آج جب کائنات، سیّارۂ زمین یا انسانیت سے متعلق کوئی بھی سوال ذہن میں اُٹھتا ہے تو ہم فوراً اُسے گوگل میں ڈالتے ہیں۔ ہر طرح کے آرٹیکلز نِکل آتے ہیں۔ آرٹیکلز سے بات سمجھ نہ آئے تو گوگل امیجز کو کلک کرتے ہیں اور اپنے متعلقہ موضوع پر ہم ہزارہا قسم کی تصاویر دیکھ لیتے ہیں۔ گوگل امیجز سے بھی سمجھ نہ آئے تو یوٹیوب پر جا کر ڈھونڈھتے ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک ویڈیو مل جاتی ہے جو متعلقہ سوال یا مسئلے کو لے کر اتنی تفصیل سے حل بتاتی ہے کہ عقل کی فوری تشفی ہوجاتی ہے۔ یہ انٹرنیٹ ہے۔
کسی قدر حیرت کی بات ہے کہ آج سے صدیوں پہلے بالکل ایسی ہی ڈیوائس کا تصور موجود تھا جسے اردو ادب کے لوگ ’’جامِ جمشید‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ جمشید بادشاہ کے پاس ایک جام تھا جس میں وہ شراب ڈالتا اور پھر اُس شراب میں وہ جو چاہتا دیکھ لیتا۔ پوری زمین کا ہر راز اس کے سامنے تصویروں اور ویڈیوز سمیت عیاں ہو جایا کرتا تھا۔
ان دونوں یعنی انٹرنیٹ اور جامِ جمشید کا ذکر فقط اِس لیے ایک ساتھ کیا کہ میری دانست میں گزشتہ کل میں انسان نے جس جس شے کی تمنّا کی اور اُسے متصور کیا، آج کے حال میں وہ مشہود ہو کر موجود ہے۔ یہ بات تو تقریباً سبھی کو معلوم ہے کہ ’’لیونارڈو ڈہ ونچی‘‘ نے آج سے پانچ سو سال پہلے ایسے راکٹوں کی تصویریں بنائی تھی جو چاند کا سفر کرتے ہیں۔ صدیوں بعد جب انسان چاند پر گیا تو بالکل ویسا ہی راکٹ بنایا جیسا ڈہ ونچی نے تصور کیا تھا۔ لیونارڈو نے راکٹوں کے علاوہ جہازوں، ہیلی کاپٹروں، ٹینکوں، توپوں اور دیگر کئی مشینوں کی پینٹگز بھی بنائیں۔ انسان کا ہواؤں میں اُڑنے کا خواب ہزاروں سال پرانا ہے اور انسان نے بالآخر اِسے پورا کر کے دِکھایا۔
تصور، زمانے میں آگے آگے اور تخلیق اُس کے پیچھے پیچھے سفر کرتی ہے۔ آج جدید فزکس، جدید بیالوجی، روبوٹس اور کمپیوٹرز کی موجودگی میں انسان کی تصور کرنے کی صلاحیت ماضی سے کئی گنا ترقی یافتہ ہے۔ آج کی فزکس سٹرنگ تھیوری کی منطق کی موجودگی میں مختلف ڈائمینشنوں اور بایں ہمہ متعدد کائناتوں کو تصور کرتی ہے۔ آج کی جدید بیالوجی انسانی ڈی این اے میں تبدیلیاں کر کے ایسی ایسی طاقتور مخلوقات کو پیدا کرنے کی اہل ہے جن کو ماضی کا انسان فقط تصورات میں دیکھا کرتا تھا۔
وکی پیڈیا جس کی حیثیت ابھی دوسرے انسائیکلو پیڈیاز کی نسبت ذرا بھی معتبر بھی نہیں، ایک لحاظ سے دنیا کا سب سے معتبر انسائیکلو پیڈیا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وکی پیڈیا کو تمام انسان مل کر ایڈٹ کرتے ہیں۔ اگر میں ابھی وکی کے کسی پیج کو ایڈٹ کرکے غلط بات لکھ دوں تو کل شام تک وہ دوبارہ ایڈٹ ہو جاتا ہے اور کہیں اور سے کوئی اور اس غلط بات کو دوبارہ درست کر دیتا ہے۔ یہ سلسلہ اِسی تسلسل سے جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب وکی پیڈیا دنیا کی واحد کتاب ہوگا۔ اگر کل کو ایک ایسا روبوٹ بنایا گیا جس کا دماغ ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو یعنی ورلڈ وائیڈ ویب سے جڑا ہو اور جو ہر سیکنڈ میں اَپ ڈیٹ ہوتی ہوئی معلومات کے اِس عظیم بھنڈار یعنی انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے ہر عمل کرتا ہو۔ اس پر مستزاد اگر اس روبوٹ کا جسم لوہے کا بنا ہوا نہ ہو بلکہ جاپانی کمپنیاں ایسا روبوٹ بنا دیں جو ہُوبہو انسانی شکل کا ہو تو وہ کیا چیز ہوگا؟ ذرا تصور کریں! ذرا تصور کریں کہ آپ کو ایک شخص ملتا ہے جو ہوبہو آپ کے جیسا انسان ہے اور آپ بالکل فرق نہیں کر پاتے کہ وہ اصلی انسان ہے یا روبوٹ۔ آپ اُسے انسان سمجھتے ہیں۔ اب تصور کریں کہ اس کے پاس معلومات کتنی ہیں؟ اس کا جی پی ایس سسٹم سیّارہ زمین کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہوگا اور وہ زمین کے کسی بھی کونے پر چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی آن ِ واحد میں ڈھونڈ لے گا۔ اس میں فیس بک کا تمام ڈیٹا ہوگا۔ موبائل کی مختلف ایپس، فیس بک اور دیگر ایسی ڈیوائسز جن میں ہماری تصویریں ڈیٹا کے طور پر اپ لوڈ کی گئیں، ان سب کی مدد سے وہ زمین کے ہر انسان کے نام، شکل وصورت، کام کاج، خاندان حتیٰ کہ ارادوں تک سے واقف ہوگا۔ ایسا کوئی روبوٹ تصور کرتے چلے جائیں۔ ایک وقت آئے گا کہ معاذاللہ آپ کو ایک علیم و بصیر و خبیر روبوٹ اِسی دنیا میں، انسانی شکل میں مل جائے گا۔
صدیوں پہلے جب ایسے تصورات کسی ذہن میں جگہ پاتے تھے تو بہت مشکل ہوتا تھا کہ ان کو خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے الگ کر کے حقائق کی دنیا میں دیکھا جاتا لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ آج کے تصورات فقط تصورات نہیں بلکہ یہ ’’الٹی میٹ کانسی کوئنسز‘‘ ہیں۔ ریاضی ہے، ڈیٹا اور انفارمیشن ہے۔ گویا ایسے تمام انہونے تصورات آج بہت منطقی ہیں۔ میں سوچتا ہوں اور سوچتا چلا جاتا ہوں کہ مستقبل کیسا عجیب و غریب ہوگا۔ اور یہ مستقبل کچھ اتنا زیادہ بھی دور نہیں۔ بہت ممکن ہے کہ ہماری اولادیں جو اِس وقت ہمارے ساتھ ہیں، کل کو ایسے ہی کسی مستقبل میں رہ رہی ہوں۔ بہرحال سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ حکایت کے مطابق جمشید بادشاہ کے پاس جتنی طاقت تھی، آج ہر انسان کے پاس اُتنی طاقت آگئی ہے۔ اس کے نتائج تو آنے والے کل میں ہی نکلیں گے نا۔ سو کل بہت ہی پراسرار اور عجیب و غریب ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“