شام کو سلطنت عثمانیہ نے 1516ء میں اپنی تحویل میں لیا۔ چارسوسال تک شام ایک اہم صوبہ رہا ۔ ترکوں نے جہاں عربی زبان کو عزت اور اہمیت دی‘ وہاں دمشق کو بھی علاقے کا مرکزی مقام قرار دیا ۔ مکہ جانے والے حجاج کے لیے اسے ایک اہم پڑائو کا درجہ حاصل رہا۔ پہلی جنگِ عظیم کے وسط میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے علاقے کو اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر میں بانٹ لیا اور اس کا نام Mandate(انتداب) رکھا۔ فرانس سے شام کی جان 1946ء میں چھوٹی۔ اقبال نے یورپ کے اس تسلط پر خوب طنز کیا تھا ؎
فرنگیوں کو عطا خاکِ سوریا نے کیا
نبیِ عفّت و غم خواری و کم آزاری
صلہ‘ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے
مے وقمار وہجومِ زنانِ بازاری
اقبال نے ضربِ کلیم میں ایک باب الگ باندھا ہے جس کا عنوان ’’سیاسیاتِ مشرق و مغرب‘‘ ہے۔ انٹرنیشنل ریلیشنز (بین الاقوامی تعلقات ) کے طلبہ کے لیے یہ ایک باب کئی کتابوں پر بھاری ہے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگِ عظیم کا درمیانی عرصہ اس باب کا موضوع ہے۔ ایک ایک شعر میں کئی کئی نکات ہیں ۔ سامراجی طاقتوں نے اس زمانے میں جو چیر پھاڑ شروع کررکھی تھی اس کا ذکر اقبال نے جس پیرائے میں جگہ جگہ کیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ شام وفلسطین کے انتداب کی طرف بھی انہوں نے پُرمغز اشارے کیے ہیں ؎
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار
تُرکانِ ’’جفاپیشہ‘‘ کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
تُرکانِ ’’جفاپیشہ‘‘ کا ذکر کرکے اقبال نے یوں سمجھیے ساری روداد بیان کردی کہ کس طرح کچھ ناعاقبت اندیش عربوں نے انگریزوں سے سازباز کرکے سلطنتِ عثمانیہ سے ’’آزادی ‘‘ حاصل کی۔ اسرائیل کے قیام میں اردن کے شاہ حسین کے دادا نے اہم کردار ادا کیا تھا! ایک نظم کا علامہ نے عنوان ہی ’’انتداب‘‘ رکھا ہے۔ اس کے دواشعار یوں ہیں ؎
جہاں قمار نہیں، زن تنک لباس نہیں
جہاں حرام بتاتے ہیں شغلِ میخواری
نظرورانِ فرنگی کا ہے یہی فتویٰ
وہ سرزمیں مدنیت سے ہے ابھی عاری
فرانس سے 1946ء میں شام کو رہائی تو ملی لیکن استعمار ، جیسا کہ استعمار نے ہرجگہ کیا، ایسا بیج بوچکا تھا جس کی فصل شام آج تک کاٹ رہا ہے۔ یورپ کے شاطروں نے چُن چُن کر اقلیتوں کو نوازا اور انہیں اکثریت کے مقابلے میں منفی انداز سے کھڑا کیا۔ 1923ء سے لے کر 1946ء تک فرانسیسیوں نے فوج میں اقلیتوں کو بھرتی کیا۔ ان اقلیتوں میں دروزی (انہیں نصیری بھی کہا جاتا ہے اور علوی بھی ) سرفہرست تھے۔ جب فرانسیسی گئے تو فوج میں علوی پینسٹھ سے سترفی صد تک ہوچکے تھے ! افسروں میں ان کی تعداد 1960ء میں نوے فی صد تک پہنچ گئی۔ 1958ء میں شام اور مصر کا اتحاد وجود میں آیا۔ اس اتحاد سے سنی اکثریت کی پوزیشن قدرے بہتر ہوئی لیکن شام نے 1961ء میں اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلی۔ بعث پارٹی پر دروزی اقلیت چھا گئی۔ سوشلزم اور سیکولرزم دونوں نعرے اس اقلیت کو راس آتے تھے۔ 1970ء میں جب دروزی فرقے سے تعلق رکھنے والے حافظ الاسد نے اقتدار پر قبضہ کیا تو وہ جو روایت تھی کہ ملک کا صدر سنی ہوتا تھا، وہ بھی ختم ہوگئی۔ حافظ الاسد نے اپنے رشتہ داروں اور ہم قبیلہ افراد کو چن چن کر اہم مناصب پر فائز کیا۔ عملی طورپر شام فرانس کے بجائے اس دروزی اقلیت کی کالونی بن کر رہ گیا جس کی آبادی ملک میں دس گیارہ فی صد سے زیادہ نہیں تھی !خفیہ سکیورٹی ایجنسیوں پر یہی لوگ چھائے ہوئے تھے اور اختلاف کرنے والوں سے ’’نمٹنے ‘‘ میں ہروہ طریقہ استعمال ہوتا تھا جس سے انسانیت کو شرم آتی تھی۔ قبیلہ نوازی اور اقربا پروری کا لازمی نتیجہ کرپشن ہوتا ہے اور اگلی منزل معیشت کی تباہی ہوتی ہے۔ شام کے ساتھ یہی ہوا۔ خوراک کی قلّت، بیروزگاری اور گرانی نے عوام کو پریشان کردیا۔ سنی اکثریت بغاوت پر اترآئی۔ اس میں اخوان المسلمون پیش پیش تھی۔ 3فروری 1982ء کی صبح بغاوت شروع ہوئی۔ باغیوں نے بعث پارٹی کے ستر بڑے بڑے لیڈر ہلاک کردیے اور حما کو ’’آزاد شہر‘‘ قرار دے دیا۔ حافظ الاسد نے خصوصی یونٹیں جو اس کے چھوٹے بھائی رفعت کی کمان میں تھیں، حما بھیجیں ۔ ستائیس دن شہر کا محاصرہ کیا گیا ۔ ٹینک اور بھاری توپخانے سے گولہ باری کی گئی۔ پھر قتلِ عام ہوا اور تیس سے چالیس ہزار لوگ
مارے گئے۔ پندرہ ہزار کا سراغ ہی نہ ملا۔ ایک لاکھ شہر بدرکردیے گئے۔ جب رفعت الاسد کو شک ہوا کہ کچھ باغی زیرزمین سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں تو اس نے سرنگوں میں ڈیزل ڈال کر آگ لگادی۔ ہر سُرنگ کے دہانے پر ٹینک کھڑے کردیے گئے۔ جان بچا کر بھاگنے والوں کو ٹینکوں کے گولوں سے اڑادیا گیا۔ شہرۂ آفاق صحافی رابرٹ فسک اپنی تصنیف 'Pity the Nation' میں لکھتا ہے کہ جب ٹینک اور فوجی دستے شہر کی طرف بڑھ رہے تھے تو شہری آبادی بھاگ رہی تھی اور اس کے پاس خوراک تھی نہ پانی !
سنی مدافعت کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس سے ایک بات شام کے لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ اپنی حکومت کی بقا کے لیے دروزی حافظ الاسد کچھ بھی کرسکتا ہے۔ آج جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ شامی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کیے اور یہ محض پروپیگنڈہ ہے وہ یا تو شامی دروزیوں کے ظلم کی استعداد سے ناواقف ہیں یا حالات سے بے خبر ہیں۔ ترکی حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ناقابلِ تردید شواہد مہیا کیے ہیں ۔ یہ ہتھیار ایک سے زائد مواقع پر استعمال کیے گئے۔ اس سے پہلے حلب ، المشارقہ اور کئی دوسرے شہروں میں بھی احتجاج کرنے والی آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
قریبی رشتہ داروں اور دروزی فرقے سے تعلق رکھنے والے انتہائی قابلِ اعتماد دوستوں کو مختلف اسامیوں پر اس طرح تعینات کیا گیا ہے کہ اڑھائی سال کی خونریز خانہ جنگی بھی اس حصار میں تاحال رخنہ نہیں ڈال سکی۔ بشارالاسد کا بھائی ماہرالاسد‘ ری پبلکن گارڈز کا کمانڈر ہے۔ ماہر کا برادر نسبتی محمد ہمشو، ہمشوانٹرنیشنل گروپ کا مالک ہے جو تعمیرات اور گھوڑوں کی نسل افزائی کی بہت بڑی کمپنی ہے۔ ماہرالاسد کا خطرناک ترین منصب دروزیوں پر مشتمل مسلح ملیشیا فورس کی کمان ہے۔ چچازاد بھائی اس فورس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ بشارالاسد کے ماموں کا خاندان‘ جسے مخلوف فیملی کہا جاتا ہے‘ ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر کا مالک ہے۔ دمشق میں خفیہ سکیورٹی ایجنسی کا سربراہ بھی بشارکا کزن ہے۔ پورے شام میں موبائل فون کی صرف دو کمپنیاں ہیں اور ایک کا چیئرمین اور نائب چیئرمین دونوں بشار کے قریبی عزیز ہیں۔ ملک کی واحد نجی ایئرلائن مخلوف خاندان کی ملکیت ہے۔ بری فوج ، فضائیہ اور وزارت داخلہ‘ تینوں کی خفیہ ایجنسیاں الگ الگ ہیں۔ تمام کی سربراہی خاندان کے افراد کے پاس ہے۔ ایک ایجنسی کا دوسری سے تعلق کم ہی ہوتا ہے۔ تمام اطلاعات سے بیک وقت آگاہی صرف بشارالاسد کو ہوتی ہے، حکومت کی مضبوطی کی ایک وجہ یہ احتیاط بھی ہے۔ کسی ایک ایجنسی کا سربراہ ایک خاص حد سے زیادہ طاقت ور نہیں ہوسکتا۔
خانہ جنگی کو اڑھائی سال ہورہے ہیں۔ بشارالاسد کی حکومت سنبھل چکی ہے۔ شدید خونریز لڑائیوں کے بعد بھی باغی بشارالاسد کے خاندانی حصار میں کوئی شگاف نہیں ڈال سکے۔ کوئی اہم عہدیدار منحرف نہیں ہوا۔ ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ اور فرانس باغیوں کی حمایت کررہے ہیں۔ ایران‘ عراق‘ چین اور روس بشارالاسد کی پشت پر کھڑے ہیں؛ تاہم روس نے کہا ہے کہ اگر اسے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ثبوت دکھایا جائے تو وہ امریکی حملے کی حمایت کرے گا ؎
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا