(Last Updated On: )
شہر میں صبح سے ہو رہی موسلا دھار بارش کے سبب عام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔بارش نے بوندوں کے تیر برسانے کم کئے تو میں ضروریات کی چند چیزیں لینے کے لئے باہر نکل آیا۔خریداری کے بعد ابھی بائیک کے اگنیشن میں چابی پھنسائی ہی تھی کہ پھر تیز بارش شروع ہوگئی ۔قریب میں ایک بک اسٹال تھاسو بارش سے بچنے کے لئے میں وہاں چلا گیا۔تھوڑی دیر میںکئی لوگ آس پاس جمع ہو گئے جو اس چھوٹی سی جگہ میںخود کو بھیگنے سے بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔
میں بھی بک اسٹال کی دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا رہا۔بارش کے جلد رکنے کے آثار نظر نہیں آرہے تھے اس لئے میں نے بک اسٹال میں لٹک رہا ایک ادبی رسالہ خریدااور وہیں کھڑے کھڑے ورق گردانی کرنے لگاکہ اچانک کسی شخص کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’نہیں یار ،صرف پندرہ بیس لوگ تھے۔‘‘
میں نے گردن اٹھا کر دیکھا ۔دو خوش لباس باریش نوجوان مجھ سے کچھ فاصلے پر محو گفتگو تھے جن کے سروںپر نمازی ٹوپی تھی۔
’’نعتیہ مشاعرہ اور پندرہ بیس لوگ!‘‘اس کے ساتھ کھڑادوسرا نوجوان تعجب سے پوچھ رہا تھا۔
’’ہاں۔شعراء کو چھوڑ کر صرف پندرہ بیس سامعین۔اس میں بھی زیادہ تر معمر افراد تھے۔‘‘پہلے نوجوان نے اپنی بات پر مزید زور دیتے ہوئے کہا۔
’’بڑے افسوس کی بات ہے۔اس پروگرام کے کنوینرس پر کیا بیتی ہوگی۔‘‘دوسرا نوجوان بھیگے ہوئے چہرے کو پونچھتے ہوئے کہنے لگا۔
’’بالکل۔آج کے اس مصروف دور میں اگر کوئی ایسی نورانی محفل کا انعقاد کرتا ہے تو غنیمت ہے۔ ایسی محفلوں سے ہم جیسے نوجوانوں کا جڑنا بہت ضروری ہے۔‘‘پہلا نوجوان بھی ٹوپی نکال کرگیلے ہو چکے بالوں میں انگلیاں پھیر کر بالوں کو درست کرتے ہوئے کہنے لگا۔
میں رسالے سے نظریں ہٹا کر بڑے انہماک سے ان کی باتیں سننے لگا۔
’’وہ تو اس دن ہوگا جب ہماری قوم کے نوجوان اسلامی شعائر کی قدر کرناسیکھ جائیں گے۔ مگر میں نے سنا ہے کہ ایسی محفلوں میں نعت خواں حضرات معاوضہ لے کر شرکت کرتے ہیں۔‘‘
’’تو اس میں کیا قباحت ہے یار۔ہزاروں روپے ہم غیر شرعی کاموں میں صرف کرتے ہیں ۔ نعت خوا ں کو اگر آمد و رفت کا خرچ دیا جائے تو کیا برائی ہے اور ویسے بھی وہ اپنا وقت بھی تو دیتے ہیں۔‘‘
’’بات تو درست ہے مگرنعت بھی اسی وقت دلکش اور دل آویز ہوگی جب نعت خواں کے دل میں محبت ِ رسول ہو ۔سامعین چاہے جتنی واہ واہ کرلیں،نعت خواں چاہے جھوم جھوم کر اللہ کے رسول کی مدحت کریں، اگر ان کے دل میں رسول اللہ سے والہانہ محبت نہ ہو توکلام میں کیف اور اثر پیدا نہیں ہوگا۔پیسوں کی امید میں اگر کوئی نعت پڑھے تو اس کی آوازپیٹ سے نکلتی ہے، دل سے نہیں۔‘‘
’’پیسوں کی بات رہنے دو یار۔ویسے بھی نعتیہ مشاعرے میں کون کتنا دیتا ہے؟رہی محبت ِرسول کی بات تووہ نیتوں کا معاملہ ہے جس کابہتر علم صرف اللہ کو ہے۔ویسے بھی آج کے اس پر فتن دور میں ایسی محفلیں ہوا کے ٹھنڈے جھونکے لگتی ہیں۔ایسی محفلوں کا انعقاد زیادہ سے زیادہ ہونا چاہئے۔‘‘
’’بالکل۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں۔شہر میں آئندہ ایسی کوئی محفل ہو تو مجھے اطلاع کرنا۔دونوں ساتھ میں چلیں گے۔ ‘‘
’’ان شاء اللہ ،ضرور ۔‘‘
میں بغور ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔مسلسل ہو رہی بارش کی وجہ سے میرے ہاتھ میں موجود رسالہ بری طرح بھیگ گیا تھاکیوں کہ میری ساری توجہ ان دونوں کی طرف ہی مرکوز تھی۔ ان کے چہروں سے نظریں ہٹتے ہی میری نظررسالے کے بھیگے ہوئے صفحے پر پڑی جس کی سرخی تھی۔
’معروف سیاست دان کے جنم دن کے موقع پر عظیم الشان مشاعرے کا انعقاد‘
’ہال تنگی ٔ داماں کا شکوہ کناں،عشائیہ میں امڈی ہزاروں کی بھیڑ‘
میں من ہی من مسکرانے لگاکیوں کہ ہر ادبی و غیر ادبی پروگرامس کی رپورٹ کے آخرمیںہال کے تنگی ٔ داماں کی شکایت ضرور ہوتی ہے۔ حالانکہ اس پروگرام میں تنگی ٔ داماں کا شکوہ بجا نظر آرہا تھاکیوں کہ رسالے میں مشاعرے کی تصاویر بھی شائع ہوئی تھیں۔
برسات کا زور ابھی ٹوٹا نہیں تھا،گویا اس نے ٹھان لیا تھا کہ آج ہر شئے پر چڑھے مصنوعی رنگ کو اتار پھینکنا ہے۔ پاس کھڑے نوجوانوں کی گفتگو کا دھارا لایعنی باتوں کی طرف مڑ گیا تو میں ایک بار پھر رسالے کی طرف متوجہ ہوا۔ رسالے کاجو ورق بھیگ گیا تھااسے پلٹنے کی کوشش کی تو ورق کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں آگیاجس میں رپورٹ کی آخری نامکمل سطریں موجود تھیں۔
’۔۔۔کے مقابلے میں شاعرات نے بازی ماری۔مشاعرے میں نیتا جی اور سامعین کی طرف سے لاکھوں روپے کے نذرانے کی بارش ہوئی۔‘
میرے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوااورمیرے اندر اور باہر کے موسم ہم رنگ ہونے لگے۔
٭٭