اکیوسویں صدی کی برق رفتار ترقی نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ ایجادات اور دریافتیں ہیں کہ ختم ہی نہیں ہو رہیں۔ بنی نوع انسان نے زندگی کو سہل بنانے کے لیئے کئی آسان شارٹ کٹس ڈھونڈ نکالے ہیں۔دوسرے حواس کے ساتھ ساتھ ہماری لذت زباں بھی نت نئے ذائقوں سے آشنا ہو رہی ہے۔ چاکلیٹ، کافی ، نت نئے مشروبات اور سویٹس کے ذائقوں کی لذت سے ہماری زباں آشنا ہو چکی ہے۔مغربیت کی اس ہوا نے ہم کو اگر بہت کچھ عطا کیا ہے تو ہمیں کئی خوبصورت چیزوں سے محروم بھی کر دیا ہے۔
گُڑ جو کسی زمانے میں بیسیوں کھانوں میں استعمال ہوتا تھا اور فطری صنعت ہونے کی وجہ سے مفید بھی تھا کا اب استعمال بہت محدود ہو چکا ہے۔گنے سے رو نکلتی تھی تو اس کو مشروب کے طور بھی اور روٹی کے ساتھ کھانے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی رو کو دیسی صنعت کاری میں سے گزار کر گڑ کی شکل دی جاتی۔ پرانے دور کی مٹھائیوں جیسے بتاشے، ریوڑیاں، ٹانگری اور لڈو میں گڑ کا میٹھا ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ گڑ کی ہی کرامت تھی کہ یہ دیسی مٹھائیاں نقصان کی بجائے فائدہ مند ہو ا کرتی تھیں۔ گڑ کا حلوہ وسطی پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں بہت دلپسند گردانا جاتا تھا۔
گڑ کا سب سے زیادہ استعمال چائے میں کیا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ نصف صدی قبل ولائتی یعنی سفید چینی کی دریافت سے پہلے گڑ، شکر اور دیسی کھانڈ ہی میٹھے کے چند ذرائع ہوا کرتے تھے۔ لیکن چائے میں زیادہ تر گڑ ہی کو استعمال کیا جاتا تھا۔ گڑ کی بنی چائے سفید چینی سے بنائی گئی چائے سے زیادہ گاڑھی اور قدرے تیز رنگت کی حامل ہوا کرتی تھی۔ اس دور میں چائے چینی اور شیشے کے پیالوں اور پیالیوں کی بجائے مٹی سے بنائے گئے بٹھلوں میں پی جاتی تھی۔گڑ کا لطیف ذائقہ طبیعیت پر ذرا برابر بھی گراں نہ گزرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایک وقت میں کئی کئی پیالے چائے پی جایا کرتے تھے۔
مجھے بچپن میں گڑ کی چائے پینے کا اکثر موقع ملتا رہا جب ہم گاؤں سے باہر زمینداروں کے ڈیروں پر جایا کرتے تو وہ ہماری تواضع سردیوں میں گڑ والی چائے اورگرمیوں میں نمکین لسی سے کیا کرتے تھے۔ سرسوں سے لدے پیلے کھیتوں کے اُس پار کچے کچیروں اور کوٹھوں کے دامن میں مٹی کے بٹھلوں میں گڑ والی اس چائے کا ذائقہ ابھی تک نوکِ زبان پر موجود ہے۔ جب ہم واپس آنے لگتے تو وہ پر خلوص لوگ گھی والے تمالو کے اندر گنے کی رو بھی ڈال دیا کرتے جو ہم کئی دن روٹی کے ساتھ استعمال کیا کرتے۔
آج بھی جب کبھی میں ماضی کو دہرانا چاہوں تو ریلوے سٹیشن کے قریب سے گڑ والا حلوہ لے آتا ہوں اور گھر میں گڑ والی چائے پکواتا ہوں۔ لیکن یہ چائے صرف ایک کپ ہی بنتی ہے کیونکہ میرے علاوہ تمام لوگوں کو سفید اور مصنوعی چینی کی چائے ہی من بھاتی ہے۔ مجھے گڑ کی چائے چینی کی پیالیوں میں پینی پڑتی ہے کیونکہ مٹی کے بٹھلے اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...