گرنتھ صاحب سکھ مت کی مقدس کتاب ہے۔ گرنتھ پنجابی میں کتاب کو اور صاحب اردو اور عربی میں دوست ساتھی یا مالک کو کہتے ہیں۔ سکھ اسے محض مذہبی کتاب ہی نہیں سمجھتے بلکہ یہ ان کے لیے زندہ گرو کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے اسے گرو گرنتھ صاحب بھی کہتے ہیں۔
پانچویں سکھ گرو ارجن نے گرُو گرنتھ کی ترتیب و تدوین سن 1603ء میں شروع کی تھی۔ اس وقت پنجاب کے دانشور حلقوں میں گرنتھ صاحب کی تیاری کا کافی چرچا ہوا۔گرو ارجن دیو جی کے علاوہ پہلے چار سکھ گروؤں اور مسلمان اور ہندو صوفیا اور بھگتوں کے کلام پر مشتمل گرو گرنتھ صاحب 1604ء میں مکمل ہوا
گرو ارجن دیو جی نے کوشش کی کہ گرو گرنتھ صاحب مذہبی تعصب سے بالاتر ہو اور پورے پنجاب کی اجتماعی فہم و فراست کا ترجمان ہو۔ اس کا یہ بھی مقصد تھا کہ مروج مذہبی تعصب اور مغلوں کے غیر منصفانہ نظام سے چھٹکارے کے لیے متوازی نظریہ سازی کی جائے۔ اس لیے گرو گرنتھ صاحب کا ایک حصہ بھگت بانی کہلاتا ہے جس میں شیخ بابا فرید شکر گنج، بھگت کبیر اور ہندو سنت سور داس کا کلام شامل ہے۔ بابا فرید کا کلام تو مسلمانوں تک پہنچا ہی گرو گرنتھ صاحب کی وساطت سے ہے۔ اسی روایت کے پیش نظر زمانہ جدید میں بھی بہت سے مسلمان صوفیا (کلام شاہ حسین) کے کلام کی کھوج اور تحقیق بھی سکھ محقق موہن سنگھ جیسی شخصیتوں کی مرہون منت ہے گروارجن دیو جی اس سے پہلے بھی مسلمان صوفیا کے ساتھ اپنی قربت کا مظاہرہ کر چکے تھے۔ انہوں نے گرو گرنتھ صاحب کی تدوین سے پہلے امرتسر کا تالاب مکمل کروایا تھا جو ان کے والد گرو رام داس جی نے شروع کیا تھا۔ امرتسر کے تالاب میں گولڈن ٹیمپل کی بنیاد رکھنے سے پہلے وہ لاہور تشریف لے گئے اور مسلمان صوفی میاں میر (1635-1550 ) سے درخواست کی کہ وہ اس کی بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھیں۔ مشہور سکھ تاریخ دان گیانی گیان سنگھ اور مسلمان مؤرخ غلام محی الدین المعروف بھٹے شاہ بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ گرو ارجن جی نے اس موقع پر پر بہت سے صوفیا کو مدعو کیا اور میاں میر صاحب نے چار اینٹوں سے اس کی بنیاد رکھی۔ اس لیے گرنتھ صاحب کی ترتیب و تدوین میں مسلمان صوفی شاعروں کے کلام کی شمولیت نئی بات نہیں تھی۔ البتہ سب مسلمان صوفیوں کا کلام اس میں شامل نہیں کیا گیا۔
لگتا ہے کہ جب گروگرنتھ صاحب کی تیاری ہو رہی تھی تو پنجاب کے صوفی اور سنت شاعروں میں اس کی دھوم تھی لاہور سے مادھولال شاہ عرف شاہ حسین، بھگت چھجو، کاہنا اور پیلو بھی اپنا کلام لے کر گرو صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ گرو صاحب نے ان بھگت شعرا کا کلام سنا لیکن اسے گرنتھ صاحب میں شامل کرنے سے معذوری ظاہر کی جس پر شاہ حسین یہ کہتے اٹھ گئے کہ ’ایتھے بولن دی نہیں جاء وے اڑیا‘ (یہاں بولنے کا مقام نہیں ہے)
گرنتھ صاحب 5894 منظوم حمدوں پر مشتمل ہے جس میں دس گروؤں اور پندرہ مسلمان اور ہندو صوفیا اور بھگتوں کا کلام ہے۔ گرنتھ صاحب 18 مختلف راگوں میں تقسیم ہے اس میں پنجابی، ملتانی یا سرائیکی کے علاوہ فارسی، ہندی ، مراٹھی اور پراکرت کا کلام شامل ہے
“