گلزار صاحب اس دنیا کے واحد انسان ہیں جنکی آواز ،شخصیت اور خیالات مجھے ہمیشہ منفرد ،انوکھے اور دلچسپ محسوس ہوتے ہیں ۔میں ان کی باتیں یا شاعری ایسے پڑھتا یا سنتاہوں جیسے مذہبی انسان الہامی باتیں پڑھتے یا سنتے ہیں ۔ دنیا انہیں شاعر،فلم ساز ،فلم ڈائریکٹر ،ڈائیلاگ رائیٹر یا گیت گار کے طور پر جانتی اور مانتی ہے ۔سمپورن سنگھ کالرا ان کا اصل نام ہے ،لیکن اب یہ ہمارے گلزار صاحب ہیں ۔گلزار صاحب 18 اگست 1934 کو پاکستان کے شہر جہلم کے ایک گاؤں دینا میں پیدا ہوئے ۔تقسیم کے بعد ان کا خاندان دینا گاؤں سے بھارت منتقل ہو گیا تھا ۔سب سے دلچسپ اور منفرد بات یہ ہے کہ سمپورن سنگھ سے گلزار بننے کے سفرمیں دلی میں کار مکینک کے طور پر کام کیا کرتے تھے ۔ان کے ابا ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ بیٹا توں لکھاری بننا چاہتا ہے ،ضرور بن ۔لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا اپنے بھائیوں کے ساتھ بہتررشتہ بناکر رکھنا کیونکہ لکھاری بننے میں کوئی کمائی نہیں ہے ۔گلزار صاحب کو بچپن ہی سے پڑھنے ،لکھنے کا بہت شوق تھا ۔اسی وجہ سے ان کی دوستی گیت کاروں ،لکھاریوں اور فلم سازوں سے ہو گئی ۔پرانے وقتوں میں لیجنڈری فلم ساز ہوا کرتے تھے جن کا نام تھا بیمل رائے ۔اس زمانے میں وہ ایک فلم بنا رہے تھے جس کا نام تھا بندھنی ۔فلم پر کام شروع ہوگیا تو عظیم موسیقار ایس ڈی برمن اور گیت کار شلندر کے درمیان کسی وجہ سے جھگڑا ہوگیا ۔بندھنی فلم میں دونوں کام کررہے تھے ۔ان کے جھغرے کی وجہ سے فلم ساز بیمل رائے پریشان تھے ۔اسی دوران گلزار صاحب کا ایک دوست انہیں بیمل رائے کے پاس لے گیا ۔فیصلہ کیا گیا کہ اب فلم بندھنی کے گیت گلزار صاحب لکھیں گے ۔اس طرح گلزار صاحب کی فلم انڈسٹری میں انٹری ہوئی ۔گلزار صاحب نے پہلا گانا لکھا تھا جس کے بول تھے مورا گورا انگ ۔یہ گانا بہت پسند کیا گیا ۔۔اسی دوران موسیقار ایس ڈی برمن اور گیت کار شلندر کے درمیان دوستی ہو گئی ۔اور گلزار صاحب فلم سے باہر ہو گئے ۔بیمل رائے نے اپنی اگلی فلم کے لئے گلزار صاحب کو اسسٹنٹ کا کام دے دیا ۔اب گلزار صاحب نے بطور اسسٹنٹ کام کرنا شروع کردیا ۔بیمل رائے نے گلزار صاحب کو کہا اب وہ کار مکینک کا کام نہیں کریں گے اور نہ ہی موٹر گیراج کے شور میں رہیں گے ۔انہوں نے گلزار صاحب کو کہا کہ وہ ایک باصلاحیت انسان ہیں اور اس کا ثبوت وہ ایک ایک گانے کی صورت میں دے چکے ہیں اس لئے اب وہاں نہیں جائیں گے ۔گلزار صاحب یہ سنتے ہی رو پڑے اور پھر اس طرح سے وہ ہندوستانی فلم انڈسٹری میں مکمل طور پر داخل ہو گئے ۔اس کے بعد گلزار صاحب کی دوستی موسیقار آر ڈی برمن سے ہو گئی ۔پھر گلزار صاحب نے گیت بھی لکھے اور ڈائیلاگ رائیٹر کے طور پر بھی پہچان بنانے لگے ۔گلزار صاحب ایک ایسے لکھاری اور ادیب ہیں جنہوں نے ہر جنریشن سے اپنا رشتہ بنائے رکھا ۔بطور گیت کار گلزار صاحب نے بڑے سے بڑے موسیقار کے ساتھ کام کیا ۔آرڈی برمن سے لکشمی کانت پیارے لال تک اور پھر اے آر رحمان سے وشال بھارت واج تک انہوں نے تمام تخلیقی انسانوں کے ساتھ کام کیا ۔ان تمام تخلیقی انسانوں کے ساتھ گلزار صاحب کا کام پسند کیا گیا ۔اس کے بعد فلم ساز بن گئے ،فلم ڈائریکٹ کرنا شروع کردی ۔ان کی بہت ساری فلمیں کامیاب ثابت ہوئی ۔ان کی فلموں میں آندھی ،کنارہ موسم وغیرہ ہیں ۔گلزار صاحب کی دوستی معروف اداکار اور فلم ساز سنجیو کمار کے ساتھ بھی خوب جمی۔گلزار کی شادی اپنے زمانے کی مشہور اداکارہ راکھی سے ہوئی ۔ان سے گلزار صاحب کی ایک بیٹی بھی ہیں جنکا نام میگھنا گلزار ہے ۔میگھنا گلزار ہندوستانی فلموں کی ڈائریکٹر ہیں ۔گلزار صاحب اور اداکارہ راکھی کا رشتہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا ۔دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے ۔گلزار صاحب اپنی بیٹی میگھنا سے بہت پیار کرتے ہیں ۔میگھنا کو وہ بوسکی کے نام سے بلاتے ہیں ۔بوسکی خانہ ان کے بنگلے کا بھی نام ہے جو ممبئی کے پوش علاقے میں واقع ہے ۔گلزار صاحب وہ تخلیقی ادیب ،لکھاری اور دانشور ہیں جنہوں نے ہر دور میں عزت کمائی ہے ۔گلزار صاحب کے آرٹ نے ہر انسان کا دل جیتا ہے ۔ان کے مشہور نغموں میں تیرے بنا جیا نہ جائے ،آپ کی آنکھوں میں کچھ مہکے ہوئے سے راز ہیں ،تم آ گئے ہو نور آگیا ہے ،وغیرہ ہیں ۔چھوٹی اسکرین ہو یا بڑی انہوں نے اپنے تخلیقی فن کو انوکھے انداز میں ثابت کیا ہے ۔ہندوستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ میں گلزار صاحب ہمیشہ روشن ستارہ رہیں گے ۔رابندر ٹیگور ،راجندر سنگھ بیدی ،کرشن چندر ،سردار جعفری ،فیض احمد فیض گلزار صاحب کی پسندیدہ شخصیات ہیں ۔گلزار صاحب کہتے ہیں انہوں نے بہت جگہوں اور بہت انسانوں سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔اس طرح راستے ملتے گئے ۔کچھ راستے خود تلاش کئے اور کچھ راستے خوش قسمتی سے ہاتھ لگتے گئے ۔زندگی کے جو جھونکے ہاتھ لگے وہ سنبھال لئے ۔بس یہی کامیابی کا راز ہے ۔گلزار صاحب کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق ہمیشہ ترقی پسند لکھاریوں سے رہا اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ایک خوش قسمت ترقی پسند لکھاری سمجھتے ہیں ۔گلزار صاحب کو بنگلہ زبان سے اور بنگال کے کلچر سے بہت محبت ہے ۔بنگال کی شاعری ،فوک گیت انہیں ہمیشہ اچھے لگتے ہیں ۔وہ شاعری اور آرٹ کے دلدادہ ہیں ۔گلزار صاحب کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی فلم لائن میں نہیں جانا چاہتے تھے ۔اور نہ ہی گانے لکھنے کا ان کو شوق تھا ۔انہیں صرف ادب سے محبت ہے ،انہیں صرف لٹریچر سے محبت ہے ۔وہ کہتے ہیں ان کا شعبہ ادب ہے ۔وہ صرف سکون سے لکھنا چاہتے ہیں ۔اس کے علاوہ اب وہ اور کچھ نہیں کرنا چاہتے ۔ان کا کہنا ہے کہ جو کام بھی کیا ،پوری ایمانداری کے ساتھ اسے نبھایا ۔گلزار صاحب کو غالب سے انتہا درجے کی محبت ہے ۔غالب کو وہ دنیا کا عظیم شاعر سمجھتے ہیں ۔کہتے ہیں غالب وہ انسان ہے جو ہر عام و خاص انسان کی بات کرتا ہے ۔ہر وقت انسان کی بات کرتا ہے اور ہر موقع پر کوئی نئی اور تخلیقی بات کرتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ غالب پر انہوں نے دس سال کام کیا اور پھر کہیں جاکر مرزا غالب جیسا عظیم ڈرامہ تخلیق ہوا۔جو بعد میں فلم کی شکل میں بھی ڈھا لا گیا ۔غالب پر بنایا گیا یہ سیریل ساڑھے چھ گھنٹوں پر محیط ہے ۔گلزار صاحب کا کہنا ہے کہ شاید یہی وہ بڑا کام ہے جو انہوں نے اب تک کیا ہے ۔کمال امروہی ،رئیس امروہی ،کیفی اعظمی ،مینا کماری ،نصیرالدین شاہ اور جگجیت سنگھ گلزار صاحب کو بہت پسند ہیں ۔کہتے ہیں بنگال سے رشتہ ٹیگور کی وجہ سے بنا ۔کہتے ہیں رابندر ناتھ ٹیگور کی کتاب گاڈنرز نے ان کی زندگی بدل دی ۔اگر وہ یہ کتاب نہ پڑھتے تو شاید اب بھی موٹر گیراج میں کام کررہے ہوتے ۔گلزار صاحب کے مطابق ٹیگور ان کے حقیقی گرو ہیں ۔ٹیگور کے لٹریچر کی وجہ سے انہیں بنگال کے کلچر ،زبان ،شاعری اور موسیقی سے محبت ہوئی ۔انہیں بنگال کے طور طریقے بہت پسند ہین ۔کہتے ہیں ان کے اندر آج بھی تقسیم کا درد چھپا ہے ۔کہتے ہیں انہوں نے تقسیم کے دوران دنگے دیکھے ،جلی ہوئی لاشیں دیکھی ۔سڑک پر جما خون دیکھا ۔لاکھوں انسانوں کو آنکھوں کے سامنے مرتا دیکھا ۔تقسیم بہت المناک اور دردناک تھی ۔کاش یہ تقسیم نہ ہوتی ۔آج بھی تقسیم کی تکلیف اس قدر شدید ہے کہ وہ کہتے ہیں انہیں ڈراؤنے خواب آتے ہیں ،جس کی وجہ سے انہیں نیند نہیں آتی اور وہ بیقرار ہوجاتے ہیں ۔گلزار صاھب کی تحریروں ،شاعری ،نغموں میں تقسیم کے درد کی عکاسی واضح طور پر نظر آتی ہے ۔کہتے ہیں اب پاکستان اور بھارت کی سرحدوں پر کچھ نہ کچھ گھاس اور جھاڑیاں اگ آئی ہیں ۔اب خون نظر نہیں آتا ۔ان کی اسی حوالے سے مہندی حسن کے حوالے سے ایک نظم ہے جسے میں سنا دیتا ہوں ۔مہندی حسن ان کے پسندیدہ گلوکار ہیں اور وہ ہمیشہ مہندی حسن کی غزلیں سنتے رہتے ہیں ۔نظم کچھ یوں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھوں کو ویزہ نہیں لگتا ۔۔۔۔۔۔سپنوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بند آنکھوں سے روز چلا جاتا ہوں میں سرحد پار مہندی حسن سے ملنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنتا ہوں ان کی آواز کو چوٹ لگی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور غزل خاموش ہے ۔۔۔۔سامنے بیٹھی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔لیکن ان آنکھوں کا لہجہ بدلا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔جب کہتے ہیں سوکھ گئے ہیں پھول کتابوں میں ۔۔۔۔یار فراز بھی بچھڑ گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔اب شاید ملیں گے خوابوں میں ۔۔۔۔۔ان کا تقسیم سے رشتہ بہت گہرا ہے ۔۔۔۔۔ایک انٹرویو کے دوران بھارتی ٹی وی چینل پر ان کا کہنا تھا کہ ان کا وطن جہلم پاکستان ہے ۔۔وہ وہاں پیدا ہوئے ہیں اور اس زمین کو ہی اپنا وطن سمجھتے ہیں ۔۔۔۔عورت کے بارے میں گلزار صاحب کا کہنا ہے کہ یہ کمال مخلوق ہے ۔۔۔۔کیونکہ یہ زندگی پید اکرتی ہے ۔۔۔۔عورت کو وہ دنیا میں سب سے زیادہ تخلیقی مخلوق مانتے ہیں ۔۔۔کسی نے ان سے سوال کیا کہ کیا اس آسمان سے آگے اور آسمان ہیں ؟تو اس پر گلزار صاحب کہتے ہیں وہ آسمان نظر نہیں آتے ،لیکن سوچ اور سمجھ میں تو آتے ہیں ۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ اور دنیا ہے اس دنیا کے آگے ۔۔۔کہتے ہیں کہ اتنی بڑی کائنات اور انسان سمجھے کہ بس وہ ہی وہ ہے ایسا ممکن نہیں ۔۔۔۔اور کوئی نہیں ایسا ہو نہیں سکتا ۔۔۔۔ان کے مطابق ہر لمحے نئی کائناتیں تخلیق ہورہی ہیں ۔نئے سورج ابھر رہے ہیں ۔۔۔کائنات پھیل رہی ہے ۔۔۔اس کا جواب بس لامحدود ہے ۔۔۔۔ہم تو اس کائنات کی ایک چھوٹی سی گیلکسی میں ہیں ۔۔۔اس کائنات میں تو اربوں ،کھربوں ستارے ،سیارے اور سورج ہیں ،کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے علاوہ اس کائنات میں اور کوئی نہ ہو؟ان کی ایک نظم اسی حوالے سے ہے وہ اس کہانی میں آپ کو سنادیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔تھوڑے سے کڑوروں سالوں میں ۔۔۔۔۔۔سورج کی آگ بجھے گی جب ۔۔۔۔۔اور راکھ اڑے گی سورج سے۔۔۔۔۔۔اور جب کوئی چاند نہ ڈوبے گا ۔۔۔۔۔اور کوئی زمیں نہ ابھرے گی ۔۔۔۔۔تب ٹھنڈے بجھے ایک کوئلے سا۔۔۔۔ٹکڑا یہ زمیں کا گھومے گا ۔۔۔۔۔۔بھٹکا بھٹکا ۔۔۔۔۔۔مدہم مدہم ۔۔۔۔خاکستری روشنی میں ۔۔۔۔۔میں سوچتا ہوں اس وقت اگر ۔۔۔۔۔۔کاغذ پر لکھی ایک نظم ۔۔۔۔۔اگر کہیں اڑتے اڑتے ۔۔۔۔۔سورج میں گرے ۔۔۔۔اورسورج پھر سے جلنے لگے ۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...