عبدالستار ایدھی کی تدفین کے بعد کئی روز میں بھی بہت زیادہ لوگوں کی طرح ایدھی صاحب سے متعلق تحریریں پڑھتا رہا اور وڈیو فلمیں دیکھتا رہا۔ ان کی موت کے بعد ان کی شخصیت اور کاموں کی جانب اتنے زیادہ لوگ راغب ہوئے کہ گوگل کو خصوصی آئیکن بنانا پڑا اور بی بی سی نے ضمیمہ لف کیا۔
ان وڈیو فلموں میں جو میری نظر سے گذریں بارہ سال پہلے کا پروگرام “ایک دن جیو کے ساتھ ” کی وڈیو بھی تھی جس میں صحافی سہیل وڑائچ ایدھی سے سوال کرتے ہیں کہ اب تک آپ کتنے بچوں کو پرورش کی خاطر لوگوں کے حوالے کر چکے ہیں؟ جواب میں ایدھی صاحب نے یہ تعداد 14700 بتائی تھی۔ ضمنی سوال یہ تھا کہ زیادہ تر لوگ بچوں کو گود لیتے ہیں یا بچیوں کو؟ اس سوال کے جواب میں ایدھی صاحب نے کہا تھا کہ جو تعداد بتائی ہے اس میں بچے صرف دو سو تھے۔ یعنی باقی ساڑھے پندرہ ہزار بچیاں تھیں۔
اس سے یہ نتیجہ تو ہرگز نہیں نکالا جا سکتا کہ گود لینے والے بچیوں کو گود لینا پسند کرتے ہیں البتہ یہ نتیجہ ضرور نکالا جا سکتا ہے کہ لاوارث بچوں میں زیادہ بلکہ بہت ہی زیادہ تعداد بچیوں کی رہی ہوگی۔ اس کا یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ لوگ زیادہ تعداد میں نومولود بچیوں کو “جھولوں” میں ڈال جاتے ہیں۔ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ بن بیاہی مائیں اتنی کثیر تعداد میں بچیاں ہی پیدا کرتی ہوں چنانچہ جو بات اخذ کی جا سکتی ہے وہ یہ کہ غریب لوگ اپنی جائز نومولود بچیوں کو بھی ایدھی کے جھولوں میں ڈال جاتے ہیں تاکہ ان کی پرورش اور پھر بیاہ کرنے کے اخراجات سے بچ سکیں جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے۔ جائز بچے اس لیے “جھولے” میں نہیں ڈال جاتے ہوں گے کہ انہیں سات آٹھ برس کی عمر تک پالنے کا کشٹ اس لیے اٹھا لیا جاتا ہے تاکہ پھر دو کمانے والے ہاتھ بنانے کی غرض سے انہیں “چھوٹے” بنا دیا جائے۔
یہ پروگرام جیسا کہ پہلے عرض کیا بارہ برس پرانا ہے یوں اعداد و شمار بھی پرانے ہیں۔ ظاہر ہے گذشتہ بارہ برسوں میں غربا کی تعداد کم نہیں ہوئی ہوگی بلکہ ممکن ہے کہ بڑھی ہو۔ جو ملک کی معیشت کا حال ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بذات خود غربت میں بھی کمی نہیں آئی ہوگی، جس کی تائید حال ہی میں اقوام متحدہ کی اس رپورٹ سے ہو چکی ہے کہ پاکستان میں پچاس فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
یوں گذشتہ برسوں میں جھولوں میں ڈالی جانے والی بچیوں کی تعداد کہیں زیادہ رہی ہوگی۔ بچیوں کو زندہ دفن کر دینے کی ریت تو پرانی ہو چکی البتہ انہیں پیدا ہونے سے پہلے مار دینے کا رواج آج بھی بہت سے ملکوں بالخصوص ہندوستان میں عام ہے۔ الٹرا ساؤنڈ تکنیک کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کی جنس سے متعلق جان لینے کی سہولت ملنے کے بعد بچیوں والے حمل کا اسقاط کروا دینا جو دھندہ تو پہلے سے تھا، اب ایک انڈرگراؤنڈ انڈسٹری بن چکا ہے۔ ہندوستان میں اس مذموم عمل کو روکنے کی خاطر کچھ قانون بنائے جا چکے ہین اور کچھ سے متعلق کام ہو رہا ہے۔
پاکستان میں چونکہ اسقاط کے حوالے سے کچھ مذہبی قدغنیں ہیں، دوسرے یہ کہ نادار والدین کے پاس پیشگی الٹرا ساؤنڈ کروانے اور غیر قانونی اسقاط حمل کروانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے اس لیے وہ پیدا ہو جانے والی بیٹیوں سے اگر فوری نہیں تو کچھ وقت گذرنے کے بعد ایدھی مراکز کے جھولوں میں ڈال کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ اگر ایدھی صاحب کے کا “جھولا” تصور عمل میں نہ ڈھلتا تو نہ جانے کتنے لوگوں کو اپنی بچیاں مارنی پڑ جاتیں۔ اس کے لیے غیر متشددانہ طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے تھے کہ خیال نہ کیا جاتا اور بیمار ہونے کی صورت میں علاج سے محروم رکھا جاتا۔ ویسے بھی غریبوں کو کونسا علاج میسّر ہے۔
بچیوں کو تلف کیے جانے یا ان سے جان چھڑائے جانے کی وجہ جہالت اور غربت علیحدہ علیحدہ یا باہم ہیں۔ اب یہ تجویز کسے دیں کہ جہالت اور غربت کو تمام کرنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات لیے جائیں۔ ہم چونکہ عموماً دعاؤں کو ہی اپنے مسائل کا مداوا خیال کرتے ہیں تو آئیے دعا کرتے ہیں کہ بہت سے ایدھی بن جائیں اور دیہاتوں، قصبوں تک جھولے رکھے ہوئے ملیں تاکہ بچیاں جو ملک کی آبادی کا نصف سے زیادہ ہیں کم نہ ہونے پائیں۔
ایدھی کے مراکز میں پلنے والی بچیوں کے بھی بیاہ کروا دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کتنی لڑکیاں کام کرکے کمانے والی بنتی ہیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے البتہ ایک اور رپورٹ نظر سے گذری جس میں یونیورسٹی کی طالب علم رضاکارانہ طور پر بولٹن مارکیٹ کے گرد کچرا صاف کرکے ٹافیاں خرید کر ایدھی مرکز کے بچوں کو دینے جاتی ہیں تو انہیں وہاں ایدھی صاحب بیٹھے ملتے ہیں۔ جب وہ بچوں سے ملنے کی درخواست کرتی ہیں تو وہ کہتے ہیں،”اب ہم نے بچوں کے ساتھ لوگوں کا ملنا بند کر دیا ہے۔ لوگ بچوں کو خواب دکھا کر ہم سے گود لے کر چلے جاتے ہیں اور پھر ان کا استحصال کرتے ہیں”۔
اس کے برعکس روس میں یتیم اور بے سہارا، یا ایسے بچے جن کے والدین ان کی پرورش کرنے سے قاصر ہوں جیسے نشئی شرابی والدین، انہیں ملک کا باوقار اور فعال شہری بنانے تک حکومت کی نگرانی میں “چلڈرن ہومز” اورخصوصی ہوسٹلوں میں رکھا جاتا ہے۔ اٹھارہ سال کے بعد انہیں گھر دے دیا جاتا ہے۔ وہ آزاد ہوتے ہیں اور باروزگار ہونے کے بعد بھی چلڈرن ہوم سے رابطہ رکھتے ہیں، ہو سکے تو اس کی عملی اور مالی مدد بھی کرتے ہیں۔
ایک بار پھر دعا کریں کہ ہمارا ملک اچھا بن جائے، ہم نے خود تو اسے اچھا بنانا نہیں اس لیے اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔