(Last Updated On: )
سید تقی حسن عابدی اردو ادب کے افق کا وہ تابندہ ستارہ ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔سید تقی عابدی خلق خدا کی خدمت بطور سرجن تو کرتے ہی ہیںاس کے ساتھ ہی اردو زبان وادب کی خدمت میں لگے رہنا بھی ان کی زندگی کااہم حصہ ہے۔وہ ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں ۔انھوں نے بیک وقت شاعر،ادیب ،نقاد، محقق کی حیثیت سے کئی اہم ادبی کارنامے انجام دیے ہیں۔اردو اورفارسی ادب میں اپنی تحقیقی و تنقیدی تخلیقات سے بیش بہا اضافے کیے اوراپنی ادبی خدمات سے اردو زبان کا دامن وسیع کیا۔اردو کے نامور شعرا مرزا اسداللہ خاں غالب،محمداقبال،انشاء اللہ خاں انشاء،مرزا دبیر ،میر انیس،فیض احمد فیض،رشید لکھنوی،مولانا حالی،فراق گورکھپوری،فانی بدایونی وغیرہ کے کلام پر ان کی طائرانہ نظر رہی ہے لہذا تصنیف وتالیف کا سلسلہ اب بھی یوں جاری وساری ہے۔اسی ادبی سلسلے کی ایک کڑی ان کی تنقیدی کتاب’گلزار کی تخلیقی صنف تروینی تشریح و تجزیہ ‘‘ ہے ۔جس میں گلزار کی تخلیقی صنف’’ تروینی‘‘ پرمدلل تجزیہ کیا گیا ہے۔اقسام شعر میںموضوع اور ہئیت کے بنا پرمختلف ا صناف مثلا رباعی ،قطعہ،غزل ،قصیدہ،مثنوی،ترجیح بند،مرثیہ،ترکیب بند،مستزادو مسمط،وغیرہ آتے ہیں ان ہی میں سے ایک صنف تروینی ہے جو تین مصروں پر مشتمل ہے۔تروینی مذکورہ اصناف سے حد درجہ مختلف ہے کیونکہ اس کے دو مصرعے ایک مکمل شعر کی اکائی میں ہوتے ہیں اور تینوں مصرعے ردیف و قافیہ کی پابندی سے آزاد بھی ہوتے ہیں۔
دراصل تروینی کوکئی مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے ۔جاپان میں ہائیکو،اردو میں ثلاثی،پنجابی میں ماہیا وغیرہ کے نام سے یہ کافی معروف رہی ہے لیکن گلزار کی تروینی ان سبھی اصطلاحات سے مختلف ہے۔کیونکہ ان کی ترینی کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔اس میں جہاں ایک رخ واردات عشقی کیفیات ہیں وہیں حادثات زمانہ کے احوال بھی ہیں،ان کی ترینی محض عشق و محبت تک محدود نہیں بلکہ معاشرتی و اخلاقی مضامین بھی اس میںشامل ہیں۔قدرتی مناظر کی منظر کشی،معاملاتی زندگی کی تلخیاں،سماجی حالات کی عکاسی ان کی تروینیوں کا حصہ ہیں۔مثلا
بھیگا بھیگا سا کیو ںہے یہ اخبار
اپنے ہاکر کو کل سے چینج کرو
پانچ سو گائوں بہہ گئے اس سال
یا
زمین اس کی ،زمین کی یہ نعمتیں اس کی
یہ سب اسی کا ہے،گھر بھی،یہ گھر کے بندے بھی
خدا سے کہیے ،کبھی وہ بھی اپنے گھر آئے
اس قدر تلخ حقیقت کانرم لہجہ میں طنزیہ اندازبیان شایدہی کہیں اور ملے ۔ آسان اورسادہ الفاظ میں خدا،سماج،سیاست سب کی حقیقت مختصر سے تین مصروں میںروانی وتسلسل سے بیان کر دینا کوئی آسان نہیں ۔تروینی کا یہی انداز بیان اسے دوسری اصناف سے بلکل جدا کرتاہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گلزار کی جدت پسندی نے شاعری میں خاص طور سے غزلوں اور نظموں میں نئی امیجری کے ساتھ ساتھ اردوشاعری کی نئی صنف یعنی تروینی سے بھی متعارف کرایاہے۔تین مصروں پر مشتمل یہ صنف حقیقت وتخیل کی آمیزش خیال مسلسل کی عکاسی کرتی ہے۔
بقول گلزار:
’’تروینی کے پہلے دو مصرعے گنگا جمنا کی مانند ملتے ہیں جس ایک شعر کو مکمل کرتے ہیں
اس میں ایک خیال ،ایک تصور،ایک جذبہ ہوتا ہے۔لیکن دو دھاروں کے نیچے ایک اور
ندی ہے سرسوتی کی ندی جو بظاہر پوشیدہ ہے مگر تروینی میں تیسرے مصرعے کا کام یہ
سرسوتی دکھاتی ہے۔ (ص ۳۸)
دراصل دو مصروں کا آپسی تعلق تیسرے مصرعے کو عمیق گہرائی عطا کر کے قاری پر ایک ایسی کیفیت طاری کرتا ہے کہ جس میں فکرکے کئی زاویے ذہن میںہلچل پیدا کردیتے ہیں ۔یہ ایک ایسی صنف ہے جس میںہر طرح کا موضوع نظم کیا جا سکتا ہے ۔چاہے وہ انسانی زندگی کا المیہ ہو یاموت کی روداد،دنیاکی بے ثباتی ہو یاانسان کی بے کسی ہرفلسفہ ان میں موجود ہے۔ان تروینیوں میں موت اور زندگی کے بکھرے موتیوں کو گلزارنے کچھ اس منفرد انداز میں پرودیا ہے۔ مثلا
زندگی کیا ہے جاننے کے لیے
زندہ رہنا بہت ضروری ہے
آج تک کوئی بھی رہا تو نہیں
یا
کیا پتہ، کب کہاں سے مارے گی
بس کہ میں زندگی سے ڈرتا ہوں
موت کا کیا ہے ایک بار مارے گی
زبان کے مسئلہ پر لڑ رہے افراد کی صورت حال تین مصروں میں یوں پیش کی ہے کہ طنزو مزاح کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔
وہ دونوں دعویدار تھے اپنی زبان کے
اردو تری زبان نہیں ،ہندی مری نہیں
دو بے ادب کو انگریزی میں لڑتے ہوئے دیکھا
ان تروینیوں کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زندگی کے کینوس پر مختلف رنگوں کو بکھیردیا ہے اور یہ رنگ بکھر کر بھی نئی اور دلچسپ تصویر بنا رہے ہوں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گلزار کی تخلیق کردہ تروینیوں کو یکجا کر کے تقی عابدی نے اردو شعری ادب میں خاص اضافہ کیاہے ۔ کتاب کو مرتب کرکے نہ صرف گلزار کی شاعری بلکہ ان کی حیات کا خاکہ اور یہ سوال کہ گلزار اکیسویں صدی کے شاعر کیوں ہے ؟کے حوالے سے ادب میں ان کی معنویت ،اردو زبان سے محبت،دنیائے اردو میں ان کی حیثیت کو ثابت کرکے بلاشبہ ایک اہم کام انجام دیا ہے۔
چونکہ تقی عابدی کا شوق تحقیق وتنقید ہے لہذا اس میدان میں انھیں پوری گرفت حاصل ہے اوراپنی اسی علم فہمی کا فائدہ اٹھا کر عابدی نے صنف تروینی کی مختصر مگر جامع ومستند تاریخ پیش کردی ہے۔تروینی کی ہیئت ،معنوی ساخت،محاسن ولوازم کی روشنی میں بحث کرکے منتخب تروینیوں کا اجمالی جائزہ لیا ہے جس سے تروینی کے ان گوشوں پر روشنی پڑتی ہے جن پر ان سے پہلے کسی نے توجہ نہیںدی ۔دراصل تقی عابدی نے ان موضوعات پر توجہ دی جن پر بہت کم لکھا گیا۔ان کی تخلیقات ان ہی منفرد اورانوکھے موضوعات سے بھری پڑی ہے۔شعرو ادب کے تعلق سے ان کے عزم و ہمت،جذبہ وشوق کی داد دینی پڑے گی کہ انھوں نے تحقیق کے دشوار گزار مرحلوں کو نہایت خوش اسلوبی سے طے کرکے اردو ادب میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔تنقید تخلیقی ادب میں شمار ہوتی ہے لہذا گلزار کی شاعری کاتشریحی وتجزیاتی تفصیلی جائزہ پیش کر کے تقی عابدی نے تنقیدی بصیرت کا اعلی نمونہ پیش کیا ہے۔اس سے پہلے بھی گلزار پر کئی تنقیدی مضامین لکھے جاچکے ہیں مگر گلزار کی شعری نکات کا اتنی باریکی سے تفصیلی وجامع تنقیدی جائزہ لینے کا سہرا تقی عابدی کے سر ہے جو بلا شبہ قابل تحسین ہے۔وہ خود اس بات اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔لکھتے ہیں:
’’لیکن پھر بھی یہ ایک بڑا قرض ہے جو اردو ناقدین اور شارحین کو چکانہ چاہیے۔شاید اس کی قسط جلدمیں خود ادا کروں ‘‘
(ص،۲۰۰)
مذکورہ عبارت اردو زبان اور اس کے خدمت گزار کے تئیں تقی عابدی کی عقیدت اور والہانہ جوش کو مظاہرہ کرتی ہے۔ لہذاتقی عابدی نے اس قرض کو کتابی صورت میں ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ ایک ایسی مشعل راہ ہے جو بلاشبہ ہمارے علم میں اضافہ کرتی ہے۔ان کی اس کاوش کاتفصیلی جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ اس کتاب کے مختلف گوشوں کا مختصر تعارف کرایا جائے ۔جس سے قاری متاثر ہوتا ہے اور یہی تاثر کتاب کے ورق بہ ورق پلٹنے کے لیے اسے مجبور کر دیتا ہے۔کتاب کی ابتداء اس خوبصورت عبارت ’’رو میں ہے رخش عمر‘‘سے ہوتی ہے جس میں عابدی نے اپنا تعارف پیش کیا ہے۔جو ان کی ادبی حیثیت کوظاہر کرتا ہوامختصر سا خاکہ ہے۔اگلے صفحہ پر گلزار صاحب کے ساتھ مسکراتی ان کی تصویر گلزار سے محبت و عقیدت کی تصدیق کرتی نظر آتی ہے جو ان کی دوست انسان،بھائی چارہ اور خلوص میں گندھی شخصیت کو اجاگر کرتی ہے ۔زندگی نامہ کے عنوان سے گلزار کی زندگی کا مختصر خاکہ ،تصانیف ،اعزازوفتوحات پیش کی ہیں۔جس سے گلزار کی ادبی کاوشوں کے ساتھ ساتھ ان کی ہمہ جہت شخصیت اور ادبی دنیا میںمنفرد حیثیت کااندازہ ہوتا ہے۔ گلزارصرف اسکرپٹ رائٹر،فلم ساز،مکالمہ نگار ہی نہیںہے بلکہ اردو زبان و ادب پر بھی ان کی گہری گرفت ہے۔اور اس بات کی تصدیق کتا ب میںبعنوان مضمون’ گلزار کی شاعری کا تشریحی و تجزیاتی مطالعہ ‘سے ہوجاتی ہے۔گلزار کا سب سے اہم اور جدید کارنامہ تروینی ہے۔تروینی تین مصروں کی نظم ہے ۔بقول عابدی چار دہائیوںقبل گلزار نے ایجاد کی یعنی تروینی جیسی مخصوص معنی خیز ،جامع اورمختصرخوبصورت صنف کے موجد گلزار ہیں۔گلزار کاکلام اس لیے بھی منفرد ہیں کہ یہ معاشرے میں پیدا ہورہے تلخ حقیقی مسائل کو سلیس،سادہ اور نرم ملائم لہجے میں بلا جھجھک پیش کردیتاہے۔مثلا
رات پریشاںسڑکوںپراک ڈولتا سایہ
کھمبے سے ٹکرا کے گرا اور فوت ہوا
تاریکی کی ناجائز اولاد تھی کوئی
یا پھر یہ کہ:
پرچیاں بٹ رہی ہیں گلیوں میں
اپنے قاتل کا انتخاب کرو
وقت یہ سخت ہے چنائو کا
تقی عابدی نے گلزار کی زبان اورانداز بیان پر واضح و مسلسل گفتگو کی ہے اور عالمی سطح پر ان کی شعری جہت سے ہر انسان کس طرح فیض یاب ہورہا ہے منظرعام پر لا نے کی کوشش کی ہے ۔کیونکہ گلزار کی شاعری حالیہ قدروں سے جڑی ہوئی ہے لہذاان کاشعری پیغام زندگی کی گمشدہ راہوں میں کھونہیں جاتا بلکہ گمشدہ لوگوں کے ذہن کے دریچے کھولنے کا کام کرتا ہے۔سوچ و فکر کی دعوت دیتا ہے۔عصری دنیا سے آگہی ان تروینوں کی سب سے بڑی خاصیت ہے۔انسانی معاشرے کے گردو پیش میںواقع ہونے والے حادثات و واقعات،نشیب وفراز ایک عام انسان کی زندگی کو کس طرح متاثر کرتے ہیں اسے گلزار بڑے سادہ الفاظ میںبیان کردیتے ہیں۔مثلا
زہریلے مچھرمارو آوازوں کے
سوجن ہوجاتی ہے ان کے کاٹے سے
مچھر دانی تان کے جینامشکل ہے
یا
سب پہ آتی ہے سب کی باری ہے
موت انصاف کی علامت ہے
زندگی سب پہ کیوں نہیں آتی
گلزار کو اردو زبان سے والہانہ محبت ہے ۔اردو زبان کے حوالے سے انھوں نے جو بھی کام انجام دیے وہ قابل ستائش ہیں لہذا تقی عابدی نے اردو کے اس سپاہی جس نے اردو کوجدیدٹکنالوجی سے جوڑااور اس کی تشہیر ، تحفظ کا بیڑا ٹھایا اس کی ادبی خدمات کے ساتھ ساتھ عصر حاضر میں اردو زبان کی تئیں ایک اہم ضرورت کو بڑی ایمانداری سے پورا کیا ہے۔لہذاعابدی کے یہ تجربے دوسرے نقادوں کے لیے بھی تقلید کے قابل ہیں۔
جہاں تک تقی عابدی کی تحریری لوازمات،انداز بیان کی بات ہے تو یہ لفظوں کے جادو ئی ہنرسے بخوبی واقف ہیں ۔انھیں معلوم ہے الفاظ کو جملے کی سہی ساخت میں ڈھال کرعبارت کو کس طرح موثر اور دلچسپ بنایا جاسکتا ہے۔ مثلا گلزار کی شعری خصوصیات بیان کرتے ہوئے ان کی یہ عبارت دیکھیں۔
’’چناچہ آج کی شاعری کے دسترخوان پر سائنس کے ذائقہ کا چٹخارہ ضروری ہے۔یہ
سچ ہے کہ صدیوں بعض قوموں نے بغیر مرچ نمک کے بھی گزارا کیا ہے لیکن جب منہ
کو مزا لگ جائے تو پھر چھٹکارہ مشکل ہے۔گلزار ان انگشت شمار اردو کے شاعروںمیں
ہیںجس نے اپنی شاعری کو جہاں کہیں بھی موقع اور محل پایا،ان سائنسی مطالب اور
وسائل سے جوڑا۔ (ص،۲۴)
یہاں تقی عابدی نے کلاسکی و عصر ی شاعری کی ضرورت پر طنز کرتے ہوئے گلزار کی شاعری کو عصر حاضر کے موافق اور لازمی قرار دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ یہ تروینیاں محض زندگی کے تلخ گوشوںکو یا عصری مسائل ہی پیش نہیں کرتی بلکہ انسانی دل میںپیدا ہونے والی مختلف کیفیات محبت ،تنہائی ،عشق، جدائی،دوستی ، جیسے نا زک احساسات اور انسانی رشتوںکی تلخ پیچیدگیاں بھی موثر طریقے سے بیان کرتی ہیں۔مثلا
کبھی کبھی بازار میں یوں بھی ہوجاتا ہے
قیمت ٹھیک تھی جیب میں اتنے دام نہیں تھے
ایسے ہی اک بار میں، تم کو ہا رآیاتھا
یا
وہ میرے ساتھ ہی تھا دور تک ،مگر اک دن
جو مڑ کے دیکھاتو وہ دوست میرے ساتھ نہ تھا
پھٹی ہو جیب تو کچھ سکے کھو بھی جاتے ہیں
گلزار کی شاعری کوتقی عابدی نے ’آکسیجن‘ کہہ کربھی مخاطب کیا ہے جس کا مطلب ہر سانس کے ساتھ ان کا شعری کلام جاویداں رہے گا۔ان کی شاعری دور حاضر میں اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ آکسیجن کیونکہ یہ زندگی سے ملے زخموں کے لیے ایک مرہم ہے اور نا امیدی کے حالات میں امید کی کرن بھی ہے۔عابدی کی خاص بات یہ ہے کہ گلزار کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی مقبولیت کا ذکر کرنا نہیں بھولتے ۔ دو ٹوک اور بے باک لہجہ میں وہ اپنی بات کہہ دیتے ہیںکہ قاری قائل ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔مثلا
’’ کون کہتا ہے کہ شاعری کے گھنے درخت کاسایہ سرحد کے دونوں طرف نہیں !آج
دنیا میں اردو کی آٹھ سے زیادہ نئی بستیاں موجود ہیںان تمام بستیوں کے باسیوں کو
یہ فخر حاصل ہے کہ انھوں نے مشاعرے میں گلزار کو دیکھا اور ان کی شاعری کو سنااور
اپنے محسوسات میں محفوظ کرلیا تاکہ محفوظ ہوتے رہے‘‘ (ص،۲۵)
تروینیوں کے علاوہ تقی عابدی نے گلزار کی دو نظمو ں’’غالب‘‘ اور ’’کتابیں‘‘کا بھی تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ان دونوں نظموں پر تجزیہ و تبصرہ کرتے ہوئے گلزار کی مختلف شعری جہت کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔لفظ و معنی،محاسن وشاعری پر تقی عابدی کا اپنا نقطہ نظر ہے ۔وہ نظم کے متن ،شعری نکات،ادبی فنی قدریںکو دھیان میں رکھتے ہوئے اپنے تخلیقی زاویے کو نہایت تفصیل و دلائل کے ساتھ پیش کر دیتے ہیں۔
لیکن کہیں کہیںجملوں میںایک جیسے لفظوں کی تکرار او رتصحیح املاکی غلطیاںآجانے سے عبارت بے مزہ معلوم ہوتی ہے جس سے تسلسل بھی بگڑجاتا ہے۔مثلا
’’اکیسویں صدی کلاسک لٹریچر کی صدی نہیں پھر بھی جدید زیورات کے جھنڈ میں حسینہ
کا کان کا کلاسک آویز ہ نظر کو کھینچ لیتا ہے‘‘ (ص،۲۶)
یا
’’شاید آئندہ وقت ان صنعتیوں کو بھی نامی گرامی گرے گا‘‘ (ص،۱۹۶)
آیندہ (آئندہ) (ص،۲۹)
دنیہ(دنیا) (ص۲۵)
چونکہ دنیائے فانی میں کوئی شہ مکمل نہیںخوبیاں اور خامیاںتو ابد سے ازل تک انسانی زندگی کا حصہ رہیں ہیں۔اس لیے کتاب میںجہاں اتنی ساری خوبیاں موجود ہوں وہاں چند خامیاں پھیکی معلوم ہوتی ہیں۔راقم الحروف کا ماننا ہے کہ جہان فانی میں ہر ذات نامکمل ہے ۔مثلا
ہیں خاک بشر کا حصہ یہ خوبیاں اور خامیاں
ہر شہ ہے نامکمل حیاؔت ذرہ سے ماہتاب تک
(حمیرا حیاؔت)
مختصر یہ کہ ۲۰۰ صفحات پر مشتمل یہ کتاب خیالات کے منفرد رنگ،شاعری کی مہک،فکرو احساس کے تجربے ، تنقیدی وتحقیقی بصیرت،تاریخی شواہد،دلچسپ واقعات،اورعصری مسائل کا احاطہ کرتی ہوئی قارئین کو غوروفکر کی دعوت دیتی ہے ۔سب سے اہم بات یہ کہ تقی صاحب کے خیالات میںایک اعتدال و توازن ملتا ہے جوان کی تحریر وںکا بنیادی عنصرہے۔یہ کتاب ایسے فنکار سے روشناس کراتی ہے جو قاری پر اپنے خیالات تھوپتا نہیں بلکہ ایک اعتدال پسند ناقد ہونے کے ناطے مدلل طریقے سے اپنی بات کہہ کر آخری فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتا ہے۔یہی بات تقی عابدی کو دوسرے نقادوں سے منفرد کرتی ہے۔