گوردوارہ چھٹی پادشاھی پڈھانا لاھور
سکھ مذھب کی بنیاد توحید پر مبنی ھے۔ سکھ ازم کے بانی باباجی گورو نانک صاحب کی تمام تعلیمات کا نچوڑ لاکھوں دیوتاؤں کی پوجا کی بجائے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا ھے۔ بابا جی گورو نانک صاحب نے اپنی زندگی میں جتنے سفر کئے اس دوران انہوں نے کہیں کچھ لمحے آرام فرمایا اور کہیں کچھ دن ٹھہرے۔ جہاں انہوں نے تھوڑی دیر قیام کیا وہاں جو گوردوارہ تعمیر کیا گیا وہ "" دمدمہ صاحب "' کہلایا۔ اور جہاں زیادہ دیر یا کچھ دن ٹھہرے وہاں تعمیر ھونے والا گوردوارہ "" نانک سر "" کہلایا۔ بابا جی گورو نانک صاحب کے سفر کے دوران یا بعد میں ان کی یاد میں بنائے جانے والے گوردوارے " پہلی پادشاھی " کہلائے۔ بعد میں آنے والے گوردوارے سکھ گوروؤں کی نسبت سے دوسری ، تیسری اور اسی طرح دسویں پادشاھی تک کے سفر اور گوردوارے کہلائے۔ بعد میں آنے والے تمام گوروؤں نے بابا جی گورو نانک صاحب کے ھی کئے ھوئے سفر کے روٹ اختیار کئے اور اپنی طرف سے بھی مزید سفر کئے۔ سب سے زیادہ سفر اور گوردوارے پہلی اور چھٹی پادشاھی سے متعلقہ ھیں۔
ھمارا آج کا موضوع چھٹے سکھ گورو " گرو ھرگوبند جی " (1595-1644)کے سفر سے متعلقہ گوردوارہ ھے۔ جو ڈھلواں سے پڈھانا گاؤں ضلع لاھورتشریف لائے۔ انہوں نے پڈھانا میں اپنے قیام کے دوران سندھو جٹ ذات کے جلہان جٹ سے "" سے گر جی " (ایک رب کی توحید ) کے بارے گفتگو فرمائی۔ جوکہ پڈھانا کے نمایاں لینڈ لارڈ تھے۔
یہ گوردوارہ شروع میں سادہ طرز پر تعمیر کیا گیا۔ بعد میں پڈھانا گاؤں کے چیف " سردار عطر سنگھ " نے اس کی تعمیر نو کی۔ مقامی آبادی کے تعاون سے ایک خوبصورت عمارت وجود میں آئی۔ لنگر کے لئے مقامی آبادی کی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ 1947ءمیں تقسیم ھند و پنجاب ھونے پر مقامی سکھ آبادی کو یہ علاقہ اور گوردوارہ چھوڑ کر جانا پڑا۔ سکھوں کے جانے کے بعد گوردوارہ کی عمارت ھریانہ اور راجھستان(ھندوستان ) سے آنے والے میواتی مسلمانوں کی تحویل میں دے دی گئی۔
گوردوارے کی عمارت اس وقت بہت اچھی حالت میں ھے۔ مگر پھر بھی حکومتی سرپرستی کی متقاضی ھے۔ چھت پر کھڑے ھوکر دیکھیں تو تقریباً مشرق میں آدھا کلومیٹر دور پاکستان اور بھارت کی سرحد ھے۔ سرحد سے تقریباً تین کلومیٹر دور بھارت کا گاؤں " نوشہرہ " ھے۔ نوشہرہ گاؤں کے دو سفید چمکتے گوردوارے نظر آتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔