گلزار صاحب اور جاوید اختر
دن ایک بجے کا وقت تھا ۔میں گہری نیند میں تھا ۔دروازہ بجا اور اس شدت سے بجا کہ میں خوف زدہ ہو کر اٹھ بیٹھا۔ فیصلہ کر لیا کہ آج جو کوئی بھی ہوگا ،اس کی خیر نہیں۔دروازہ کھولا تو سامنے دوست دھوپ میں کھڑا میرا انتظار کررہا تھا ۔مجھے دیکھتے ہی وہ غصے سے بولا،یار سینکڑوں مرتبہ کال کی ،توں موبائل اٹھاتا ہی نہیں ،شدید دھوپ اور دوست کی گرما گرم کیفیت دیکھ کر میں خاموش رہا ۔دوست کی بے چینی اور تکلیف کو دیکھتے ہوئے میں نے کہا ،چند منٹ انتطار کر،منہ دھوکر آتا ہوں ۔پیچھے سے اس نے غصیلی آواز میں کہا ،جلد آنا ،دھوپ میں کھڑے کھڑے کہیں میں خدا کو پیارا نہ ہوجاوں۔جلد سے میں نے منہ دھویا ،صوفے پر پڑی پینٹ پہنی اور سامنے لٹکتی شرٹ زیب تن کی اور فوری باہر نکل گیا ۔دوست نے کہا ،یار آپ نے خود ہی کل کہا تھا کہ دن بارہ بجے آجانا فکشن ھاؤس جانا ہے اور وہاں سے گلزار اور جاوید اختر کی تحریر کردہ کتابیں خریدنی ہیں ۔ پندرہ منٹ تک دروازہ کھٹکھٹا رہا ،آپ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔دوست کی کڑوی کسیلی باتیں میں نے مسکراہٹ اور زندہ دلی کے انداز میں برداشت کی ،وجہ صاف تھی ۔قصور میرا تھا ۔موٹر بائیک پر بیٹھتے ہی، اس نے کہا ،کہاں جانا ہے ،میں نے کہا پارک ،غصے سے بولا ،دوپہر کا وقت ہے ،اتنی گرمی میں پارک کیوں جانا ہے؟ اس کی بات پر میں خاموش رہا، ،بائیک سیدھا پارک کے گیٹ پر جاکر رک گئی ۔ہم دونوں پارک میں ایک سایہ دار درخت کے نیچے جاکر بیٹھ گئے ۔وہ موبائل سے موسیقی کا لطف لینے لگا اور میں درخت کے نیچے سبز میدان پر آسمان کی طرف چہرہ کرکے لیٹ گیا ۔آسمان پر ہر طرف کوؤں کا راج تھا ۔ آسمان پر پرواز کرتے کوؤں کی پرواز اس قدر حسین اوردلکش تھی کہ میں اس منطر میں کھو کررہ گیا ۔ کوؤں کا رقص جاری تھا ۔اچانک دوست سے پوچھا ،یہ آسمان پر آج کوے کچھ زیادہ ہی خوش دیکھائی نہیں دے رہے۔اس نے پہلی مرتبہ نرم لہجے میں کہا ،دوست لگتا ہے آج ان کا کوئی فیسٹیول ہورہا ہے ۔اس لئے سب کے سب بہت خوش و خرم دیکھائی دے رہے ہیں۔اسی دوران کوؤں کے جھرمٹ کے کچھ اوپر مسافر طیارہ نطر آیا ۔میں نے کہا ،واہ کیا منطر ہے ۔کیا خوبصورتی ہے ۔دوست میری اس بات پر مسکرایا ،اور کہنے لگا ،اجمل جی ،آپ نہیں سدھریں گے ۔اس پر ہم دونوں مسکرائے ۔اس نے کہا اجمل جانتے ہو ،یہ پرندے اور جانور انسان سے زیادہ خوبصورت اور بھرپور لائف انجوائے کرتے ہیں ۔باتیں ہوتی رہی ۔دو گھنٹے بیت گئے ۔اب سنجیدہ گفتگو شروع ہو گئی۔جب تشدد کے مسئلے پر بات ہوئی تو میں نے دوست سے پوچھا ،انسان تشدد پسند ہوتا ہے یا جانور؟اس نے کہا ،تشدد پسندی انسان کی فطرت نہیں ہے ۔انسان تشدد پسند اپنے خیالات،نظریات کی وجہ سے بنا ہے ۔یہ سب اختلافات نظریات کی وجہ سے ہیں ۔جس دن انسان نے ان آلودہ نطریات سے چھٹکارہ پالیا ،اسی دن سے یہ بھی اپنی فطرت کی طرف وآپس لوٹ آئے گا ۔یہ تشدد پسندی کا ٹھپہ ماضی کی بدصورتی کا نتیجہ ہے ۔ماضی سے جان چھڑانے کی دیر ہے ،دنیا جنت کا منظر پیش کرتی نظر آئے گی ۔انسان کی تشدد پسندی کی وجہ وہ شرائط ہیں جو لاکھوں کروڑوں سالوں سے اس کے زہن و روح پر سوار ہیں ۔خونخوار جانوروں اور درندوں میں تشدد پسندی فطری ہے ۔یہ ان کی جبلت کا حصہ ہے ،اس لئے شیر اور بھیریئے قید کئے جاتے ہیں ۔انسان فیصلہ کرلے تو وہ تشدد پرستی سے نجات پاسکتا ہے اور اگر وہ فصلہ کر لے تو وہ تشدد کر بھی سکتا ہے ۔اب تو حالت یہ ہے کہ انسان قتل و غارت کے معاملے پر خونخوار درندوں اور جانوروں سے بھی آگے نکل چکا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وحشی اور خونخوار بھیریئے قتل و غارت گری فطری جبلت کی وجہ سے کرتے ہیں ۔ان کا کام ہی حملہ کرنا اور چیڑ پھاڑ کرنا ہے ۔لیکن انسان تو منصوبہ بندی سے ظلم و جبر کرتا ہے ۔کیا کبھی سنا کہ خونخوار جانوروں نے کروڑوں جانور قتل کردیئے ہوں ۔لیکن انسانوں نے ایسا کیا ،کیا ہٹلر ،موسولینی ،چنگیز خان اور تیمور لنگ نے لاکھوں کڑوروں انسان قتل نہیں کئے ،اور یہ تمام قتل وغارت گری منصوبہ بندی کے تحت کی گئی اور اس قتل وغارت گری کے پیچھے نظریات کا عمل دخل رہا ہے ۔دوست نے کہا ،انسان وہ واحد جانور ہے جو دوسرے انسانوں کا قتل منصوبہ بندی سے کرتا ہے ،اس لئے اگر وہ چاہے تو مذاہب ،خدا اور نطریات کے نام پر قتل کرنا بند بھی کرسکتا ہے ؟یہ دیکھو پاک بھارت سرحد پر ہر وقت فائرنگ ہوتی رہتی ہے ،ہم انسان ہی پاکستان اور بھارت میں جاسوس بھیجتے ہیں اور ایک دوسرے کو بم دھماکوں سے ہلاک کرتے ہیں ۔یہ سب انسان ایک دوسرے کو منصوبہ بندی سے قتل کرتے ہیں اور اس کے پیچھے قومی مفادات کا نظریہ ہوتا ہے ۔پاکستان اور بھارت کے تمام وحشی جانوروں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کردیا جائے تو وہ کبھی ایک دوسرے کا قتل عام نہیں کریں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو قومی مفاد ات کا علم نہیں ہوتا ۔یہ قومی اور عالمی نطریات اور الہامی یا غیر الہامی مذاہب سے ناواقف ہوتے ہیں ۔اس طرح کا ان کا کوئی ماضی نہیں ہے ،اس لئے یہ ایک دوسرے کو قتل نہیں کریں گے ۔لیکن اگر پاکستان اور بھارت کے انسان آمنے سامنے آجائیں تو یہ تمام ایک دوسرے کا قتل کردیں گے اور اس خطے کو قبرستان بنادیں گے ۔انسان زہین دیکھائی دیتا ہے ،جب کسی کا قتل کرتا ہے تو اس کی عقلی دلیل بھی دیتا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ میں نے اس لئے اسے قتل کیا کہ وہ احمدی تھا ،اس لئے قتل کیا کہ وہ شیعہ مسلمان تھا ،اس لئے قتل کیا کہ وہ بھارتی جاسوس تھا ،وہ غدار تھا ۔وہ کافر تھا ۔انسان ہمیشہ قتل کی وجوہات دیتا ہے اور وہ وجوہات مذہبی ،غیر مذہبی قومی و غیر قومی نظریات ہیں ۔خونخوار جانور منصوبہ بندی سے قتل عام نہیں کرتے ،وہ وجوہات کے بغیر حملہ کرتے ہیں اور یہی ان کی فطرت ہے ۔تشدد کرنا انسان کا انتخاب ہے ،اس کی فطرت نہیں ۔اس لئے جو جرائم اور قتل و غارت منصوبہ بندی کے تحت کئے جاتے ہیں وہ زیادہ بھیانک اور ظالمانہ ہوتے ہیں ۔باتیں کرتے کرتے مغرب کا وقت ہو گیا ۔میں نے کہا بھائی یہاں سے جلدی چلو ،فکشن ھاؤس بند ہوجائے گا ۔میں نے مشہور افسانہ نگار،اسکرپٹ رائیٹر اور شاعر گلزار صاحب پر تحریر کردہ نئی کتاب ۔۔۔۔آواز میں لپٹی خاموشی ۔۔اس کے علاوہ شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر کی شاعری کی نئی کتاب لاوا بھی لینی ہے ۔ہم دونوں وہاں سے اٹھے اور فکشن ھاؤس پہنچ گئے ۔فکشن ھاؤس پر ویرانی کا سماں تھا ۔باہر کھانے پینے والی دکانوں پر رش ہی رش تھا اور خوب چہلپہل تھی۔لیکن کتاب کی دکان قبرستان کا منطر پیش کرتی نظر آئی ۔میں نے دونوں کتابیں خریدی ۔۔۔باہر نکلتے ہی دوست نے کہا ہمارے ملک میں قتل و غارت گری کی یہی وجہ ہے کہ کتابوں کی دکانیں قبرستان کا منطر پیش کررہی ہیں اور کھانے پینے کی دکانوں پر رش ہے ۔ہم دونوں بغیر نمبر پلیٹ والی بائیک پر بیٹھ کر پریس کلب چلے گئے ۔سبزی خوری کی اور وہاں سے سیدھا جاوید اختر اور گلزار جی کو لیکر گھر پہنچ گئے ۔۔۔دوست نے کہا ،رات بہت ہو گئی ہے ۔اب میں گھر کو چلتا ہوں ۔یاد رکھنا جاوید اختر اور گلزار جی عید کی چھٹیوں تک تمہارے ساتھ رہیں گے ۔ان کے ساتھ یہ دن خوب انجوائے کرو ۔عید کے دو دن بعد دونوں کو میں اپنے ساتھ لے جاؤں گا ۔دوست کی شاعرانہ ادا پر خوشی ہوئی ۔وہ گھر چلا گیا اور میں اپنے کمرے میں آکر بستر پر ڈھیر ہو گیا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔