گنٹر گراس کی زندگی کے مختلف اَدوار
نوبل انعام یافتہ گنٹر گراس عالمی جنگ کے بعد کے اہم ترین جرمن ادیبوں میں سے ایک تھے۔ سیاسی طور پر سرگرم دانشور کے طور پر وہ کئی نزاعی مباحث کے آغاز کا باعث بنے۔ اُنہوں نے جو بحثیں چھیڑیں، اُن کا تعلق نیشنل سوشلزم، جرمن قوم کے اجتماعی احساسِ جرم اور دورِ حاضر کی سیاست سے ہوا کرتا تھا۔
ادیب کے طور پر شہرت کا آغاز
1959ء میں اُن کے ناول ’دی ٹِن ڈرم‘ کو عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ 1979ء میں اس پر فلم بھی بنی۔ 1961ء میں ’کیٹ اینڈ ماؤس‘ اور 1963ء میں ’ڈاگز ایئرز‘ کے ساتھ گراس نے اپنی تین حصوں پر مشتمل ’گڈانسک ٹرایالوجی‘ مکمل کر لی، جس میں جرمن قوم کے اجتماعی احساسِ جرم اور ہٹلر دور کا احاطہ کیا گیا تھا۔
گنٹر گراس کے لیے ادب کا نوبل انعام
چار ہی سال بعد 1999ء میں گنٹر گراس کو نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ گنٹر گراس نے اپنی تحریروں میں تاریخ کے فراموش کردہ چہرے کو بیان کیا ہے اور یہ کہ اُن کے ناول ’دی ٹِن ڈرم‘ کا شمار بیس ویں صدی کی سدا بہار ادبی تخلیقات میں ہوا کرے گا۔
مشرقی پرشیا میں لڑکپن کے دن
گراس سولہ اکتوبر 1927ء کو مشرقی پرشیا میں پیدا ہوئے۔ وہ پولینڈ میں واقع مقام گڈانسک میں ایک عام سے گھرانے میں پلے بڑھے۔ اپنے لڑکپن میں وہ ہٹلر کے نوعمروں کے لیے بنائے گئے یونٹ HJ کے رکن رہے۔ اسی یونٹ کے جریدے میں اُن کی ابتدائی کہانیاں شائع ہوئیں۔
نازی جماعت کے دستے میں رکنیت
بہت بعد میں اُنہوں نے بتایا تھا کہ گھر والوں کے دباؤ سے بچ نکلنے کے لیے وہ رضاکارانہ طور پر فوج میں بھرتی ہو گئے تھے۔ 1944ء میں سترہ سال کی عمر میں وہ ’وافن ایس ایس‘ میں شامل ہو گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر وہ امریکیوں کے جنگی قیدی بن گئے۔
آرٹسٹ کے طور پر تربیت
جنگ کے بعد انہوں نے پتھر سے مجسمے تخلیق کرنے کی تربیت شروع کی اور شہر ڈسلڈورف میں گرافک اور مجسمہ سازی کی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مصروف ہو گئے۔ اُن کی رہائش برلن اور پیرس میں بھی رہی اور اُن کے مجسموں اور گرافک شاہکاروں کی نمائشیں بھی ہوئیں۔ وہ عمر بھر فن کے شعبے سے منسلک رہے۔ وہ اپنی کتابوں کے سرورق خود بناتے تھے۔
’گروپ سینتالیس‘ میں شمولیت
بیس ویں صدی کے پانچویں عشرے میں گراس کی توجہ زیادہ سے زیادہ ادب کی جانب مبذول ہوئی۔ 1955ء میں وہ ادیبوں کی ایک با اثر جرمن تنظیم ’گروپ سینتالیس‘ کی نظروں میں آئے۔ اسی گروپ کی ایک ادبی نشست میں اُنہوں نے اپنے ایک غیر طبع شُدہ ناول ’دی ٹِن ڈرم‘ میں سے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔
سیاسی سرگرمیاں
گراس سیاست کے شعبے میں بھی سرگرمِ عمل رہے اور جرمنی اور پولینڈ کے درمیان دوستی کے لیے کوشاں رہے۔ ساٹھ کے عشرے میں جرمن سوشل ڈیمرکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کی رکنیت حاصل کیے بغیر وہ اس جماعت کی انتخابی مہم میں سرگرم رہے۔ اگرچہ وہ محض 1982ء تا 1992ء اس جماعت کے رکن رہے لیکن اس کی حمایت وہ عمر بھر کرتے رہے۔
گراس تنقید کی زَد میں
1995ء میں معروف نقاد مارسیل رائش رانیسکی نے گراس کے ناول ’ٹُو فار افیلڈ‘ کو نہ صوف ادبی اعتبار سے بلکہ سچ مُچ اُدھیڑ کر رکھ دیا۔ اس سیاسی ناول میں 1848ء سے لے کر دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد تک کی تاریخ بیان کی گئی تھی تاہم تاریخ کو مبینہ طور پر غلط رنگ میں پیش کرنے کے الزام میں گراس شدید بحث و تمحیص کی زَد میں رہے۔
جرمن تاریخ پر ایک اور شاہکار
2002ء میں گراس نے ایک اور ادبی سنگِ میل عبور کیا۔ یہ تھا اُن کا نیا ناول ’کرَیب واک‘، جسے بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس میں 1945ء میں ممکنہ طور پر نو ہزار انسانوں کے ساتھ غرق ہو جانے والے بحری جہاز ’ولہیلم گُسٹلوف‘ اور مشرقی یورپ سے جرمنوں کو گھر بدر کرنے کا ذکر کیا گیا تھا۔ نقادوں نے گراس کو اتنے مشکل موضوع پر قلم اٹھانے اور واقعات کی انتہائی مؤثر تصویر کشی کے لیے سراہا۔
اعتبار جاتا رہا؟
2006ء میں اُن کی آپ بیتی ’پیلنگ دی اونین‘ نے جرمنی میں ایک نئی نزاعی بحث چھیڑ دی۔ اس کتاب میں اُنہوں نے پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ ہٹلر کے ’وافن ایس ایس‘ یونٹ میں شامل رہے تھے۔ تب ناقدین نے اُن کی اخلاقی دیانت اور اعتبار پر سوالیہ نشان لگا دیے۔
اسرائیل پر تنقید
2007ء میں گراس کی 80 ویں سالگرہ پر اُنہیں ایک بار پھر ایک عظیم ادیب کے طور پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ اپریل 2012ء میں اُن کی ایک نظم ’جو کہا جانا چاہیے‘ میں اسرائیل کو ہدفِ تنقید بنایا گیا تھا، جیسے ہی یہ نظم شائع ہوئی، ہر طرف سے گراس پر تنقید شروع ہو گئی۔ اس نظم کی ادبی ساخت کو بھی نشانہ بنایا گیا اور گراس کو سیاسی معاملات سے ناواقفیت اور سامی دشمنی کا بھی الزام دیا گیا۔
آخر وقت تک مزاحمت اور تنقید کرتے رہے
دسمبر 2013ء میں جن 562 شخصیات نے ’رائٹرز اگینسٹ ماس سرویلینس‘ کی اپیل پر دستخط کیے، اُن میں گراس بھی شامل تھے۔ اس اپیل میں امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر جاسوسی کی سرگرمیوں کے خلاف مزاحمت پر ابھارا گیا تھا۔ وہ آخر وقت تک ایک ایسے دانشور رہے، جو اپنے موقف کو نمایاں کرنے کے لیے مزاحمت کرتے اور الجھتے رہے۔ گنٹر گراس تیرہ اپریل 2015 کو ستاسی برس کی عمر میں شمالی جرمنی کے شہر لیوییک کے ایک ہسپتال انتقال میں کر گئے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“