انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ھاتھوں اٹھائے جانے والے گمشدگان کہلاتے ہیں؛ سندھ میں"گمشدگیاں" تیز ہو گئیں۔
سندھ میں انٹیلیجنس ایجینسیاں سیاسی کارکنوں کو رات کے اندھیرے میں گھروں سے اٹھا کر غائب کر دیتی ہیں۔ گھروں سے ریاستی ایجنسیوں کے ھاتھوں اٹھائے جانے والے یہ سیاسی کارکنان بعد ازاں گم شدگان کہلاتے ہیں۔ ان کو بازیاب کرانے کی مہم چلائی جاتی ہے۔
پچھلے چند دنوں سے یہ سلسلہ کافی رفتار پکڑ گیا ہے۔ 3 اگست کو قاسم آباد پولیس سٹیشن کے سامنے سے 15 کے لگ بھگ باوردی افراد نے گم شدگان کی مہم میں پیش پیش ممتاز سیاسی اور سماجی کارکن پنہل ساریو کو اٹھا لیا۔ اس روز مزید جگہوں پر چھاپے مارے گئے اور کئی دیگر سیاسی کارکنان بھی اٹھائے گئے۔
اج 9 اگست 2017 تک جن کارکنوں کو اٹھائے جانے کی اطلاعات ہیں ان میں مسعود شاہ، گل رند،فیض رند، وحید بگھیو، عمران خشک، نجف لغاری، نصیر قمبر، محمد عمر اور پرتاب شیوانی شامل ہیں
انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ھاتھوں اٹھائے جانے والے یہ افراد اب گمشدگان کہلاتے ہیں۔ ان کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا، یہ ایک طرز کا ریاستی اغوا ہے اور کوئی ادارہ اسُکی زمہ داری لینے سے انکاری ہے۔ پولیس عدالتوں میں بیان دیتی ہے کہ ہم نے نہیں اٹھایا۔ ہمارے پاس نہیں ہیں۔ فوجی انٹیلیجنس ایجینسیوں کو عدالتوں میں بلانے کی کوئی جج جرات نہیں کرتا اور اگر وہ اتے بھی ہیں تا ان کا جواب پولیس کی طرح منفی ہوتا ہے۔
ریاستی سطح پر یہ کاروائیاں دھشت گردی کے خلاف اقدامات سمجھے جاتے ہیں جس میں قانون اور آیئن سے بالا بالا یہ اقدامات ضروری تصور ہوتے ہیں۔ "گمشدگان" افراد کی اگر کبھی خوش قسمتی سے باز یابی ہو جائےتو وہ بجا طور پر اتنے ڈرے ہوئے ہوتے ہیں کہ پبلک میں وہ ان کی نشاندھی کرنے سے گھبراتے ہیں۔ بلکل اسی طرح جب اپ کے گھر میں ڈاکو آ جائیں تو جب تک وہ گھر میں موجود رھتے ہیں اپ ان کے سامنے مکمل خاموشی اختیار کرتے ہیں جب وہ لوٹ مار کر کے چلے جاتے ہیں تو پھر پوری تسلی کرنے کے بعد کہ وہ کہیں قریب تو نہیں اپ اپنی زبان کھولتے ہیں۔
اس طرح افراد کو ریاستی سطح پر اٹھانا خود ریاست کے تمام طے کردہ اصولوں کے خلاف ایک عدم اعتماد ہے۔ یہ ایک غنڈہ گردی ہے، بدمعاشی ہے اور انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزی ہے۔
پاکستانی ریاست کو طے کرنا ہے کہ کیا اس قسم کے اقدامات سے دھشت گردی کم ہوتی ہے یا بڑھتی ہے۔ دھشت گردی جو کسی طرز اور کسی جواز کے ساتھ کی جاتی ہو بنیادی طور پر ایک پرتشدد سیاسی عمل ہے۔ جس کا جواب ان تمام وجوھات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے سے ہی دیا جا سکتا ہے
انفرادی دھشت گردی کو ریاستی دھشت گردی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
بلوچستان کے بعد اب سندھ میں گمشدگان کی تعداد حیران کن طور پر بڑھ رھی ہے۔
ان ایشوز پر عمران خان، میاں نواز شریف یا بلاول بھٹو کبھی کبھار تھوڑا بہت بیان جاری کرتے ہیں مگر کھل کر یہ نہہیں کہتے کہ یہ کیوں ہو رھا ہے اور کون کر رھاہے۔ بے بسی کا یہ عالم ہے کہ آصف زرداری کا گمشدہ مینجر جسے ریاستی اداروں میں سے ہی کسی ایک نے اٹھایا تھا کو عدالتوں کے بار بار احکامات کے باوجود مہینوں بعد کسی ویرانے میں خاموشی سے چھوڑ دیا گیا۔
کون ہے یہ جو کسی عدالت کا، آئین کا، قانون کا، بار بار مزاق آڑاتا ہے؟ پتہ سب کو ہے، بولتا کوئی نہیں میں بھی نہیں، کیونکہ ڈاکو ابھی گھر میں ہے، جب لوٹ مار کر کے چلا جائے گا تو پھر اوازیں اٹھیں گی۔
(نصیر قمبر، محمد عمر اور پرتاب شیوانی
اور پنہل ساریو)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“