گرو نانک کو سکھ مذہب کا بانی مانا جاتا ہے لیکن حقیقت میں انہوں نے سکھ مذہب کی بنیاد نہیں رکھی اور نہ ہی کسی نئے مذہب کی کبھی بات کی۔ البتہ یہ بات ہے کہ انہوں نے ہندو مذہب میں بت پرستی کو رد کرتے ہوئے ایک خدا کی عبادت کی تبلیغ کی جس میں وہ کامیاب رہے ۔ ان کے عقیدت مندوں اور مریدوں میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے بلکہ گرو نانک کا خاص مرید مردانا نامی ایک مسلمان شخص تھا۔ گرو نانک 15 اپریل 1469 کو تلونڈی نزدیک ننکانہ صاحب پنجاب میں پیدا ہوئے ان کا اصل نام نانک ہے جو بعد ازاں گرو نانک کے نام سے مشہور ہوئے ۔ ان کا تعلق ہندوئوں کی اعلی ذات بیدی چھتری سے تھا ان کے والد صاحب کا نام کلیان چند عرف کالو تھا والدہ محترمہ کا نام ترپتا اور بہن کا نام نانکی تھا جو کہ ان سے بڑی تھیں ۔ ان کا خاندان بہت نیک کردار کا حامل تھا اور خوش قسمتی سے ان کو بیوی بھی بہت نیک کردار اور نیک سیرت ملی جس کا نام سلکھنی تھا ۔ نانک کی ولادت کے بارے میں روایت ہے کہ وہ عام بچوں کی طرح روتے ہوئے پیدا ہونے کی بجائے ہنستے ہوئے پیدا ہوئے ان کی ولادت ایک مسلمان دائی دولتاں نے کرائی تھی۔ 5 سال کی عمر میں ان کو ہندوئوں کے مذہبی اسکول میں داخل کرایا گیا وہاں ان کو تعلیم پسند نہیں آئی دوسرے اسکول میں بھی ایسا ہی ہوا اور پھر مسلمانوں کے مدرسے میں مولوی قطب الدین کے پاس داخل کرایا گیا کچھ روز بعد وہاں سے بھی دل اچاٹ ہو گیا ۔ ان کا خیال تھا کہ ہندو اور مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں عام رواجی تعلیم ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
گرو نانک کے اسکول نہ پڑھنے سے ان کے والدین کو بہت تشویش ہوئی جس کے بعد اس کے والد نے ان کو اپنے کاروبار میں لگایا لیکن انہوں نے اپنے والد کی دولت سے مستحق افراد پر خرچ کرنا شروع کردیا ان کا خیال تھا کہ یہ غریبوں کا حق ہے اور اس سے ہماری دولت میں مزید اضافہ ہوگا لیکن ان کے والد نے ان کو مال مویشی چرانے کی ذمہ داری دے دی ۔ چند روز بعد وہ مال مویشی کو چھوڑ کر گھر میں 3 ماہ تک بیٹھ گئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کو خدا کا حکم ہے۔ 3 ماہ گزارنے کے بعد وہ تبلیغ اور اصلاح کی نیت سے دور دراز کے علاقوں میں گئے پورے ہندوستان سے ہوتے ہوئے سری لنکا اور تبت سے ہو کر وطن واپس آ گئے ۔ ایک مقام پر کسی مسلمان شیخ نے ان کے مخصوص لباس کو دیکھ کر ان سے سوال کیا کہ سچا درویش کون ہے جس پر نانک نے جواب دیا کہ سچا درویش وہ ہے جو اپنی زندگی میں مر جائے اور بیداری کی حالت میں خود کو کھو دے اپنے آپ کو مکمل طور پر محبوب کی رضا کے تابع کر دے اور ایسے درویش صرف ایک رب کی عبادت کرتے ہیں ۔ ہندوئوں کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ چار ذاتوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔سنیاسیوں کے 10 فرقے ہیں اور یوگیوں کے 12 الگ الگ راستے اور ہر فرقہ دوسرے سے منافقت رکھتا ہے ۔برہمن اپنی مقدس کتابوں تک کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں ۔ عام لوگ جادو ٹونے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں لکڑی اور پتھر کی خوب صورت مورتیاں بنا کر ان کی پوجا کر رہے ہیں تلک لگانے اور مختلف رسموں کو ادا کرنے کا نام عبادت سمجھ لیا ہے ۔مذہب کی اصل روح وہم پرستی میں کھو گئی ہے اور مذہب کو برہمن کی ذات تک محدود کر دیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کے بارے میں بھی نانک کے یہی خیالات تھے ۔ نانک نے شبد اور بھجن گانے کے ذریعے بھی تبلیغ شروع کر دی وہ پنجابی اور فارسی زبان میں شاعری کرتے تھے جبکہ وہ عربی بھی روانی سے بولتے تھے ۔
ایک بڑے ہندو پنڈت نے چترداس نے گرو نانک سے سوال کیا کہ تمہارا دھرم کیا ہے تمہارے پاس چیلوں کا پتھر بھی نہیں ہے تم نہ تلسی کا پوتر ہار پہنتے ہو نہ تمہارے پاس مالا ہے نہ ماتھے پر چندن کا ٹیکہ یہ تم نے کس دھرم کو اپنا رکھا ہے نانک نے مردانا سے رباب بجانے کو کہا اور خود شبد گانے لگے یہ سن کر پنڈت چتر داس ان کے چرنوں میں پڑ گئے ۔ گرو نانک ایک طرف مذہبی مصلح کا کردار ادا کر رہے تھے تو دوسری جانب ادب کی خدمت میں بھی مصروف تھے ۔ وہ بتاتے تھے کہ کس طرح ادب اور شاعری کو روز مرہ کی زندگی سے کسب فیض کرنا چاہیے شاعری میں تخیل کی کیا قیمت ہے امیجری کس شان کی ہو ،تخلیقی جذبہ کس سطح پر ہو ،الفاظ کی دروبست کیسی ہو ،شاعری میں موسیقیت کا کتنا حصہ ہے، مترنم بحروں کا کیا مقام ہے تشبیہات کا نظام کیسا ہو نانک کے نغمے کبھی غنائیت کا رنگ اختیار کرتے تھے اور کبھی فلسفیانہ سنجیدگی ۔ان کے اشعار پنجابی ادب کے شہ پاروں کا درجہ رکھتے تھے ۔ اور اپنی شاعری کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ میں وہی کہتا ہوں جو مجھ سے میرا مالک کہلواتا ہے۔ نانک کا کہنا تھا کہ اونچ نیچ اور ذات پات کا فرق ختم ہونا چاہئے اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ہندو اور مسلمان کیوں دو الگ مذہب ہیں جب سب کا مالک اور خدا ایک ہے ۔ نانک نے پورے ہندوستان اور سری لنکا اور تبت تک تبلیغ کا کام مکمل کر کے آخر میں اپنے گاؤں میں ایک عبادت گاہ اور لنگر خانہ قائم کرنے کا سوچا لیکن ان کے پاس زمین خریدنے کی رقم نہیں تھی ۔ تاہم انہیں یقین تھا کہ مالک خود انتظام کرے گا اور ایسا ہی ہوا ان کے ایک مرید رندھاوا نے زمین خرید کر اپنے گرو کو اطلاع کر دی ۔ نانک نے وہاں اپنی خواہش کے مطابق ایک گائوں بسایا جس کا نام " کرتار پور " رکھا ۔انہوں نے اپنے والدین اور بیوی بچوں کو بھی یہاں بلوایا ۔ یہاں ان کے پاس دور و نزدیک کے لوگوں کا تانتا بندھ گیا نانک کا کہنا تھا کہ " جو سچ نہیں ہے وہ مٹ جائے گا کیونکہ صرف سچائی ہی ہمیشہ رہنے والی ہے" ۔ ایک بار گرو نانک کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کا خیال آیا تو وہ مردانا کے ساتھ حاجیوں کے قافلے میں شامل ہو گئے ۔نانک نے نیلی پوشاک پہن رکھی تھی ہاتھ میں لکڑی کا عصہ اور گلے میں قرآن لٹکا ہوا تھا وضو کا لوٹا اور جانماز بھی اٹھا رکھا تھا ۔ مکہ مکرمہ کے شہر میں چند روز گزار کر عراق اور ایران کے راستے سے وطن واپس آ گئے اور کرتار پور میں اپنی تبلیغ اور اصلاح کے کام میں مصروف ہو گئے ۔ گرو نانک کا قول تھا کہ مذہب کرامات کا نام نہیں بلکہ سماج کی اصلاح کا کام ہے ۔ گرو نانک صاحب کا انتقال 7 ستمبر 1539 کو کرتار پور میں ہی ہوا ۔ ان کے انتقال پر مسلمانوں کا خیال تھا کہ ان کی میت کو اسلامی طریقے سے دفن کیا جائے جبکہ ہندوئوں کا کہنا تھا کہ ان کی میت کو ہندوئوں کے مذہبی طریقے سے جلایا جائے تاہم دونوں طریقے ادا نہیں کیے جا سکے ۔ گرو نانک صاحب کے انتقال کے بعد ان کے جانشین اور مریدوں نے ایک نیا مذہب بنایا گیا جن کے پیروکار " سکھ " کہلانے لگے ۔ گرو نانک کے پہلے جانشین گورو انگد تھے اس کے بعد امرداس، ارجن دیو، ہرگو بند دیو گورو ہرکشن، گرو تیغ بہادر، گورو گوبند سنگھ اور بندہ بہادر ان کے جانشین مقرر ہوئے ۔ آخر میں گرو نانک کی شاعری سے کچھ اشعار بطور نمونہ پیش ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے سامنے ایک التجا کرتا ہوں
اے خدا مری التجا سن لے
تو سچا ہے تو بڑا ہے
تو رحیم ہے تو بے عیب ہے
تو پالنہار ہے دنیا فانی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے بال عزرائیل کے ہاتھ میں ہیں
لیکن تو نہیں جانتا
بیوی بیٹے باپ اور بھائی
ان میں کوئی بھی تیرا ہاتھ نہیں پکڑے گا
نہ کوئی آخر وقت میں بچائے گا
ہر شخص کے دل موم دماغ پر بدی کا غلبہ ہے
اور کوئی نیک عمل کی طرف راغب نہیں
بدبختی بخیلی، غفلت، بے صبری اور بے پروائی
یہ ہے انسان کی کیفیت
نانک کہتا ہے تیرا غلام ہوں
اور تیرے غلاموں کے چرنوں کی دھول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک شاعر تھا جس کا کوئی پیشہ تعین نہیں تھا
خدا کی کیا تعریف کروں جس نے مجھے کام پر لگایا
شاعر کو اس کا پیغام پھیلانے کا کام بخشا گیا