماموں جان، یہ کتنی خوبصورت ہے؛ دل چاہتا ہے کہ میں اِسے چوم لوں"۔ اور جگنوؤں کو یا خوبصورت پھولوں کو یوں چومنا پادری کو پریشان، مشتعِل اور منحرف کردیتا جو کہ دیکھتا، حتٰی کہ یہاں پر بھی، عورتوں کے دل میں پھوٹتی ہوئی نا قابلِ استحصال نزاکت۔
ایک دن سیکرسٹانز کی بیوی، جو کہ ایبے مارگنن کے گھر کی دیکھ بھال کرتی تھی، بڑے محتاط انداز میں اُسے بتایا کہ اُس کی بھانجی کا کسی کے ساتھ معاشقہ ہے!
اُس نے خود کو آزاردہ جذبات میں ڈوبتا ہوا محسوس کیا اور شیو بناتے ہوئے چہرے پر صابن کے ساتھ حواس باختہ اٹھا۔
جب اُس نے خود کو ہوش میں محسوس کہ وہ بول اور سمجھ سکتا ہے تو ایک مرتبہ پھر چِلّایا: " یہ سچ نہیں ہے؛ تم جھوٹ بکتی ہوئی میلنی!"
مگر اُس کسان عورت نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا " ہمارا خدا میری سخت پکڑ کرے اگر میں جھوٹ بول رہی ہوں، جناب پادری۔ میں آپ کو بتاتی ہوں وہ ہر روز شام جب آپ کی بہن سو جاتی ہے اُس سے ملنے جاتی ہے۔ وہ دونوں دریا کے پیچھے ملتے ہیں۔ آپ دس سے آدھی رات کے درمیان وہاں جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجیے گا۔"
اُس نے اپنی ٹھوڑی کو کھرچنا بند کیا اور جلدی سے کمرے کی بہ جانب رواں دواں ہوا۔ جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے مغموم ترین خیالات میں ڈوبے ہوئے گھنٹوں میں کرتا۔ جب اُس نے دوبارہ اپنی داڑھی بنانا شروع کی، تین مرتبہ اُس نے ناک سے کان تک خود کو زخمی کر لیا۔ وہ سارا دن خاموش رہا، طیش اور غصے سے بھرا ہوا۔ محبت کے برخلاف اُس کے روحانی جوش کے ساتھ ساتھ اب ایک باپ، ایک استاد، ایک روحانی پیشوا کی اخلاقی خفگی بھی شامل ہوگئی تھی، جسے دھوکا دیا گیا تھا، چوری کی گئی تھی اور جس کے جذبات کے ساتھ ایک بچے نے کھیلا تھا۔ اس نے مغرورانہ دکھ محسوس کیا جیسا کہ والدین کرتے ہیں جب اُن کی بیٹی انھیں بتائے کہ اُس نے اُن کے اور اُن کے مشورے کے بغیر شوہر کا انتخاب کر لیا ہے۔
رات کے کھانے کے بعد اس نے پڑھنے کی کوشش کی مگر وہ خود کو مرکوز نہ رکھ سکا؛ اور مزید غصے اور مزید غصے سے بھرتا گیا۔ جب دس بجے، اُس نے اپنی لاٹھی اٹھائی؛ ایک خوفناک اوک کا بنا ہوا ڈنڈا، جسے وہ ہمیشہ اپنے پاس رکھتا جب کبھی اسے رات کے وقت کسی مریض کی تیمار داری کرنے کے لیے جانا پڑتا۔ ایک دیہاتی کی طرح چہرے پر مسکراہٹ سجائے پختگی سے مٹھی میں ایک دیو ہیکل ڈنڈا پکڑے اور اس سے ہوا میں تہدیدی دائرہ بناتے ہوئے۔ پھر اچانک اُس نے ڈنڈے کو اٹھایا اور اپنے دانتوں کو پیستے ہوئے اسے کرسی پر نیچے لے آیا۔ جس کا پچھلا حصہ دو ٹکڑوں میں ٹوٹ کر دھڑم سے نیچے آن پڑا۔
اُس نے باہر جانے کے لیے اپنا دروازہ کھولا؛ مگر وہ دہلیز پر رُک گیا. درخشاں چاندنی کو دیکھ کر حیران جو کبھی کبھار ہی نظر آتی ہے۔
اُس نے خود کو ایک ممتاز جذبے کے سپرد کیا ہوا تھا، ایسا جذبہ جو تخیل میں مستغرق شاعروں کا ہوتا ہے، چرچ میں موجود راہبوں کا ہوتا ہے، اچانک اُس نے اپنی طبیعت میں نرمی محسوس کی، جسے زرد چہرے پر موقوف رات نے بدل دیا تھا۔
اُس کا چھوٹا سا باغیچہ آنکھوں کو چوندھیا دینے والی روشنی سے نہایا ہوا تھا، اُس کے پھلوں کے درختوں کی قطاریں عکس میں چند قدموں تک واضح ہو رہی تھیں جن میں سے چند ایک درختوں کی لمبی ٹہنیاں سبزے سے مرصع تھیں؛ جب کہ ایک بڑا ہنی سکل دیوار پر چڑھتا ہوا، مزیدار اور مٹھاس سے بھری ہوئی سانسیں چھوڑ رہا تھا جو کہ گرم اور صاف رات میں نکہت بھری روح کی طرح گھوم رہی تھیں۔
وہ لمبی لمبی سانسیں بھرنے لگا، ہوا کو پینے لگا جیسے شرابی شراب کو پیتے ہیں اور آہستہ آہستہ، بالجبر اور حیرانی میں مبتلا چلنے لگا اور اپنی پانجھی کو تقریباً بھول چکا تھا۔
جیسے ہی وہ کھلے میدان میں پہنچا ساری ہموار زمین کو دیکھنے کے لیے رُک گیا، بازبردار چمک کے سیلاب میں گھیرا ہوا اور اُس پرسکون رات کی محبت بھری ، نازنیں کشش میں ڈوبتا ہوا۔ ہوا میں مینڈکوں کے سنگیت، سر، موہ لینے والی چاندنی کے ہمراہ بکھرے ہوئے تھے جس میں فاصلے پر موجود بلبلوں کی چنچل سی موسیقی ملی ہوئی تھی جو خیالات کو نہیں بلکہ خوابوں کو ابھار رہی تھی، ایک ہلکی سی اور اتار چڑھاؤ سے مرصع موسیقی جو ایسے لگتا کہ جیسے بوسہ لینے کے لیے ہی ترتیب دی گئی ہے۔
ایبے نے چلنا شروع کیا، اب اس کا حوصلہ ٹوٹ رہا تھا مگر وہ نہیں جانتا تھا کیوں۔ اب وہ خود کو کمزور محسوس کرنے لگا اور اچانک سے تھکا ہوا۔ وہ شدت سے چاہتا تھا کہ بیٹھ جائے، وہیں پر وقفہ لے اور خدا کی کاریگری پر اس کی تعریف بجا لائے۔
اُس کے نیچے، چھوٹے سے دریا کے خم آور کنارے کے ساتھ ساتھ پاپولر کے درختوں کی ایک لمبی قطار تھی۔ دریا کے دونوں کناروں پر، پیچیدہ آبی راستے کو روشنی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، شفاف لہریں جن پر گہری دھند معلق ہے، سفید رنگ کے بخارات جنہیں چیرتے ہوئے چاند کی روشنی چاندی جیسا رنگ دے رہی ہے اور ان کے چمکنے کا سبب بن رہی ہے۔
پادری دوبارہ رُک گیا، بڑھتے ہوئے اور شدت پکڑتے ہوئے جذبات کی وجہ سے اپنی روح میں اترتا ہوا۔ اور ایک تشکیک، ایک مبہم سی بے چینی، اُس پر مغصوب ہو رہی تھی۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ سوالات جو کبھی کبھار وہ خود سے کرتا تھا اب دوبارہ جنم لے رہے تھے۔
خدا نے ایسا کیوں کیا؟ حتٰی کے رات تو نیند سے منسوب ہے، بے خبری کے لیے، آرام کے لیے، ہر چیز کو بھول جانے کے لیے، پھر کیوں! اِسے دن سے زیادہ پُر کشش بنایا، صبح اور شام کی شفق سے زیادہ میٹھا۔ اور یہ سست رفتار، مائل کرنے والے ستارے، سورج سے زیادہ شاعرانہ اور اتنے نفیس کہ لگتا ہے جیسے چیزوں کو بہت نفاست سے روشن کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں، ڈھیر ساری روشنی سے کہیں زیادہ تجسس آمیز۔ یہ تمام تر رنگوں کو اُجلا کرنے کے لیے کیوں آتے ہیں؟ اور یہ شِیریں گیت گانے والی چڑیاں رات کو دوسروں کی طرح سوتی کیوں نہیں ہیں؟ یہ اعصاب پر ہلکی سی رقت طاری کر دینے والی رات میں یہ خود کو گانے کے لیے مختص کیوں کر دیتے ہیں؟ اِس عالم دنیا پر یہ آدھا حجاب کیوں؟ یہ دل کی دھڑکنیں ، یہ روح کے جذبات، یہ بدن کی نقاہت کس لیے؟ اِس کشش کا نظارہ کس لیے جسے انسان دیکھ نہیں سکتا جب کہ نیند اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے؟ یہ سب اِتنا بڑا تماشا کس کے لیے مطلوب تھا؟ اور سخن کا یہ سمندر جسے جنت سے زمین پر انڈیلا گیا؟ ایبے کو کسی چیز کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
لیکن اُسی وقت نیچے چراگاہ کے کنارے درختوں کے دھند سے چمکتی ہوئی چھتوں کے نیچے دو سائے نمودار ہوئے جو ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
یہ ایک قد آور آدمی تھا جس نے اپنے بازو کو اپنی بیوی کی گردن میں ڈالا ہوا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ اُس کی جبیں سے بوسہ لے رہا تھا. انھوں نے ایک بے جان منظر کو متحرک کر دیا تھا جس نے انھیں گھیر رکھا تھا، ایک روحانی کینوس جیسے کہ وہ ہو ہی اُن کے لیے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہی ایک انسان ہے، یہی جس کے لیے یہ پُر سکون اور خاموش رات بنائی گئی ہو؛ اور وہ پادری تک زندہ و جاوید جواب کی طرح پہنچ گئے، وہ جواب جو اُس کے خدا نے اُس کے سوال پر دیا ہو۔
وہ بالکل بے حس و حرکت، ہیجان زدہ اور دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ کھڑا رہا۔ اُسے یہ کہانی انجیل کے کسی قصے کی طرح لگی، جیسے کہ روتھ اور بوز کی محبت، اُن عظیم مناظر میں سے ایک میں خدا کی مرضی کا پورا ہونا جیسا کہ پاک نَوِشتے میں رقم ہے۔ عظیم گیتوں کے ورسِک اُس کے ذہن میں محوِ رقص تھے، وہ پُر جوش شور، انسان کی آوازیں، اُن نظموں کی جذبۂ شوق سے سرشار شاعری جو محبت اور نزاکت سے مرقع ہوں۔ اور پھر وہ خود سے گویا ہوا۔" شاید خدا نے ایسی راتوں کو جیسی یہ ہے انسانوں کی محبت پر اپنے نظریات کو ملبوس کرنے کے لیے بنایا ہے۔"
اِس سے پہلے کہ وہ جوڑا جو بانہوں میں بانہیں ڈالے اُس طرف آ رہا تھا وہاں پہنچتا وہ وہاں سے چلا گیا۔ یہ سچ میں اُس کی بھانجی ہی تھی؛ اور اب اس نے خود سے پوچھا اگرچہ اس نے خدا کی خلاف ورزی کی کبھی کوشش بھی نہیں کی۔ کیا خدا سچ میں محبت کی اجازت نہیں دیتا، حتٰی کہ اُس نے ہر طرف اس خوبصورتی کو دکھا رکھا ہے؟
اور وہ وہاں سے فرار ہوگیا، حیرانی میں تقریباً جھجھکتا ہوا جیسے کہ وہ چرچ میں داخل ہوا تھا جہاں اسے داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی ۔۔
***
افسانہ: چاندنی میں [In the moonlight]
مصنف: گائی ڈی موپاساں
مترجم: محمد حسن عازم