سات سال کی تھی تو اماں روز کہا کرتی تھی کہ میری گڑیا بڑی ہو کر بڑی افسر بنے گی اور یہ کہتے ہوۓ اس کی آنکھ میں آنسو آ جاتے کہ تیرے باپ کی جب آخری سانسیں چل رہی تھی تو اس نے کہا تھا گڑیا کو خوب پڑھانا اور بڑا افسر بنانا۔ بیٹا تو پڑھا نہیں لیکن میری گڑیا ضرور کچھ بڑا کر کے دکھاۓ گی۔
گڑیا کا مزاج بچپن سے ہی دوسرے بچوں سے مختلف تھا۔ وہ ماں کے ساتھ بازار جاتی تو بڑی بڑی دکانوں میں چمکتے ہوئے شیشوں میں سے نظر آنے والی گڑیاؤں کی بجاۓ سڑک پر بچھے قالین پر بے ترتیب پڑی پرانی کتابوں اور رسالوں کو دیکھا کرتی تھی۔ وہ شروع سے ہی بہت ذہین اور متجسس تھی۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ یونہی زندگی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوۓ دسویں جماعت تک جا پہنچی۔ اس کے کمرے میں رسالوں کے ڈھیر ہوا کرتے تھے۔خالہ پہلے جب بھی آتی تھی تو گڑیا کا ماتھا چومتی اور بے پناہ محبت کا اظہار کرتی ۔ گڑیا اس بات پہ بڑا خوش ہوا کرتی تھی۔ اس بار خالہ آئیں تو اپنی بہن سے کہنے لگی کہ یہ لڑکی ہر وقت کتابوں میں ہی گھسی رہتی ہے اسے کوئی گھرداری بھی سکھاؤ۔ اب خالہ جب بھی آتی یہی بات دہراتی جو گڑیا کو بہت بری لگتی۔ لیکن وہ یہ سب باتیں نظر انداز کر کے کتابوں میں مگن ہو جاتی۔ ایک دن ماں نے گڑیا سے کہا کہ یہ کتابوں کی دکانداری بند کرو اور میرے ساتھ باورچی خانے میں چلو۔ دسویں جماعت میں ہو اور روٹی تک نہیں پکا سکتی۔ گڑیا کو اماں کے منہ سے یہ سب سن کر بہت برا لگا اور ناراض ہو کر صحن میں جھولے پر جا بیٹھی۔ کچھ روز بعد گڑیا کا میٹرک کا نتیجہ آیا اور اس نے بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ خالہ کے بیٹے نے کراچی سے تخفہ بھیجا تو گڑیا بہت خوش تھی۔
یوں ہی دن گزرتے گئے۔ گڑیا نے اب کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ پڑھنے کا جنون اور کتابوں سے معاشقہ دن بدن زور پکڑ رہا تھا۔ اب بات رسالوں سے آگے بڑھ کر فلسفیوں اور انقلابیوں تک جا پہنچی تھی۔ ان کے علاوہ وہ ایسے لکھاریوں کو پڑھتی جن کی تحریروں کو اس معاشرے نے متنازع مواد یا فحش گوئی قرار دیا۔ دن کو اماں کے ساتھ گھر کے کام میں مدد بھی کیا کرتی اور رات گئے تک کتابیں پڑھتی رہتی۔ بڑا بھائی جو کہ زمینوں پر کام کیا کرتا تھا ایک روز کہنے لگا، اماں ! خالہ سے بات کر اب وقت آگیا ہے کہ گڑیا کا فرض ادا کر دیا جاۓ۔ ماں نے کہا میں بھی یہی سوچ رہی بس تیری خالہ سے بات کروں گی اب۔
گڑیا کے کمرے میں کتابوں کا ڈھیر ہوتا۔ ایک روز بھائی نے گڑیا کے کمرے میں منٹو کے افسانوں کا مجموعہ دیکھا تو طیش میں آ کر پھاڑ دیا۔ یہ کہتے ہوۓ گڑیا کو ڈانٹا کہ تجھے نہیں معلوم کہ یہ زندیق کفر اور فخاشی لکھتا ہے۔ گڑیا نے کچھ کہنا چاہا لیکن بھائی نے اسے جھڑک کر چپ کروا دیا اور یہ کہتے ہوۓ کمرے سے نکل گیا کہ آج کے بعد تیرے ہاتھ میں کالج کی کتابوں کے علاوہ کوئی کتاب نہ دیکھوں۔ لیکن کتاب سے محبت تو ختم ہونے والی نہیں تھی۔ گڑیا نے گیارھویں جماعت میں کالج میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے اور ساتھ ہی اماں نے یہ بات گڑیا کے کان میں ڈال دی کہ تیرا بچپن میں ہی خالہ کے بیٹے سے رشتہ طے کر دیا گیا تھا اور اب تجھے رخصت کرنے کا وقت ہو گیا۔ نطشے،سقراط، بھگت سنگھ اور چے گویرا کی دنیا میں رہنے والی گڑیا شادی کا لفظ سنتے ہی چیخ اٹھی اور کہنے لگی، ماں! تم تو کہتی تھی کہ میں بڑی ہو کر بڑی افسر بنوں گی تو اب یہ شادی کی باتیں کیوں؟ ماں نے گڑیا کے سامنے معاشرتی اقدار اور سماجی مجبوریوں کا تزکرہ شروع کر دیا لیکن انقلابیوں کی دنیا میں رہنے والی گڑیا ان سماجی پابندیوں کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ بلکہ اس کے ذہن میں تو ہر وقت ان سماجی روایات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی منصوبہ بندی چلتی رہتی تھی۔ اس نے یہ کہہ کر ماں کو انکار کر دیا کہ وہ کم از کم ابھی تو شادی نہیں کر سکتی کیونکہ ابھی اسے اپنے لیے زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے۔ ماں یہ سب سن کر بہت پریشان ہوئی۔ جب اس نے ساری داستان بیٹے کو سنائی تو وہ کہنے لگا اور پڑھاؤ اسے ، کہا تھا نہ کہ یہ کتابیں اسکا دماغ حراب کر دیں گی۔ اب سنبھالو خود ہی، یہ تو ہماری عزت خاک میں ملاۓ گی۔کچھ دن بعد ماں بیٹے نے یہ فیصلہ کیا کہ شادی سے پہلے ہر لڑکی ایسے ہی کرتی ہے وقت آنے پر رضامند ہو جاۓ گی اسلئے شادی کی تیاریاں شروع کی جائیں۔
گھر میں شادی کی باتیں سن کر گڑیا کو یوں لگتا کہ جیسے کسی نے اسکی آنکھیں چھین لی ہیں اور وہ اب خواب نہیں دیکھ سکے گی۔ جیسے کسی نے اس کی سوچ کو اس سے الگ کرکے کہیں دفن کر دیا یے۔ اسکی خواہشوں کا گلا گھوٹا جا رہا ہے، اسکے پر کاٹے جا رہے ہیں اور وہ بے بس ہے۔
شادی کی رسومات شروع ہونے میں ایک روز باقی تھا۔ اس نے ماں کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن ماں کچھ نہ کر سکی۔ بھائی کی ڈانٹ نے اسے مزید آگ بگولہ کر دیا تھا۔ وہ کوئی انتہائی قدم اٹھانے کی سوچوں میں تھی۔ شام ڈھلنے لگی تھی اور سب مہندی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ گڑیا دن بھر سے اپنے کمرے میں ہی تھی۔ یہ نا انصافی اور جبر انقلابی سوچ رکھنے والی گڑیا کو کچھ کر گزرنے کیلئے اکسا رہا تھا۔ گڑیا نے اپنی سوچوں سے لڑتے لڑتے آخر ہار کر پنکھے کے ساتھ لٹک کر جان دے دی۔ اس سماج کی ظالم روایات کی بھینٹ چڑھنے والی گڑیا جاتے ہوۓ ایک تحریر چھوڑ گئی جو کچھ یوں تھی!
ماں! تجھے پتا تھا تو بچپن میں ہی بتا دیتی نہ۔ کیوں کہتی تھی کہ میں بڑی افسر بنوں گی؟ تم سب نے مجھ سے جھوٹ بولا مجھے دھوکہ دیا۔ مجھے بتایا ہوتا کہ میرا وجود اس دنیا میں صرف کسی دوسرے سے منسوب ہونے کیلئے ہے۔ کبھی کسی کی عزت تو کبھی کسی کی ملکیت۔ تو مجھے بتاتی کہ خواب دیکھنا جرم ہے۔ اپنے آسمان میں اڑنے اور اسے چھونے کی خواہش جرم ہے۔ کاش تو نے میری آنکھیں نوچ لی ہوتی، سوچنا مجھ پر حرام کر دیا ہوتا۔ لیکن میں تو سوچ کر بھی کمزور ہی رہی۔ تم لوگوں سے لڑ نہ سکی اور تم سب جیت گئے۔
ماں سب کو بتانا کہ آئندہ کسی کو اپنی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہ دیں ورنہ میرے جیسا انجام ہو گا۔ ماں! ان نظریات کو اور میری کتابوں کو میرے ساتھ ہی لحد میں اتار دینا۔ میرے ساتھ ہی دفن ہو جائیں تا کہ کسی اور کو نہ مار سکیں۔ ابا کو جا کے میں خود ہی بتا دوں گی کہ تیری گڑیا کچھ بڑا نہ کر سکی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...