میری بیوی ایک حادثے میں زخمی ہونے کے باعث پچھلے تین ماہ سے وینٹی لیٹر پر تھی. اسے ناگن چورنگی کے اسٹاپ پر اترنا تھا مگر اکیلی سواری کے باعث ڈرائیور نے بجائے اسٹاپ پر ویگن روکنے کے تقریباً سڑک پر ہی اسے اتار دیا. اترتے ہوئے پیچھے سے آتی بائیک کی ٹکر نے اسے فٹ پاتھ پر اچھال دیا جہاں فٹ پاتھ کا کنارہ لگنے سے اس کی گردن کے دو مہرے ٹوٹ گئے . ڈاکٹروں نے اب مکمل ناامیدی کا اظہار کر دیا تھا. میں اپنی ساری جمع پونجی خرچ کر کے بال بال قرضے میں جکڑا ہوا تھا. اب تو اپنے بھی مجھے دیکھ کر کنی کترا جاتے تھے کہ کہیں میں دست سوال نہ دراز کر دوں.
بہت بھاری دل سے آج میں نے ڈاکٹروں کو وینٹی لیٹر کی سوئچ آف کرنے کا اجازت نامہ دے دیا. میں رنجور ہی نہیں شرمندہ بھی تھا مگر کیا کروں میرے پاس اپنے اعضاء کے علاوہ بیچنے کو اور کچھ تھا ہی نہیں. غربت بڑی ظالم شہ ہے جیتے جاگتے انسان کو پل میں زندہ لاش میں تبدیل کر دیتی ہے.
میں انتہائی بےبس ہو کر اس کو جانے دے رہا ہوں. ڈاکٹروں کا بھی یہی کہنا تھا کہ اب ان کی واپسی ممکن نہیں، کیا فائدہ ان کو اذیت میں رکھنے کا.
جانے والوں کو بےبسی سے قطرہ قطرہ تہلیل ہوتے دیکھنا اور کچھ نہ کر سکنا حتی کے ان کے درد میں کمی تو دور کی بات اس میں شراکت بھی نہ کر سکنا انسان کی بے بسی کی انتہا ہے. میں اس کے بیڈ کے ساتھ کرسی جوڑے سورۃ یاسین کی تلاوت کر رہا تھا اور وقفے وقفے سے منجمد آنکھوں اور لب بستہ آہوں کے ساتھ اس کے بے حرکت وجود پر بھی نظر ڈال لیتا تھا. یہ میری متاعِ جان ہے جو میرے سامنے بےجان سی مشینوں سے گھری ہوئی تھی. زندگی سے بھرپور ہنستے کھیلتے وجود کو ساکت اور کسمپرسی کے عالم میں دیکھنا بھی آزار ہے، امتحان ہے. اللہ کسی دشمن کو بھی اس آزمائش سے نہ گزارے.
پتہ نہیں جانے والے دنیا چھوڑنے کے لیے تیار بھی ہوتے ہیں کہ نہیں؟ رشتوں کی ڈور توڑنا کب آسان ہے؟ خاص کر ماں کے لیے. میں نے اس کا ہاتھ سہلایا اور اس کی منت کی کہ میرے لے نہ سہی اپنے دونوں بچوں کے لیے ہی لوٹ آؤ. ہم سب کو تمہاری بہت بہت ضرورت ہے. مجھے آج ضمیر کی چبھن چین نہیں لینے دے رہی ہے. پتہ نہیں ہم مرد بیویوں کی محبت اور ان کے خیال لحاظ کو فور
گرانٹیڈ(for granted) کیوں لیتے ہیں. بیوی جب تک ہمارے کھینچی گئی لکیر پر سجدہ ریز ہے ہمارے کہے پر آمنہ صدقنا کہتی ہے ہم خوش ہیں . کبھی میں نے یہ جانے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اس کی خواہش اور خوشی کس بات میں ہے. میں آدھی تنخواہ اس کے حوالے کر کے گویا اس کی پشتوں پر احسان کیا کرتا تھا. میں نے ہمیشہ اس کی محبت اور خیال کو اس کی مجبوری سمجھا. میں آج واقعی پشیماں ہوں مگر میری شرمندگی اب کس کام کی؟ جیتے جی تو کبھی اس کو سراہا ہی نہیں. اس کو تو یہ بھی نہیں بتایا کہ میں اس سے کس قدر محبت کرتا ہوں. جانے میں احمقوں کی کس دنیا میں تھا کہ کبھی اس ڈر سے اقرار ہی نہیں کیا کہ بقول یار لوگوں کہ "پھر سر پر چڑھ کر ناچے گی" . پر اب اس اعتراف سے بھی کیا حاصل مگر مجھے یہ تو بتاؤ کہ میں تمہارے بغیر کروں گا کیا ؟ میری تو صبح تمہارے بغیر نہیں ہوتی. اگر اتنا جلدی جانا تھا تو میرے اتنے لاڈ اٹھا کر میری عادتیں کیوں خراب کیں. اب خاموش کیوں ہو؟ جواب تو دو. آگے کی تنہا زندگی میں تمہارے بغیر کیوں کر کاٹوں گا؟
تمہیں کس قدر ارمان تھا ثمرہ کی شادی کا. تم اکثر سبزی بناتے ہوئے "ساڈا چڑیا کا چمبا وے" گاتیں اور زار زار روتیں تھیں . اب یہ سب کیسے ہو گا کون ثمرہ کو وداع کرے گا؟ تم کو تو بہو لانے کی بھی جلدی تھی، تم کہتیں تھیں کہ بس فرخ کی نوکری کے ایک سال مکمل ہوتے ہی بہو لے آؤ گی. اب تمہارے بغیر یہ سارے خواب کیسے پورے ہوں گے .
مجھے آج اس پل جب میں ہمیشہ کے لیے تمہیں کھونے لگا ہوں تو یہ احساس ہوا کہ تم تو میری زندگی کا اٹوٹ حصہ ہو. میرے لیے ناگزیر ہی نہیں بلکہ میری عادت ہو. وہ جس کے لیے میری پیشانی کی شکن ناقابل برداشت تھی اور میرا سکون جس کا ایمان تھا وہ آج اتنی کھٹھور ہو گئی تھی کہ میری ہر فریاد ہر پکار صدا بہ صحرا تھی. ظالم نہ میری فریاد سنتی ہے اور نہ بچوں کی آہ و بکا. کوئی ایسے بھی روٹھتا ہے میری جان!
………….
تم نہ رو میرے محبوب کہ تمہارا گریہ میرا راستہ کٹھن کرتا ہے. مجھے اب جانا ہے کہ سب کے پاس بس وقت معین ہی ہے. نہ اس سے ایک لمحہ زیادہ نہ ایک لمحہ کم. میں ہراز چاہوں بھی تو رک نہیں سکتی. جو سچ کہوں تو تمہارے لیے تو نہیں مگر میں اپنے بچوں کے لیے ضرور رکنا چاہتی ہوں. خاص کر بیٹی کو چھوڑنے کا دکھ تو ہے ہی مگر اس کی تنہائی کی دہشت زیادہ ہے. بیٹیوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے. کسی سے کچھ کہتی سنتی بھی نہیں اور سہنے کی انتہا کر دیتیں ہیں. بیٹیاں ماؤں سے ہی تو اپنے دکھ سکھ کی شراکت کرتیں ہیں. ابھی تو ثمرہ کے انٹر کے امتحانات کے بعد مجھے اسے گھر داری سیکھانی تھی. لوگوں کو جانچنے اور پرکھنے کے اصول بتانے تھے . مجھے اپنے فرخ کے سر پر سہرا سجانے کا بڑا ارمان تھا. بہو کے لاڈ اٹھانے تھے. اپنے پوتے پوتیوں کو کہانیاں سنانی تھی.
میں نہیں جانا چاہتی قسم سے میرے حبیب میں نہیں جانا چاہتی مگر اس کے دربار میں کسی کی نہیں چلتی. جو اس کاتب نے کتاب تقدیر میں لکھ دیا سو لکھ دیا. اب ہمارے بیچ دائمی جدائی ٹھہر گئی ہے. ہمارا مشترکہ
اکیس سالہ زیست کا سفر اونچ نیچ کے باوجود ٹھیک تھا. تمہاری بےاعتنائی اور لاپرواہی نے دل کو بہت خون کیا مگر اب درگزر ، تمہارا بےجا غصہ بھی صرف نظر . پتہ ہے حبیب سارا قصور ہماری ماؤں کا ہے. وہ شوہر اور شوہر کے گھر سے ہی سارا سپنا وابستہ کر دیتیں ہیں. "میک اپ کرنا ہے" ، شوہر کے گھر جا کر کرنا. "گھومنے پھرنے کا شوق ہے" ، میاں کے ساتھ پورا کرنا. ہم یہ چھوٹے چھوٹے سے شوق اور خوابوں کی پوٹلیاں لیکر ڈولی چڑھتی ہیں اور پھر جب نصیب کی سختی سے تم جیسے میاں ملتے ہیں جو بیوی کو سراہنا غلط جانتے ہیں یا جن کے لیے محبت کا اقرار مردانگی کی ہتک ہے تو جانتے ہو کیا ہوتا ہے؟ ہم اپنے اندر ہی مرنے لگتی ہیں. وفاداری تو بےشک نبھاتی ہیں مگر تمہارا آمرانہ رویہ محبت کے سوتے کو خشک کر دیتا ہے. تم نے بےشک مجھے کھانے اور کپڑے لتے کی تنگی کبھی نہیں دی مگر کبھی مجھے سراہا نہیں، کبھی یہ احساس ہی نہیں دلایا کہ میں تمہارے لئے اہم ہوں، روٹی اور ہوا جیسی ضروری. تم نے مجھ سے میری شخصیت کا مان چھین لیا. تم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ جب مان چھن جائے تو آدمی کتنا ہلکا ہو جاتا ہے، کوڑی کا بھی نہیں رہتا. بس اب جینے سے جی بھر چلا ہے. مجھے بھی معاف کر دینا کہ میں تم پر بچوں کی بہت بھاری زمہ داری چھوڑے جا رہی ہوں. بچوں اور اپنا بہت خیال رکھنا.
مجھے اب جانے دو کہ درد پور پور میں بس چکا ہے. مجھ سے اب اپنی ٹوٹی ہوئی گردن کی اذیت سہی نہیں جاتی. میں بہت تکلیف میں ہوں . میں روتی ہوں، درد کی شدت سے تڑپتے ہوئے تم لوگوں کو پکارتی ہوں مگر میری پکار تم لوگوں تک جاتی ہی نہیں، لگتا ہے جیسے کسی شیشے کی دیوار سے ٹکرا کے لوٹ آتی ہے. بس جب تم لوگ میرا ہاتھ پکڑتے ہو یا میرا تلوے سہلاتے ہو تب درد میں قدرے تخفیف ہوتی ہے. بس اب بس، مجھے مت رکو میرے حبیب ! جانے دو. میری مشکل آسان کر دو.
الوداع میرے حبیب، الوداع میرے جگر پاروں الوداع .
میرے فرشتے آ گئے. موت کی اذیت اور تلخی بیان سے باہر ہے کہ ایسا کوئی لفظ ہی ایجاد نہیں ہوا جو اس سختی کو بیان کرنے پر قادر ہو. میں اتنا ضرور بتا سکتی ہوں کہ میرے بدن سے روح نکلتے ہی میں بالکل ہلکی پھلکی ہو گئی تھی.
تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل، اس کی طرف کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش، پس میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں چلی جا.
سورۃ فجر آیات مبارکہ ٢٨ تا ٣٠
وارڈ سے باہر نکلتے ہوئے میں نے پلٹ کر دیکھا حبیب ساکت سے میرے بےجان لاشے کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے. میری لاڈوں کی پالی ثمرہ بن جل مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی اور میرا صابر شاکر فرخ فق چہرے کے ساتھ اپنی بہن کو سنبھال رہا تھا. یہ اس خاکی دنیا کا آخری نظارہ تھا جو میری برستی آنکھوں نے دیکھا.
مجھے فرشتے تیزی سے ساتوں آسمانوں سے گزارتے ہوئے عرش پر لے آئے. یہاں فرشتے انتہائی مودب اور قدرے حراساں تھے. ایسا سکوت تھا کہ سوئی بھی گرے تو دھماکہ. یہ ایک دربار اعلی تھا. میری گردن کسی مجرم کی طرف جھکی ہوئی تھی اور میں رعب و دبدبے سے دم سادھے ہوئے تھی کہ اچانک فرشتے مجھے مبارک باد دینے لگے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے بری کر دیا گیا ہے اور میرا نامہ اعمال علیین میں ہے. یہ ایک ایسی خوش خبری تھی جسکا ہر مردہ متمنی ہوتا ہے. اس خوش خبری نے گویا مجھ پر شادی مرگ طاری کر دی. میرے ہمراہی فرشتے بہت خوش تھے اور انہوں نے کہا چلو تمہیں تمہارے اپنوں سے ملوا دیں.
مجھے فرشتے کہاں لے آئے ہیں؟ اس قدر حسین جگہ! ایسا دلفریب منظر تو میں نے دنیا میں کبھی نہیں دیکھا، کسی تصویر میں بھی نہیں. یہ حسن تو تصور سے بھی ماورا تھا. یہ ایک سر سبز پہاڑوں سے گھری حسین ترین وادی ہے جہاں جلترنگ بجاتے جھرنے اور خوب صورت چہچہاتے پرندے ہیں. لوگوں کا ایک ازدھام ہے.
ارے ارے یہ بھیڑ کو چیرتا ہوا کون تیزی سے بڑھتاچلا آ رہا ہے میری طرف ؟ اللہ میرا دل کیوں اتنی تیزی سے دھڑک رہا ہے؟
اللہ! اللہ! یہ تو امی ہیں اور اور ان کے پیچھے ابا بھی!
آف! مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا!
میں ان لوگوں سے زمانے بعد مل رہی ہوں. امی مجھے گلے لگا کر زار و قطار رو رہیں ہیں اور مجھے بےتحاشا چوم رہی ہیں. ابا کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہیں. میں اپنے سارے درد و غم اور تکالیف بھول چکی ہوں. اف اللہ! یہ کیسی خوش کن ساعت اور کیسی مبارک جگہ ہے. دل نےایسی خوشی و تازگی محسوس کی جس نے موت کی تلخی بھی بھلا دی. یہی تو جنت ہے.
کہتے ہیں جس کو جنت وہ اک جھلک ہے تیری
امی کی گود میں سر رکھ کر کیا لیٹی کہ واقعی یہی گمان ہوا کہ یہی تو جنت ہے. سکون ہی سکون تھا.
اب ایک لمبی نیند ہے یوم حشر تک پھر جنت سے نکالے ہوئے مکین ان شاء اللہ اپنے جائے قرار پر واپس .