جو قوم فیلڈ مارشل ایوب خان کے دعوت نامے کو جوتے کی نوک پر رکھنے والے ساغر صدیقی کو درویش ماننے کی بجائے ملکہ الزبتھ کے قصیدہ گو، فرنگیوں کے دئیے گئے خطاب,, سر،، کے ساتھ تادمِ مرگ برطانوی سامراج کے وظیفہ خور رہنے والے شاعر کو درویش منش مانتی ہے اس سے کسی فن کی قدر دانی کی توقع بیاباں میں مچھلی تلاش کرنے کے مترادف ہے.
لائل پور کی سرزمین نے بھی ایک درویش صفت شاعر کو جنم دیا ہے. ایسا ادبی مہتاب جو اپنی درویشی کے سبب عمر بھر گمنامی کی زندگی بسر کرتا رہا.
12 دسمبر 1947 عیسوی کو محمد صدیق کی ولادت تاندلیانوالہ کے جھوک خیال گاؤں میں ہوئی. اسی نسبت سے ان ناز خیالوی پکارا جاتا ہے. ناز ان قلمی نام تھا.
ناز خیالوی ایک عظیم شاعر تھے. اردو غزل کے نمائندہ شاعر مگر ان کی شہرت فقط,, گورکھ دھندہ ،، تک ہی محدود رہی. شاید نصرت فتح علی خان نے اُن کا کلام نہ پڑھا ہوتا تو آج میں بھی ان کے نام سے واقف تک نہ ہوتا. وہ اپنی قناعت پسندانہ اور خود دارانہ سوچ کے سبب گمنام شاعر کی طرح زندگی گزارتے رہے.قناعت پسندی پر فرماتے ہیں
بہت لذیذ نہیں ہیں مگر حلال تو ہیں
میں اپنے خشک نوالوں کی خیر مانگتا ہوں
وہ غربت کی زندگی بسر کرتے رہے اپنی غربت پر فرماتے ہیں
غربت مری غیرت کے قرینے میں ڈھلی ہے
فاقوں میں کسی در کی سوالی نہیں ہوتی
معیار ہے ناز کچھ اور ہی دادِ سخن کا
اشعار کی قیمت کبھی تالی نہیں ہوتی
اصل درویش صفت یہی شاعر تھے جو کسی ملکہ یا بادشاہ کی شان میں قصیدے لکھنے کی بجائے حق بات لکھا کرتے تھے اپنی اسی ادا پر فرماتے ہیں
میں حرفِ صداقت ہوں وہاں جچ نہ سکوں گا
دربار کے ماتھے پر نہ لکھوائیے مجھ کو
ایک اور جگہ فرماتے ہیں
میں شاہ کے الطاف سے ایسے ہی بھلا ہوں
خیرات کی پوشاک نہ پہنائیے مجھ کو
ناز خیالوی جیسے کہ پہلے بھی عرض کی ہے کہ غزل کے نمائندہ شاعر تھے. انہوں نے خود بھی اس امر کا اعتراف کر رکھا ہے کہ ان کو ذوق کو جِلا ہمیشہ غزل سے ہی ملی ہے. ان کی ایک غزل پیش خدمت ہے.
دل کا ہر زخم جواں ہو تو غزل ہوتی ہے
درد نس نس میں رواں ہو تو غزل ہوتی ہے
دل میں ہو شوق ملاقات کا طوفان بپا
اور رستے میں چناں ہو تو غزل ہوتی ہے
شوق حسرت کے شراروں سے جلا پاتا ہے
جان جاں دشمن جاں ہو تو غزل ہوتی ہے
کچھ بھی حاصل نہیں یک طرفہ محبت کا جناب
ان کی جانب سے بھی ہاں ہو تو غزل ہوتی ہے
شوکت فن کی قسم حسن تخیل کی قسم
دل کے کعبے میں اذاں ہو تو غزل ہوتی ہے
میں اگر ان کے خد و خال میں کھو جاؤں کبھی
وہ کہیں ناز کہاں ہو تو غزل ہوتی ہے
سرمایہ دارانہ نظام جو محنت کش طبقہ کا استحصال کررہا ہے. راقم کی طرح ناز خیالوی صاحب بھی اس کے مخالف تھے. فرماتے ہیں
چل رہی ہے ضرورتوں کی چھری
ملک میں ہر غریب زخمی ہے
سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت میں اکثر مزدور طبقے سے اظہارِ یکجہتی کرتے نظر آتے ہیں اور امراء کو دیکھ کر یہی خیال کرتے تھے کہ انہوں نے محنت کش کے خون سے دولت بنائی ہے.
کئی ڈھیر اس نے ریشم کے بنے تھے
یہ میت بے کفن جس کی پڑی ہے
مگر وہ فقط آہ و فغاں کے قائل نہیں تھے بلکہ انقلاب کے بھی قائل تھے. اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے کے بھی خواہاں تھے.
یا تو لہو سے خاک کا قرضہ اتار دے
مردانگی کا ورنہ یہ تمغہ اتار دے
بہرکیف کالم ان کے متعلق آگہی دینے کے لئے ہے. ہر موضوع زیرِ بحث نہیں لا سکتے. گورکھ دھندہ تو لاکھوں لوگوں نے سن رکھی ہے. پاپی پیٹ کی خاطر انہوں نے مختلف ملازمتیں کیں. ایف ایم 93 ریڈیو فیصل آباد سے وابستہ رہے. اور 27 سال تک ساندل دھرتی پروگرام کی میزبانی کرتے رہے.2000 عیسوی میں ان کو excellance in radio comparing award سے نوازا گیا. ویسے تو وہ صدارتی ایوارڈ کے بھی مستحق تھے مگر ہمارے ہاں فن کی قدر و قیمت خوشامد میں پنہاں ہے.ان کے دو شعری مجموعے شائع ہوئے,, سائیاں وے،، اور لہو کے پھول. اشاعت و تدوین کے معاملے میں کاہلی کے سبب ان کا بہت سارا کلام غیر مطبوعہ رہ گیا.
12 دسمبر 1910 عیسوی کو داغِ مفارقت دے گئے. سرزمین لائلپور میں مدفون ہوئے.