سعودی عرب میں تبدیلی بہت ہی تیزی سے آئی تھی۔ 1938 میں پتا لگا تھا کہ صدیوں سے سنسان اور پسماندہ علاقہ نئی دولت سے مالامال ہے۔ دنیا میں تیل کے بہت بڑے ذخائر یہاں پر ہیں۔ اس دریافت کے سات سال بعد امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ شاہ عبدالعزیز کے ہمراہ مصر میں بحری جہاز میں اکٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ بوڑھے بادشاہ کو وہیل چئیر کا تحفہ دینے کے بعد انہوں نے ایک بڑا معاہدہ کر لیا تھا۔ یہ تیل نکالنے والی کمپنی آرامکو کا قیام تھا جو اس وقت مکمل امریکی اونرشپ میں تھی اور سعودی عرب میں تیل کا کام کرنے کے بلا شرکتِ غیرے حقوق رکھتی تھی۔
اس کے بعد ہزاروں امریکی تیل کے ماہرین، تعمیراتی انجینیرز، فوجیوں نے سعودی عرب کا رخ کیا۔ پہلی جدید سڑکیں، پاور لائن، ہوائی اڈے بنے۔ اس یکایک ہو جانے والی تبدیلی نے یہاں پر ایک مسئلے نے جنم لیا۔ اس سرزمین پر قدامت پرستوں کے نزدیک غیرمسلموں کو نہ صرف قدم رکھنے کی اجازت ملنا بلکہ عزت دئے جانا بے حرمتی تھی۔ اس پر سب سے شدید احتجاج کرنے والے عبدالعزیز بن باز تھے۔ مغربی اثرات کیخلاف ان کے دئے گئے فتوے آج بھی انتہاپسندوں کی آئیڈیولوجی کا حصہ رہے ہیں۔ “ہم ان کافروں کو اپنے گھر میں نوکر نہیں رکھ سکتے۔ یہ خطرناک ہیں۔ ان کے عقائد، ان کے اخلاق ہماری اگلی نسلیں خراب کر دیں گے۔ ان کیلئے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں”۔ یہ نابینا عالم ابنِ باز کے الفاظ تھے۔ ابنِ باز سعودی عرب کے سب سے طاقتور مذہبی راہنما سمجھے جاتے تھے۔ ابنِ باز المدینہ کالج میں مسجد الحرام پر قبضہ کرنے والے جھیمان کے استاد بھی رہے تھے۔ بعد میں مفتی اعظم کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔
شاہ عبدالعزیز کو علم تھا کہ وہ ان امریکیوں کی مدد کے بغیر نہ تیل نکال سکتے ہیں، نہ ملک ترقی کر سکتا ہے۔ شاہ عبدالعزیز نے ابنِ باز سے خود ملاقات کی اور ان کو قائل کیا کہ یہ مجبوری ہے اور اگر اگر ابنِ باز نے حکومت کا ساتھ نہ دیا تو ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ شاہی خاندان سے زیادہ بُرے لوگ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔ یعنی کہ کمیونسٹ اور سیکولر۔ ابنِ باز بات کو سمجھ گئے۔ حکومت سے سمجھوتہ کر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے سعودی حکومت کے خلاف اپنے بیانات میں بڑی حد تک نرمی رکھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ عبدالعزیز کا انتقال 1953 میں ہوا جس کے بعد شاہ فیصل اقتدار میں آئے۔ شاہ فیصل بڑے زیرک لیڈر تھے۔ یہ وقت بادشاہتوں کے لئے مشکل دور تھا۔ مصر میں جمال عبدالناصر نے بادشاہت کا تختہ الٹا تھا۔ عراق میں شاہ کو خاندان سمیت قتل کر دیا گیا تھا۔ یمن میں قدیم بادشاہت گر گئی تھی۔
جمال عبدالناصر نے عرب دنیا کو اتحاد کے لئے پین عرب ازم کا نعرہ دیا تھا۔ یہ عرب دنیا میں پرکشش تھا۔ شاہ فیصل نے اس کا توڑ کرنے کے مقابلے میں پین اسلام ازم اور اسلامی امہ کا نعرہ دیا۔ انہوں نے جال وسیع پھینکا تھا۔ اسلامی دنیا کو اکٹھا کرنے اور اس بلاک کی قیادت کرنے کے لئے سعودی عرب کے پاس جو تھا، وہ کسی اور کے پاس نہیں۔ اسلامی شناخت نے سعودی عرب کو اسلام میں عالمی لیڈر شپ کا موقع دے دیا۔ صدیوں سے قاہرہ، بیروت، بغداد کے سائے میں رہنے والا سعودی عرب عالمِ اسلام کی بالکل ابتدائی تاریخ کے بعد پہلی بار اس پوزیشن میں آیا تھا۔ اس کے پاس اثر و رسوخ بھی تھا اور دولت بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرشل ائیرلائن کی صنعت آ جانے کے بعد عمرہ اور حج کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھی۔ دنیا کے کسی بھی کونے سے یہاں پہنچ جانا آسان ہو گیا۔ مقاماتِ مقدسہ کو توسیع دینے کا مہنگا کام شاہ کے قریبی معتمد اور قابلِ بھروسہ مشیر محمد بن لادن کے سپرد ہوا۔ بیس سال میں ان دو مساجد کے سائز میں چھ گنا اضافہ ہوا۔
شاہ فیصل قدامت پرست انتہاپسندوں کے مخالف تھے۔ اور اپنے بعد آنے والے شاہ خالد کے برعکس سخت موقف اپناتے تھے۔ مذہبی اقلیتوں، رواداری اور خواتین کے حقوق جیسے معاملات پر سینئیر علماء کونسل کی مخالفت کی پرواہ نہیں کی تھی اور ابنِ باز کو یونیورسٹی سے برطرف کر دیا تھا۔ البتہ پین اسلام ازم کی پالیسی کے تحت شاہ نے ایک کام کیا۔ زیرِ زمین چلنے والی عرب تنظیم اخوتِ اسلامی کے کارکنوں کو سعودی عرب آنے کی دعوت دی۔ اخوت عرب حکومتوں کے خلاف چلنے والی تحریک تھی۔ ناصر کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کے بعد مصر اور شام میں اس پر پابندی لگ چکی تھی اور اس کے ممبران کو پکڑا جا رہا تھا۔ ان کے مرکزی فکری راہنما سید قطب تھے، جن کی فکر کو آج بھی بڑی جگہ پر عزت ملتی ہے۔ سید قطب کو مصر میں پھانسی دی گئی تھی۔
سید قطب کے بھائی کو سعودی عرب میں خوش آمدید کہا گیا۔ ان کو اور ان کے ساتھیوں کو سلطنت میں نئی کھلنے والی یونیورسٹیوں میں پروفیسر بنا دیا گیا۔محمد قطب کے شاگردوں میں سے کئی لوگوں نے انتہاپسند تنظیموں میں نظریاتی لیڈر شپ کا کردار ادا کیا۔ ان شاگردوں میں سے کئی مسجد الحرام کے محاصرے میں جھیمان کے ساتھی تھے۔ ان کے ایک اور ذہین شاگرد محمد بن لادن کے چھوٹے بیٹے اسامہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ فیصل ان پڑھ سعودی عرب کو گھسیٹ کر ماڈرن ازم کی طرف لے کر آئے تھے۔ انہوں نے غلامی پر 1962 میں پانبدی لگائی۔ اس کے بعد سعودی عرب میں آخری پونے دو ہزار غلاموں کو سعودی حکومت نے رہا کروایا۔ اگلے سال خواتین کیلئے تعلیم کے اقدامات کئے۔ اور پھر 1965 میں انہوں نے وہ قدم اٹھا لیا جو پھر ان کی موت کا باعث بنا۔ انہوں نے سعودی عرب میں ٹیلی ویژن متعارف کروا دیا تھا۔
ٹی وی کی پہلے براڈ کاسٹ کے بعد ریاض میں خونی ہنگامے پھوٹ پڑے۔ بادشاہ کے اپنے بھتجیجے ان مظاہروں کا حصہ تھے۔ لیکن وہ پولیس کے ساتھ ہونے والی شوٹنگ میں مارے گئے۔ سعودی عرب میں اس کے بعد ہر قسم کے سیاسی مظاہرے پر پابندی لگا دی گئی۔
شاہ فیصل کے اقدامات کی شدید مخالفت کے باوجود مذہبی قدامت پسند ان کے خلاف کچھ زیادہ نہیں کر پائے۔ اس کی وجہ شاہ فیصل کی بے حد مقبولیت تھی۔ جو انہوں نے 1973 میں اسرائیل عرب جنگ کے بعد حاصل کی تھی۔ مغربی ممالک کے خلاف عربوں کا تیل کے ہتھیار کا استعمال نہ صرف موثر رہا تھا بلکہ منافع بخش بھی۔ تیل کی قیمت چار سال میں بیس گنا ہو گئی تھی۔
سعودی عرب میں دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ اس بے پناہ امارت نے اونٹوں کو گاڑیوں سے بدل دیا۔ ہسپتال اور سکول ہر جگہ کھل گئے۔ ہر سعودی شہری کے لئے ملازمت تھی۔ چونکہ سعودی نظامِ تعلیم خود ڈویلپ نہیں ہوا تھا، اس لئے شعبوں کے ماہرین باہر سے بلانے پڑے۔ افرادی قوت پاکستان، مصر اور ترکی سے ہی نہیں بلکہ غیرمسلم انڈیا، کوریا اور فلپائن سے بھی آئی۔ جلد ہی ملک میں کام کرنے والوں کا نصف اور کل آبادی کا ایک تہائی باہر سے آنے والے لوگوں پر مشتمل تھا۔
چند ہی دہائیوں میں سعودی عرب کی کایاپلٹ گئی تھی۔ اس کے پاس امارت اور قیادت تھے۔
مارچ 1975 میں شاہ فیصل، جب اپنی مقبولیت کے عروج پر تھے، کویت سے آنے والے وفد سے ملنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان کویتیوں کے درمیان ان کا ایک بھتیجا چھپا ہوا تھا۔ یہ اس شہزادے کا بھائی تھا، جو مظاہروں میں پولیس کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ جب ملنے کی باری آئی تو شہزادے نے پستول نکال کر اپنے چچا شاہ فیصل کے سر میں گولیاں اتار دیں۔ قاتل کو اسی وقت مار دیا گیا۔
سعودی عرب میں اگلی بادشاہت شاہ خالد کے حصے میں آئی۔