پاکستان اِس وقت نقارخانہ ہے۔ اور ایک ایسا کارخانہ ہے جس میں بہت سی مشینیں بیک وقت چل رہی ہیں‘ بَن کچھ نہیں رہا لیکن شور وہ ہے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی۔ جنرل مشرف کی حالت اُس مجنوں جیسی ہے جس کے پیچھے سارے طفلانِ شہر سنگ بدست دوڑ رہے ہیں۔ ایسے میں میاں نوازشریف نے ایک بات کہی ہے اور اُن سے اختلافات کے باوجود اس کی تحسین کرنے کو دل اُمڈا پڑتا ہے۔ انہوں نے درد کے صحیح مقام پر انگلی رکھی ہے۔ اگر اِس مقام کی جراحی کی جائے تو بیماری کا خاتمہ یقینی ہے!سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے میاں صاحب نے کہا ہے کہ… ’’پرویز مشرف کی مدد کرنیوالوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے…‘‘ سچی بات یہ ہے کہ اس نکتے کے… جو میاں صاحب نے اٹھایا ہے… کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو تہہ در تہہ ہے۔ اس کے کئی مضمرات ہیں اور عواقب…فوجی آمر جب عوام کی گردنوں پر سوار ہوتا ہے تو تین قسم کی مخلوقات اس کی مددگار ہوتی ہیں‘ اول وہ فوجی افسر جو اس کے ساتھ سازش میں شریک ہوتے ہیں‘ شب خون مارتے ہیں اور پھر ناجائز اقتدار کو قائم رکھنے میں… اور دوام بخشنے میں معاون ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستانی فوج میں تاحال ایسی کوئی روایت نہیں کہ فوجی افسر اپنے سالار کی بات نہ مانیں اور فوج تقسیم ہو جائے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو آمر کیلئے انتہائی مددگار ثابت ہوتی ہے لیکن اس منفی پہلو کے باوجود پاکستانی فوج کی یہ صفت ملک کیلئے مثبت پہلو رکھتی ہے۔اس سے یہ نکتہ بھی نکلتا ہے کہ فوجی آمر کا ہاتھ بٹانے والے فوجی ایک لحاظ سے مجبور بھی ہوتے ہیں اور پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں انہیں بہت کچھ بادلِ نخواستہ کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ مسئلہ عسکری قانون کا ہے کہ کیا آمر کی مدد کرنے والے فوجیوں کو کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے؟آمر کو لانے میں جو فوجی فیصلہ کُن کردار ادا کرتے ہیں‘ کم از کم وہ یہ تو کریں کہ ہر آئے دن اپنا چہرہ عوام کو نہ دکھائیں کچھ حضرات جنہوں نے جنرل ضیا کو تخت نشین کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا‘ ہمیشہ پیش منظر پر رہنے کی سعی کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کی تصویریں دیکھ کر یا بیان پڑھ کر عوام کے سینے پر سانپ لوٹتے ہیں۔ انسان سے تو بچھو ہی زیادہ عزتِ نفس رکھتا ہے۔ اس سے کسی نے پوچھا کہ تم سردیوں میں کیوں نہیں باہر نکلتے‘ اُس نے جواب دیا کہ گرمیوں میں میری کون سی عزت ہوتی ہے کہ میں سردیوں میں بھی باہر نکل کر اپنی رسوائی کا سامان بہم پہنچائوں!دوم۔ فوجی افسروں کے بعد سیاست دانوں کا کردار فیصلہ کسن ہوتا ہے۔ اگر تمام سیاستدان متحد ہو کر فیصلہ کریں کہ کوئی ایک بھی کسی فوجی آمر کو سہارا نہیں دیگا تو چمڑے کے سکے دو دِن سے زیادہ نہ چلیں لیکن یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے کہ ہمارے سیاستدان رات کے اندھیرے میں اُن سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں جو سیاستدان نہیں تھے۔ اور پھر جب فوجی آمر آ جاتا ہے تو اس کے دست و بازو بن جاتے ہیں!لیکن سچی بات یہ ہے کہ سیاست دان ایک لحاظ سے سزا بھی ساتھ ہی پاتے جاتے ہیں۔ اُن کی مجبوری یہ ہے کہ وہ آمر کے ساتھ اپنے تعاون کو خفیہ نہیں رکھ سکتے۔ خاص کر الیکٹرانک میڈیا سے روپوش ہونا اور رہنا ناممکن ہے۔ یوں وہ اپنی تضحیک کا سامان خود ہی کرتے جاتے ہیں۔ اور عوام کے دلوں میں جس قدر نفرت اُن کیخلاف جمع ہو جاتی ہے‘ وہ بذاتِ خود ایک بہت بڑی سزا ہے۔ آپ اندازہ لگائیے‘ آج اُن سیاست دانوں کی… جو جنرل مشرف کے دست و بازو رہے‘ کیا وقعت ہے؟ آج ارباب رحیم اور ڈاکٹر شیرافگن کسی عوامی جگہ پر دیکھ لئے جائیں تو اُن کا کیا حال ہو! جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا انتہائی سنجیدہ مسئلہ صرف اس لئے چٹکیوں میں اُڑ گیا کہ اُس کے علمبردار جناب محمد علی درانی تھے‘ چودھری پرویز الٰہی نے جنرل مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرانے والی بات جتنی بار کہی تھی‘ اُس کا طعنہ اس سے کہیں زیادہ بار اُنہیں دیا جا چکا ہے۔ چودھری شجاعت حسین کے بے شمار کارٹون پریس میں آتے رہے اور اب بھی آ رہے ہیں۔ جناب طارق عظیم سے لے کر جناب گوہر ایوب تک جناب اعجازالحق سے لے کر جناب ہمایوں اختر خان تک اور جناب امیر مقام سے لیکر مولانا فضل الرحمن تک اور شیخ رشید تک وہ سارے سیاستدان جو جنرل مشرف کی مساعدت کرتے رہے‘ آج عوام کی نظروں میں ہیں۔ کئی سیاستدان انتخابات ہار کر بہت بڑی سزا پا چکے ہیں اور جنہوں نے انتخابات جیتے یا الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا‘ وہ بھی الیکٹرانک میڈیا پر آ کر تیز و تند سوالات کا سامنا کرتے رہے ہیں اور مسلسل کر رہے ہیں!اس سے پہلے کہ ہم مدد کرنے والوں کی خطرناک ترین۔ تیسری قسم کی بات کریں یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ آمر کی مدد ان تین کے علاوہ بھی کچھ گروہ کرتے ہیں جن میں علما و مشائخ‘ صحافی اور وکیل نمایاں ہیں۔ لیکن ہم ان گروہوں کا ذکر اس لئے نہیں کر رہے کہ ان کا مقابلہ بھی انہی کے ہم منصب کرتے ہیں اور یوں حساب برابر ہو جاتا ہے۔ تیسری قسم… افسر شاہی کے وہ ارکان ہیں جو آمر کا قرب حاصل کر لیتے ہیں اور پھر کوئی سیاستدان اُن کا ہم پلہ ہو سکتا ہے نہ کوئی فوجی افسر! بدقسمتی سے یہ گروہ ہمیشہ ’’گمنام‘‘ اور زیرِ زمین رہتا ہے! اندازہ لگائیے کہ آج کل کچھ معمر بیورو کریٹ حضرات جو لمبے لمبے مضامین تحریر کر رہے ہیں اور صحیح اور اصل جمہوریت کی خواہش میں دُبلے ہو رہے ہیں‘ اُن کے بارے میں کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ جنرل ضیا کے عمائدین اور مقربین میں سرِفہرست تھے؟ غلام اسحاق خان ہی کو لے لیجئے اگر جنرل ضیا انہیں سینٹ کا چیئرمین نہ بناتے تو شاید کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ جنرل ضیا اُن کے مرہونِ احسان تھے!میاں نوازشریف نے انتہائی اہم نکتہ اٹھایا ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ افسر شاہی کے اُن چند ارکان کو بھی کٹہرے میں لایا جائے جو جنرل مشرف کو چوبیس گھنٹے‘ سات دن اور بارہ مہینے مضبوط کرتے رہے۔ وہ جنرل مشرف کے قرب میں فوجی افسروں اور سیاست دانوں کو کوسوں پیچھے چھوڑ گئے۔ ان کے اختیارات وزیراعظم کو بھی مات کرتے تھے اور سول بیورو کریسی کے ارکان تو اُن کے سامنے بات کرنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ اسی طرح شوکت عزیز کے قریبی مددگار سول افسروں کا احتساب بھی ہونا چاہئے۔ بے زبان فائلیں گواہی دیں گی کہ کون کیا تجویز کرتا رہا؟آمر کی مدد کرنے والے فوجی افسر اور سیاستدان چھُپ نہیں سکتے اور جرم سے کہیں زیادہ سزا پاتے ہیں۔ لیکن ’’گمنامی‘‘ میں مزے اُڑانے والے سول سروس کے ارکان… جو آمر کی مضبوطی کے لئے ملک کو اور نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے ہیں… کیا وہ فوج اور اہلِ سیاست سے بہت زیادہ طاقتور ہیں کہ انہیں کٹہرے میں نہیں لایا جا سکتا…؟؟