گلوکارہ ثمینہ سندھو کا قتل
پیپلز پارٹی کے گڑھ لاڑکانہ شہر میں ختنے کی ایک تقریب جاری تھی ۔۔۔ختنے کی یہ تقریب سیشن جج کے ریڈر نیاز جونیجو کے گھر میں ہورہی تھی ۔۔۔تقریب میں شراب اور نشے کا عالم تھا ۔۔۔گلوکارہ ثمینہ سندھو صاحبہ بھی تقریب کا حصہ تھی ۔۔۔گانے گا کر اپنے فن کا مظاہرہ کررہی تھی ۔۔فنکار کا کام فن کا مظاہرہ کرنا ہی ہوتا ہے ۔۔تقریب جوبن پر تھی ،سب مردوں نے شراب پی رکھی تھی ۔۔اسی دوران نیاز جونیجو نے ثمینہ صاحبہ سے فرمائش کی کہ وہ بیٹھ کر نہیں بلکہ کھڑے ہوکر گانا گائیں ۔۔ثمینہ صاحبہ نے کہا محترم میں چھ ماہ کی حاملہ ہوں ،میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے ،کھڑے ہو کر گانا نہیں گا سکتی ،اس پر نیاز جونیجو نے آس پاس بیٹھے اپنے دو دوستوں کو کہا کہ ایک گانے اور ناچنے والی نے انکار کرکے میری بے عزتی کردی ہے اور تم دیکھ رہے ہو ،خرابی صحت کے باوجود ثمینہ صاحبہ کھڑی ہو گئی اور گانا گانے کی تیاری شروع کردی ۔۔مگر دوسری طرف مرد کی غیرت جاگ اٹھی تھی ۔۔۔نیاز جونیجو کے ساتھ بیٹھا اس کا دوست طارق جتوئی کھڑا ہو گیا اور اس نے ثمینہ پر سیدھا فائرنگ کردی ،جس سے گلوکارہ ثمینہ سندھو مر گئی ۔۔۔اس کے ساتھ وہ بچہ بھی مر گیا جو چھ ماہ کا تھا اور ابھی اس نے دنیا نہیں دیکھی تھی ۔۔۔
پاکستان کے تمام نیوز چینلز پر وہ فوٹیج سب نے دیکھی ہو گی جس میں ثمینہ صاحبہ کھڑی ہو گئی ہیں اور گانا گانے کی تیاری کررہی ہیں ،سیدھا ان پر فائرنگ کی جاتی ہے اور وہ گر پڑتی ہے ۔۔ثمینہ بھی مر گئی ،وہ بچہ بھی اس کے ساتھ مر گیا جو چھ ماہ کا تھا اور ابھی اپنی ماں کی کوکھ میں تھا ۔۔۔لیکن پارٹی چلتی رہی ۔۔غیرت نعرے لگاتی نظر آئی ۔۔۔یہ تھا پہلا حقیقی منظر ۔۔۔معاملہ اب پولیس کے پاس گیا ،ایف آئی آر کاٹی گئی ،لیکن ایف آئی آر میں کہا گیا کہ اچانک سے شراب کے نشے میں طارق جتوئی سے تین ہوائی فائر ہو گئے ،ایک فائر اچانک سے ثمینہ کو لگ گیا ،اس لئے وہ مر گئی ،یہ حادثہ تھا ،کسی کو جان بوجھ کر قتل نہیں کیا گیا ۔۔۔ایس ایس پی لاڑکانہ تنویر نے بھی میڈیا کو یہی بتایا کہ یہ ہوائی فائرنگ کا واقعہ تھا جس میں حادثاتی طور پر ناچنے والی ثمینہ ماری گئی ۔۔۔جس تھانے کی حدود میں یہ واقعہ پیش آیا تھا ،اس تھانے کا غیرت مند ایس ایچ او لیاقت بھی ختنے کی تقریب میں شامل تھا اور اس نے بھی خوب شراب پی رکھی تھی ۔۔یہ سارا واقعہ اس کے سامنے ہوا تھا ۔۔۔ثمینہ صاحبہ کی لاش لیکر اس کا شوہر رات کو ایس ایس پی کے دروازے پر کچھ افراد کے ساتھ بیٹھ گیا ،فریادیں کہ مائی لارڈ انصاف دیا جائے ،لیکن ایس ایس پی ملیر نے کہا لعنت بھیجو ،کیوں نیند خراب کی جائے ،وہ سوتا رہا اور ثمینہ کے لواحقین باہر روتے رہے ۔۔۔صبح ہوئی لواحقین ثمینہ کی لاش لیکر پریس کلب آگئے ۔۔میڈیا کو بھنک پڑ گئی ،تمام نیوز چینلز پر فوٹیج چل گئی ،ہر طرف ثمینہ کی موت کا چرچا تھا ۔۔۔رات کو اس کے ناچنے کا چرچا تھا اور دن کو اس کی لاش کا ۔۔۔آئی جی نے نوٹس لیا ۔۔۔ایس ایس پی کو ہوش آیا ۔۔اس نے سمجھا یار یہ تو واقعی بڑا مسئلہ تھا ،کاش میں رات کو ہی ان ناچنے والوں کی بات سن لیتا ۔۔۔لیاقت علی کو ایس ایچ او کے عہدے سے برطرفکردیا گیا ۔۔۔دی اسی پی کے دفتر میں ایف آئی آر کاٹی گئی ۔۔لیکن ایف آئی آر میں اب بھی ہوائی فائرنگ کا غلبہ ہے ۔۔۔مرحومہ ثمینہ صاحبی کی عمر 24 سال تھی ،وہ چھ ماہ کی حاملہ تھی ،گلوکاری کرتی تھی ،روزی روٹی کی خاطر اس طرح کی تقریبات میں جاتی تھی ،گھر چل رہا تھا ،آرٹ کا مظاہرہ بھی ہورہا تھا ۔۔لیکن غیرت نے سب کچھ ختم کردیا ۔۔۔اب تیسرا منظر اس سے بھی خطرناک ہے ۔۔سوشل میڈیا پر آواز اٹھی ۔۔۔سندھ اور پاکستان کے دیگر شہروں میں چھوٹے چھوٹے احتجاج ہوئے جس میں صرف آرٹست شریک تھے ۔۔عام عوام کیوں ایک ناچنے گانے والی کے لئے باہر نکلتی ۔۔ایک ناچنے والی ہی ماری گئی ،اس سے عوام کو کیا؟وہ تو میراسن تھی ،وہ تو ڈانسر تھی ،وہ تو شرابیوں کے درمیان گا رہی تھی ،وہ تو اسٹیج اداکارہ تھی ،وہ گولی سے مر گئی تو کیا ہوا؟وہ ایک انسان بھی تھی ،وہ کسی کی بیٹی بھی تھی ،وہ ماں بھی بننے والی تھی ،وہ ایک معصوم آرٹست بھی تھی ،لیکن یہ کون سوچتا ہے ؟خود ہی اب اندازہ لگا لیں کہ یہ غیرت مند معاشرہ کیسا ہے اور کس طرف جارہا ہے ؟میرے پاس کچھ اور لکھنے کے لئے لفظ کم پڑ گئے ہیں ،آنکھوں میں آنسو ہیں ۔۔۔اور کچھ نہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔