اردو شاعری نے ہمیشہ بدلتے ہوئے شعور کا ساتھ دیا اور وقت اور زمانے کے ساتھ ہونے والی تبدیلی کو مختلف صورتوں میں پیش کیا۔ شعرا کے ساتھ ساتھ شاعرات بھی اس میدان کی مسافر رہی اور ہیں۔ان شاعرات میں ایک اہم نام گلفام نقوی کا ہے جس نے اردو شاعری کو ایک منفرد لہجہ اور احساس دیا۔ ان کی شاعری اپنے عہد کا خوبصورت آئینہ اور ماضی کی روایت کا تسلسل ہے۔ گلفام نقوی کی شاعری کا اہم حوالہ محبت اور نسوانی جذبات و احساسات کی پیش کش ہے۔ وہ اپنی شاعری میں ایک پوری نسائی حسیات کی تشکیل کرتی دکھائی دیتی ہے۔ نسائیت صرف یہ نہیں کہ گھر، انگن اور سنگھار کی بات کی جائے بلکہ مونث جذبات کی مکمل تصویر کشی، خوشبو، رنگ، لمس و بصر، موسموں کی رنگینی اور رشتوں کے ذائقوں کا بیان ہے اور گلفام نقوی کی شاعری ان نسوانی کیفیات کا باکمال اظہار ہے۔ عشق و محبت کا رنگ ان کی شاعری میں پورے زوروں سے دکھائی دیتا ہے۔لکھتی ہیں:
آتش عشق سے ڈرتے ہیں جو ان سے کہہ دو
جل کے اس آگ میں وہ اور نکھر جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلفام نقوی فیصل آباد سے متعلق اردو اور پنجابی کی مایا ناز شاعرہ ہیں۔
ان کا آبائی تعلق پیرمحل سندھیلیانوالی ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے سادات گھرانے سے ہے ۔آپ کے دادا سلطان شاہ اس علاقہ کے “سلطان” مانے جاتے تھے ۔آپ کے جد امجد سید زین العابدین تھے جو چنیوٹ سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے ۔آپ ایک ولی اللہ تھے اور آپ کا شجرہ نسب اچ شریف سے جا ملتا ہے ۔۔
گلفام نقوی کے والد محترم چراغ علی شاہ کا آبائی پیشہ کھیتی باڑی تھا ۔ان کے نانا اپنے وقت کے ایک ولی کامل اور عارف شاعر تھے ۔ان کے ننھیال میں بھی صوفیانہ رنگ بکثرت پایا جاتا ہے ۔آپ کے نانا سید سردار علی شاہ نے اپنے پیر و مرشد پر بہت سی کامیابیاں لکھی ہیں ۔وہ زیادہ تر عارفانہ کلام پنجابی میں لکھا کرتے تھے ۔انہوں نے بابا بلھے شاہ ،حضرت سلطان باہو، سید وارث شاہ اور میاں محمد بخش کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا۔ان کی ایک کتاب ” تحفہ عرفانی ” بھی شائع ہو چکی ہے ۔
چراغ علی شاہ کی شادی سید سردار علی شاہ کی بیٹی غلام جنت سے ہوئی ۔غلام جنت بہت نیک ،پرہیزگار اور نرم دل خاتو ن تھیں ۔۔ان کو بھی شاعری سے خاصا لگاؤ تھا ۔۔
گلفام نقوی کے والد چراغ علی شاہ نے دو شادیاں کی تھیں ۔پہلی شادی سے آپ کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا ۔دوسری شادی ہونے غلام جنّت سے کی۔اور ان کے بطن سے چھ بچے ہوئے جن میں سے پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے ۔دو بیٹیاں تو پیدائش کے بعد ہی فوت ہو گئی تھی پھر دو بیٹیاں ہوئیں اور تیسرے نمبر پر گلفام نقوی پیدا ہوئی ۔ان کے بعد اللہ تعالی نے ان کے والد کو ایک بیٹے سے نوازا ۔۔۔
گلفام نقوی نے 19 فروری 1964 ٙء میں سادات خاندان میں آنکھ کھولی ۔ان کا اصل نام گلفام پروین ہے اور ادبی دنیا میں گلفام نقوی کے نام سے معروف ہوئیں ۔۔
گلفام نقوی کی شادی 27فروری 1987ء میں ہوئی۔آپ کے شوہر سید اقتدار علی شاہ ایک خوبرو نوجوان تھے ۔شادی کے بعد آپ اپنے شوہر کے ساتھ لاہور آ گئیں ۔چونکہ اقتدار علی شاہ تعلیم حاصل کر رہا تھا لہذا انہوں نے ان کا بھی کالج میں ایڈمیشن کروا دیا ۔آپ نے گورنمنٹ کالج سمن آباد لاہور سے بی اے کیا ۔گریجویشن کرنے کے بعد آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ، جس کا نام آپ نے سید علمدار حسین شاہ رکھا ۔بیٹے کی پیدائش کے بعد آپ کے شوہر سے آپ کی تعلقات خراب رہنے لگے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کچھ غلط قسم کے کاموں میں مبتلا ہوگئے تھے ۔لہذا آپ کچھ عرصہ کے لئے اپنے والد کے گھر چلی گئی ۔آپ کے والد آپ کی وجہ سے بہت پریشان رہنے لگے اور اکثر آپ سے کہتے کہ ہم نے تمہیں وہاں جانے نہیں دینا لہذا تم اس سے علیحدگی اختیار کر لو ۔لیکن یہ ناممکن تھا ایک تو کم عمری میں آپ کی شادی کر دی گئی تھی اور دوسرا علحیدگی کا کہا جانے لگا تو یہ بات آپ کو گوارا نہ تھی ۔آپ جانتی تھی کہ اگر ایسا ہوا تو لوگ آپ کو طعنے دیں گے اور آپ لوگوں کی باتیں ہر گز برداشت نہ کر سکیں گی ۔دوسرا آپ کو قوی امید تھی کہ آپ کے شوہر راہ راست پر آجائیں گے۔۔لہذا کچھ عرصہ والدین کے ہاں رہنے کے بعد آپ اپنے گھر واپس چلی آئیں ۔پھر کچھ عرصہ بات آپ کی ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام قرۃالعین رکھا گیا ۔اب آپ بہت خوش تھی کہ اب فیملی مکمل ہوگئی ہے اب انشاءاللہ حالات بہتر ہوجائیں گے لیکن جو شخص ایک دفعہ غلط راستے پر چل نکلا ہو اس کے لیے واپسی کا راستہ مشکل ہو جاتا ہے ۔آپ کے والد کو آپ کی فکر دامن گیر ہوئی تھی اور اسی وجہ سے وہ اکثر بیمار رہنے لگی اور آخرکار اس دنیا سے چل بسے ۔ان کی والدہ بھی ان کے والد کی حالت دیکھ کر بہت روتی اور سوچتی رہتی ۔۔
آپ نے بہت انتظار کیا کہ شاید ان کا خاوند سید اقتدار حسین شاہ اپنا رویہ بہتر کرلے لیکن انہوں نے اپنا طور طریقہ بالکل نہ بدلہ ۔بالآخر اب کے بھائیوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ ان کی علیحدگی ہی کروا دی جائے ۔اس طرح شادی کے پانچ سال بعد ہی آپ کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہوگئی ۔۔۔ایک تو والد نے شادی بھی چھوٹی عمر میں کردی تھی اور پھر اس چھوٹی سی عمر میں اتنے بڑے صدمات سے دوچار ہونا پڑا ۔آپ نے ان مشکل حالات میں خود کو ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیا ۔آپ نے اپنے بچوں کے لئے ان کے مستقبل کے لیے دن رات محنت کی ۔آپ نے کسی سے مدد نہ لینے کا مصمم ارادہ کر لیا اور نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ۔
اس کے بعد گلفام نقوی نے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کا کورس کیا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بیوٹی پارلر کا کورس بھی مکمل کیا ۔۔۔۔ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کا کورس کرنے کی وجہ سے آپ ایک طویل عرصہ عیاشی فیبرکس فیصل آباد والوں کو کپڑے ڈیزائن کر کے دیا کرتی تھیں ۔بیوٹی پارلر میں ڈپلومہ رکھنے کی وجہ سے آپ نے اپنے گھر پر ایک پارلر کھول لیا اور ایک عرصہ تک اسے کامیابی سے چلاتی رہیں ۔۔۔اس کام میں ان کو اپنے خاندان والوں اور رشتہ داروں کی بہت سی باتیں بھی سننا پڑیں کہ ایک سید زادی ہو کر کیسے کیسے کام کر رہی ہے ۔کیوں کہ ان کے خاندان میں سید زادی کے لیے تو گھر سے باہر نکلنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن آپ نے کسی کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ دی کیونکہ ان کے سامنے دو بچے تھے اور ان کا مستقبل ان کو بہت عزیز تھا ۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ لوگ باتیں تو کرسکتے ہیں لیکن کسی کو دو وقت کی روٹی دینا مشکل ہو جاتی ہے ۔۔لہذا آپ نے لوگوں کی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے اپنا سفر جاری رکھا ۔آپ نے ساتھ ساتھ ڈیوٹی پر بھی چلایا اور ڈریس ڈیزائنگ کا کام بھی جاری رکھا ۔
آپ نے دن رات محنت کرکے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں اپنی زندگی صرف کردی ۔۔۔وقت کا پہیہ تیزی سے گھومنے لگا ۔اور آپ کے بچوں نے جوانی میں قدم رکھنا شروع کر دیئے ۔آپ کے بیٹے نے گریجویشن کرنے کے بعد ستارہ کیمیکل انڈسٹریز میں ملازمت کر لی اور ملازمت کے ساتھ ساتھ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ضلع کی ڈگری بھی حاصل کرلی ۔۔اسی فرم نے ان کی ٹرانسفر لاہور کردی اور ان کے بیٹے نے لاہور میں لاء پریکٹس بھی شروع کر دی ۔۔بیٹی کو اچھی تعلیم دلوا کر اس کی شادی کر دی ہے۔ اس کا بھی ایک بیٹا ہے ۔اور وہ اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے ۔۔۔۔
ان حالات سے نبرد آزما ہونے کے بعد آپ کو اس معاشرے میں عورت کے مسائل کا ادراک ہوا ۔اگر کوئی عورت کسی ہنر سے بہرہ ور نہ ہو اور اس کے ساتھ اس قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ جائے تو وہ کیا کرے ۔معاشرے میں کون ان کا پرسان حال ہو ۔۔لہذا انہیں باتوں کو سوچ کر انہوں نے اپنے گھر میں ایک سلائی سنٹر قائم کر رکھا ہے یہاں آپ بچیوں کو بغیر معاوضہ کے سلائی کڑھائی سکھاتی ہیں ۔۔آپ کا کہنا ہے کہ اگر یہ ایک ہنر ہی عورت کے ہاتھ میں ہو تو اس کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔۔۔وہ دوسروں کے لئے نہ سہی اپنے لیے تو کچھ نہ کچھ کرنے کے قابل ہو سکتی ہے ۔۔آپ اب تک بے شمار بچیوں کو سلائی کڑھائی سکھا چکی ہیں ۔۔
ادبی سفر کا آغاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلفام نقوی نے آنکھ کھلتے ہی ادب سے اٹھکیلیاں کیں ، ماں کی لوری شاعرانہ اور شفقت پدری کا عارفانہ چراغ روشن نصیب ہوا ۔۔
آپ کو بچپن ہی سے شعر کہنے کا ذوق و شوق تھا ۔۔بچپن میں جب آپ اسکول جاتی تھی یہ راستے میں ہر شے کو بڑے غور سے دیکھنا اور اس کے بارے میں دیر تک غور وخوص کرنا ان کی عادت تھی ۔بچپن میں ان کو تصویریں بنانے، ڈرائنگ ، پینٹنگ وغیرہ کا بھی بہت شوق تھا ۔جو چیز بھی دیکھتی تھی اس کو کاغذ پر خوبصورتی سے سجا دیتی تھیں ۔۔ایک بار انہوں نے ڈرائنگ بنائی اور اس کے نیچے اپنا ایک شعر لکھ دیا جو ان کا پہلا شعر تصور کیا جاتا ہے۔۔۔
منزل سے دور ہوں میں کتنی مجبور ہوں میں
سائے کی جستجو کی اب غم سے چور ہوں میں
یہ ان کا پہلا شعر تھا جو انہوں نے اس وقت لکھا تھا جب وہ چھٹی جماعت کی طالبہ تھی ۔۔اس طرح یہ سلسلہ آگے بڑھنے لگا آپ نے شاعری تو کی لیکن وہ باقاعدہ محفوظ نہ ہو سکی۔۔بلکہ کتابی شکل میں آپ کی شاعری آپ کی شادی کے بعد آئی۔۔اس طرح آپ کے پہلے مجموعہ میں تقریبا تمام شاعری آپ کی ابتدائی شاعری ہی ہے ۔۔
گلفام نقوی کے اب تک چار شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں ۔۔
گلفام نقوی کی باطنی شخصیت میں قابل ذکر صفت یہ ہے کہ وہ بہت حساس طبیعت کی مالک ایک ذمہ دار خاتون ہیں ۔وہ دوسروں کا دکھ درد دے کر بہت جلد اس ہوجاتی ہیں اور دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ اور دوسروں کے سکھ کو اپنا سمجھتی ہیں ۔۔وہ ہر بات کو بہت گہرائی میں جاکر سوچتی اور سمجھتی ہیں ۔۔آپ بہت خداترس اور نرم دل خاتون ہیں۔ جس سے بھی ملتی ہیں انتہائی خوش اخلاقی سے ملتی ہیں ۔۔اور یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی ان سے پہلی بار مل رہا ہے ۔۔گلفام نقوی نہ صرف اچھی شاعرہ ہیں بلکہ ایک اچھی انسان بھی ہیں جو شخص ان سے ایک بار ملتا ہے وہ دوبارہ ملنے کی آرزو بھی رکھتا ہے ۔۔۔
ان کی شاعری اور ان کی شخصیت کا ایک بڑا پہلو سچائی ہے وہ حق اور سچ کا ساتھ دیتی ہیں ۔۔
“سہارے مل ہی جاتے ہیں” گلفام نقوی کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس سے ان کے تخلیقی سفر کو ایک اہم پڑاؤ ملا اور مقامی سطح پر شناخت کی ابتدا ہوئی ۔۔۔۔۔۔کہا جاتا ہے کہ شاعر کسی بھی معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے جو کچھ معاشرے میں ہوتا ہے وہ اسے بغور دیکھتا ہے ۔شاعر کو معاشرے کی آنکھ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی شاعری میں وہی کچھ لاتا ہے جو کچھ اس کے ارد گرد معاشرے میں ہو رہا ہوتا ہے ۔وہ معاشرے میں ہونے والے حالات و واقعات کی طرف ہماری توجہ مبذول کرواتا ہے ۔گلفام نقوی کی شاعری بھی معاشرے اور سوانح سے قریب تر ہے ۔ان کی شاعری میں سب سے غالب موضوع محبت ہے ۔تقریبا ہر شاعر کی ابتدائی شاعری اسی موضوع میں رچی بسی نظر آتی ہے ،
محبت ایک خوبصورت جذبہ ہے، محبت اردو شاعری کا محبوب ترین موضوع ہے ۔جس میں محبوب کے ناز و ادا ، اس کی سنگدلی ، بے مروتی اور کنارہ کشی کا ذکر کیا جاتا ہے ۔۔۔۔” سہارے مل ہی جاتے ہیں” کو دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ محبت اور رومان کی شاعرہ ہیں ۔اس مجموعہ میں پیار محبت اور پاکیزہ سچے جذبات کی عکاسی ملتی ہے ۔ہر انسان کسی نہ کسی سے محبت کرتا ہے چاہے وہ محبت بھائی ،ماں ، بہن ، باپ کسی بھی روپ میں ہو لیکن اس مجموعے میں ایک عاشق کی اپنے محبوب سے والہانہ محبت کا اظہار ملتا ہے
ان کی شاعری کی مرغوب صنف غزل اور نثری نظم ہے جو ان کے ایک الگ اسلوب سے مرصع ہے ۔ان کی شاعری کی رسائی اُن حقیقتوں تک ہوتی ہے جہاں تک ہمارے نثری نظم لکھنے والوں کی رسائی کبھی نہیں ہوئی۔ وہ اعلٰی ترین ذہنی اور شعری صلاحیتوں کی مالک ہے، انسانی نفس کے ادراک میں جو قُدرت اُسے حاصل ہے وہ کم کم لوگوں کے حصہ میں آئی ہے ۔ نسائی ادب کی مایہ ناز اور منفرد اسلوب کی حامل شاعرہ گلفام نقوی کا نام علمی و ادبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ معاشرتی زندگی کے تضادات ،بے اعتدالیوں،طبقاتی کشمکش،استحصالی عناصر کی مناقشت پر مبنی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور قسمت سے محروم مظلوم انسانیت کی زندگی کے جُملہ نشیب و فراز پر کڑی نظر رکھنے والی ، انسانی ہمدردی کے جذبات سے سرشار اس فطین ،فعال اور مستعد شاعرہ کی علمی ،ادبی اور سماجی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ گلفام نقوی کی شاعری فکر و نظر کو مہمیز کر کے قلب ،روح اور وجدان پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے ۔ منفرد اسلوب کی مظہر اس شاعری کی اثر آفرینی کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے اور قاری اس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔جس انداز میں یہ شاعری جامد و ساکت پتھروں ،سنگلاخ چٹانوں اور بے حِس مجسموں پر اثر انداز ہوتی ہے اس سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ تخلیقِ فن کے لمحوں میں اس زیرک ،حساس اور دردِ دِل رکھنے والی تخلیق کارہ نے خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کی ہے ،وہ ثمر بار ہو رہی ہے۔اپنے شعری تجربوں کو رو بہ عمل لاتے ہوئے گلفام نقوی نے زندگی کے نئے امکانات تک رسائی کی جو سعی کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائقِ تحسین ہے۔اس نوعیت کے تجربات کے اعجاز سے جمود کے خاتمے اور حرفِ صداقت لکھنے کی روش کو مہمیز کرنے میں مدد ملتی ہے۔سماجی زندگی میں پائی جانے والی منافقت ،تعصبات ،تضادات اور نا انصافیوں کے خلاف گلفام نقوی نے کھل کر لکھا ہے۔اس کے تخلیقی وجدان کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ایک حساس تخلیق کارہ کو فکری اعتبار سے متعدد مسائل کا سامنا ہے ۔ معاشرتی زندگی میں اسے مصائب و آلام کے پاٹوں میں پِستی ہوئی دُکھی انسانیت کے مسائل سنگلاخ چٹانوں اور بے حس و جامد سر بہ فلک کوہساروں کے سامنے بیان کرنا پڑتے ہیں ۔ مادی دور میں زندگی کے اعصاب شکن داخلی تضادات اور سماج کے مناقشات نے فکر و نظر پر دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہماری حباب کی سی ہستی میں سراب کی سی کیفیت ہے جو نہ ہونے کی ہونی کی خبر دیتی ہے۔ اپنے تخلیقی سفر میں زمانہ ساز لوگوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے اور دنیا داری کے پردے میں بھی معرفت کی شمع فروزاں رکھتے ہوئے گلفام نقوی نے فقر و مستی کی شانِ استغنا کو ہمیشہ زادِ راہ بنایا ہے ۔ اپنی انا اور خود داری کا بھرم برقرار رکھتے ہوئے گلفام نقوی نے صبر و تحمل سے کٹھن حالات کا نہایت خندہ پیشانی سے سامنا کیا ہے ۔حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنانے والی اس بے باک تخلیق کارہ نے تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی مقدور بھر سعی کی ہے ۔۔ہماری دنیا میں کچھ چیزیں حسین ہوتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتی لیکن کوئی سائنسی فارمولہ نہیں کہ مستقبل قریب یا بعید میں اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔لٹریری اظہار درست ہوکر بھی درست نہیں ہوتا اور غلط ہو کر بھی غلط نہیں ہوتا۔ آپ کہیں گے یہ کیا تضاد بیانی ہے ۔بیک وقت یہ سب کیسے ہو سکتا ہے؟۔یہ اس لیے ممکن ہے کہ خوبصورتی اور بدصورتی کسی سائنسی فارمولے کے تحت کل نہیں ہوتی یہ فیصلہ دل کرتے ہیں اور دلوں میں تنوع اور تخالف ہے ۔وہ سب پر عیاں ہے ایک چیز یا شخص کے لئے بہت خوبصورت ہے دوسرا اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا گویا یہ بیان کی کوئی چیز یا شخص بیک وقت پسندیدہ خوبصورت بھی ہے مگر وہ ناپسندیدہ بھی حقیقت ثابتہ ہے ۔۔
گلفام نقوی کا شعری کینوس وسیع اور رنگا رنگ ہے کہ یکسر سیاست کی غلامی گردش کی منظر کشی ہے تو کہیں کچی عمر کے خیالوں اور پکی عمر کے خوابوں کے تانے بانے سے بنی نظر فریب اور دل نواز ادائیں دامن نگاہ کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔وہ اپنے اظہار کے لئے سچائی اور سادہ اسلوب بیان پر یقین رکھتی ہیں شاید یہی سچائی اور سیاست ہیں اس کی نظموں کی اثر آفرینی کو ایک جواز فراہم کرتی ہے ان کا اظہار ملاحظہ کریں ۔۔
اندھیرے بڑھ گئے ہیں شام ڈھلتے ہی
زمیں سے آسمان تک تیرگی ہی ہے
گلفام نقوی کی شاعری میں ایک اور ملال ہے جو ہر سوچنے والے ذہن اور تڑپنے والے دل کا مقدر ہے۔ ان کی نظموں میں سوانحی عنصر پایا جاتا ہے۔ شاعر اپنی ذات کی نفی کر کے نظم میں اپنے لئے ایک وسیع در امکان پیدا کر سکتا ہے ۔گلفام نقوی نے اپنی شاعری میں غم دل اور غم زندگی کو بڑی عمدگی سے یکجا کر کے پیش کیا ہے ۔نظم ” کہا نہیں تھا ” میں وہ اپنے دل کا اظہار کچھ یوں کرتی ہیں۔
نہ میں ہی روؤں نہ تم کہو کچھ
ہم ایک دوجے کی یاد کی گٹھڑیاں اٹھائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلفام نقوی کی شاعری میں عورت کی عظمت کا احساس بہت نمایاں ہے وہ اکثر مقامات پر مردوں کے معاشرے میں عورتوں کے استحصال پر کڑھتی نظر آتی ہیں انہوں نے اسی احساس کے باعث “کرب کی کوک میں” کو اپنی شاعری کا مرکزی استعارہ قرار دیا ہے ۔ان کی نظموں میں ہجر و وصال کی باطنی کیفیت کی مختلف پرتیں جلوہ گر ہیں ۔ جس میں ہر موسم اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہے ۔وہ زمانے کے غم سمیٹتے ہوئے نظم کی شکل میں منتقل کرتی ہیں تو کرب میں ڈوبی ہوئی شاعری ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے جب وہ اس “خواب کی خواہش “کرتی ہیں۔
ترا پیکر ہر سو جم جائے
اور وقت وہیں تھم جائے
،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلفام نقوی نے اپنی شاعری میں لحاظ اور مروت کو بہت نبھایا ہے ۔اور اخلاقیات کا حد درجہ خیال رکھا ہے ۔اس نے اپنے دکھوں کو شعری زبان عطا کی ہے ۔گلفام نے حالات سے مقابلہ کرتے ہوئے بات کرنے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے ۔گلفام نقوی کے تخلیقی عمل کا تسلسل اس کو دوسری معاصر شاعر سے منفرد نظر آتا ہے انہوں نے شاعری کو واردات کے طور پر لیا ہے۔ ان کے لیے شاعری جزوقتی نہیں ، ہمہ وقتی عمل ہے ۔شاعری میں انہوں نے ایک مثبت جست بھری ہے ۔اپنے ہم عصروں میں سرکشیدہ ہو کر چلنے کی خواہش کا اظہار اس کے موضوعات و مضامین میں بھی ہے اور زبان میں بھی ۔۔۔
“کرب کی کوکھ میں” گلفام نقوی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جس میں غالب موضوع محبت ہے ۔مگر انسانی زندگی میں محرومیوں اور اداسیوں کا تذکرہ _امید ،مسلسل کوشش کرتے رہنے کا پیغام بھی ملتا ہے۔اس مجموعہ میں انہوں نے ابتدا میں پنجابی زبان میں حمد و نعت سے کی ہے ۔۔ان کا پہلا مجموعہ کلام “سہارے مل ہی جاتے ہیں”زیادہ تر نظموں پر مشتمل ہے جب کہ ” کرب کی کوکھ میں “نظموں اور غزلوں دونوں حوالوں سے برابر ہے ۔لیکن غزلوں کے مقابلے میں ان کی نظموں کو زیادہ سراہا گیا ہے ۔
محمد افسر ساجد ان کی نظموں کے حوالہ سے لکھتے ہیں “گلفام نقوی کی نظموں میں سوانحی عنصر زیادہ نمایاں ہے ۔شاعر نفی ذات کے ذریعے نظم میں اپنے لئے ایک وسیع در امکان وا کر سکتا ہے ۔اس کا مطالعہ ، مشاہدہ اور تجربہ اس ضمن میں ان کی معاونت کرتا ہے ۔بہرحال گلفام نقوی ایک نظم گو کی حیثیت سے قاری کو متاثر ضرور کرتی ہیں ۔اور قاری کو بھی اپنے ذوق ادب شعر کی تسکین کے لئے ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں “۔
گلفام نقوی بنیادی طور پر ایک منفرد لہجے کی شاعرہ ہیں اور شاعری میں ان کا بنیادی موضوع بھی محبت ہے ۔پیار محبت کا رشتہ بہت نازک ہوتا ہے ۔ذرا سی ٹھیس پہنچنے سے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں ۔ان کی زیادہ تر شاعری محبت کے لطیف جذبات کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے ۔
محبت ایک لازوال جذبہ ہے۔ ہر انسان کے اندر یہ جذبہ موجود ہے یہ ایک فطری عمل ہے گلفام نقوی کے ہاں یہ جذبہ شدت سے موجود ہے۔ ان کی شاعری میں محبوب سے بے پناہ محبت کا اظہار ملتا ہے ان کی شاعری میں زیادہ تر محبوب، محبوب کی جدائی میں محبوب کے ساتھ بتائے ہوئے حسین لمحوں کی یادیں ،تنہائی میں محبوب سے ملنے کی خواہش اور ایک امید نظر آتی ہے ۔گلفام کی شاعری میں مایوس کی نظر نہیں آتی اور یہ بہت اچھی بات ہے جیسا کہ ناصر کاظمی لکھتے ہیں ۔
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ویسے ہی مایوسی گناہ ہے گلفام نقوی کے حامید کی کرن نظر آتی ہے ۔گلفام نقوی کی اکثر نظمیں اپنے محبوب کے ساتھ وابستہ یادوں کی ترجمانی کرتی ہیں ۔ان کی شاعری میں محرومیوں اور اداسیوں کا بے تحاشہ ذکر ہے ۔اور اس مجموعہ میں اس کی یادیں عاشق کے آنچل سے بندھی ہوئی ہیں ۔اور وہ ان سے باہر نکل ہی نہیں سکتا ۔ان کی ٹائٹل نظم “کرب کی کوکھ میں ” بھی اکلاپے کا ذکر ہے، تنہائی ہے ، اداسی ہے ،لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
نہ تم آئے
نہ چین آیا
نہ میری منتظر آنکھوں میں کوئی عکس اترا
کسی آتے ہوئے لمحے کی خوشبو کا
نہ اپنی زندگی کا
اندھیرے ایک بڑھ گئے ہیں شام ڈھلتے ہی
زمین سے آسمان تک تیرگی ہے
خامشی ہے
میں سناٹے سے باتیں کر رہی ہوں
تمہاری یاد کی خوشبو
مجھے بانہوں میں لے کر اڑا رہی ہے
مجھے پر لگ گئے ہیں
اب میں تم سے ایک کرن کے فاصلے پر ہوں ۔””
ایک محبوب جو چھوڑ کر چلا جاتا ہے لیکن اس کی آنے کی امید محبت رہتی ہے ۔کہ وہ ضرور پلٹ کر آئے گا لیکن اب وہ بہت انتظار کے بعد بھی واپس نہیں آتا تو محبوب کو ہر چیز ویران اور تاریک نظر آتی ہے ۔تنہائی میں وہ خود سے باتیں کرتا رہتا ہے اور یوں محسوس کرتا ہے جیسے اس کا محبوب بھی اس کے ساتھ ہی ہے ۔اس کی یادیں اس کو کبھی تنہا نہیں ہونے دیتیں ۔۔بلاشبہ محبوب ساتھ نہیں ہے لیکن اُس کی یادیں اس کے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہیں ۔اگر محبوب کبھی عشق کے گھر آجائے تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی ۔اس کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ ہر چیز سے بیگانہ ہو جاتا ہے اور اپنے محبوب کو اپنے پاس پا کر بہت خوش ہوتا ہے ۔اور بہت کچھ کہنا بھی چاہتا ہے لیکن خوشی کے مارے اس کو الفاظ نہیں ملتے ۔تو وہ کہے تو کیاکہے ۔۔۔وہ صرف محبوب کو تکتے رہنے پر ہی تکیہ کر لیتا ہے ۔کچھ ایسے ہی جذبات کی عکاسی ” بولتی خاموشیاں “میں ہے ۔لیکن اس سے پہلے ایک اور بات وہ یہ کہ جب انسان اپنی کسی عزیز پیارے سے ملتا ہے تو وہ خوشی کے باعث سب کچھ بھول جاتا ہے اور کچھ کہہ نہیں پاتا ۔وہ بظاہر تو خاموش ہوتا ہے لیکن اس کی خاموشی وہ خاموشی نہیں ہوتی ۔اس کی آنکھیں وہ سب کچھ کہتی ہیں جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ “آنکھیں بولتی ہیں” چند سطور ملاحظہ ہوں ۔۔۔۔۔۔
پڑے گھر کے آنگن میں پاؤں جو محبوب کے
تو مارے خوشی کے میں چپ رہنا پائی
مگر کچھ بھی نہ کہہ پائی
میں کہتی بھی کیا ؟
اور کہتی کسے ؟
بہاروں سے کہتی نظاروں سے کہتی
پہاڑوں سے گرتی ہوئی آبشاروں سے کہتی
کہ میں آسماں کے کناروں پر پھیلی ہوئی
قوس کے سارے رنگوں سے کہتی
کہ خوشبو سے
شبنم سے
ساگر سے
بادل سے
شب کی مدھر چاندنی سے
کہ اس سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں سے میں الفاظ لاؤں
کروں اس سے اظہار یا اس کو دیکھوں غزل لکھوں یا اس کے آنے کی خوشیاں سمیٹوں
امر کر لوں جی چاہتا ہے
خوشی کو
زمین چوم لوں جس پر چل کر آیا ہے
یا دھول بن کر اس سے لپٹ جاؤں
یا ساتھ چل دوں
ہوا میں تحلیل ہو کر
طواف اس کے پیکر کا کرنے کی خواہش تھی
لیکن
میں کچھ نہ کر پائی
نہ کہہ پائی جو کچھ تھا کہنا اسی سے سمجھ للے وہ خود بولتی خامشی سے
اسے علم ہے
سامنے اس کے لفظوں کی کونپل سر اپنا اٹھاتی نہیں ۔””
گلفام نقوی کی شاعری میں زمانے کی بے وفائی اور بے اعتنائی کا ذکر ملتا ہے ۔زمانہ بھی کسی کو معاف نہیں کرتا چاہے کوئی کتنا ہی اچھا ہو یا کتنا ہی برا کیوں نہ ہو ۔لو صرف خود کو اچھا سمجھتے ہیں اور دوسروں کو ہمیشہ ایک عجیب نظر سے دیکھتے ہیں ۔منہ پر سب ایک دوسرے کی بڑی تعریفیں کرتے ہیں بڑی خوشامدیں کرتے ہیں لیکن پیٹھ پیچھے ایسی ایسی سزا صلاواتیں سناتے ہیں کہ خدا کی پناہ ۔۔۔۔۔۔۔لیکن انسان کو اس معاشرے میں رہنا ہے ۔اگر وہ دوسروں کی باتوں پر کان دھرنے لگے تو زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جائے ۔شاعرہ لکھتی ہیں ۔۔
@۔: نفرت ملی ہے ہم کو زمانے کی آنکھ سے
لیکن اسے بھی پیار کئے جارہے ہیں ہم
پھرایک اور جگہ لکھتے ہیں ۔۔۔
@۔ دل تو شیشہ تھا گلفام مگر پتھر سے لوگ ملے
سانحے کیا کیا دل پر گزرے ہونٹوں پر نہیں لا سکتی
گلفام نقوی کی شاعری میں عام معاشرتی رویوں کا ذکر ملتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ پہلے کا زمانہ اچھا تھا لوگ ایک دوسرے کی قدر کرتے تھے ۔ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے ۔دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ اور دوسروں کے سکھ کو اپنا دکھ سمجھتے تھے لیکن آج کل تو بات ہی الگ ہے . ۔۔شاعرہ کہتی ہیں ۔۔
@۔ ایک ڈگر پر چل نکلے ہیں اپنے اور بیگانے لوگ
بات بات پر گھڑ لیتے ہیں کئی کئی افسانے لوگ
اردو شاعری کا محبوب ترین موضوع عشق و محبت اور ہجر وصال کے واقعات ہیں ۔ہر دور کے شعرا نے اس موضوع پر اپنے اپنے انداز میں شاعری کی ہے ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس موضوع پر شاعری کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہے ۔بلکہ اس موضوع پر وہی شاعر شاعری کرسکتا ہے جو عشق و محبت اور ہجر و وصال کے واقعات سے دوچار ہوا ہو۔۔۔۔شاعری کو شاعر کی زندگی کا عکس بھی کہا جاتا ہے کہ شاعر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار شاعری میں کرتا ہے ۔گلفام نقوی بھی ساری زندگی دکھوں ، تکلیفوں اور تنہائیوں کا شکار رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی زیادہ تر شاعری میں یہی دکھ تکلیف یا تنہائی اور محبوب کی یادوں کے موضوعات نظر آتے ہیں ۔۔گلفام نقوی کی مذکورہ کتاب قرب کی کوکھ میں ” میں بھی انہی موضوعات کی کثرت ملتی ہے ۔
” اگر وقت کو تھام سکتی “گلفام نقوی کا تیسرا شعری مجموعہ ہے جو وقت کی تیز رفتاری میں انسان کے گم ہو جانے یا وجود کی شکست کو ظاہر کرتا ہے ۔جس میں شاعرہ یہ آرزو کرتی دکھائی دیتی ہیں تجھے کاش ان کے ہاتھ میں کوئی ایسی ڈور ہوتی کہ وہ وقت کی تیز رفتاری کو کم کر سکتی یا اسے روک لیتی ۔۔ظاہر ہے وقت کو روکنے کی تمنا ماضی کو واپس لانے یا مستقبل کی طرف اس قدر سرعت رفتار کے ساتھ جانے کے سفر کو روکنے کی خواہش ہے ۔۔
” سہارے مل ہی جاتے ہیں ” یہ مجموعہ نظموں اور غزلوں پر مشتمل شعری مجموعہ ہے ۔۔
گلفام نقوی کی ذاتی زندگی دکھ بھری داستان ہے ۔۔جس شخص کی ذاتی زندگی دکھوں میں گزری ہو وہ دوسروں کے دکھ بہت اچھی طرح سمجھتا ہے گلفام نقوی اپنے ایک قطعہ میں لکھتی ہیں ۔۔
جب بھی سنتی ہوں کسی اور کا قصہ کوئی
میری روداد کا لگتا ہے وہ حصہ کوئی
سوز دل اب کہاں لے جائیں گلفام
جس کو دیکھو لئے پھرتا ہے قصہ کوئی
گلفام نقوی نے اس مجموعہ میں ایسی نظمیں بھی لکھی ہیں جو بہت دکھ بھرے واقعات پر مبنی ہے۔ جن کو پڑھ کر وہ واقعات بالکل اسی طرح سے دوبارہ ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں اور ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے ۔۔آٹھ اکتوبر کا سانحہ اور سونامی تاریخ میں بہت بڑے واقعات ہیں ۔دونوں سانحے بڑی تباہی کا باعث بنے ۔لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے بلکہ گھر تباہ و برباد ہوگئے ۔۔لاکھوں ہنستے کھیلتے گھر مٹی کا ڈھیر بن گئے ۔۔لوگ اپنوں سے جدا ہو گئے ۔وہ معصوم بچے جو گھروں سے سکول پڑھنے کے لئے گئے تھے۔ کبھی واپس نہ آ سکے گلف امانت میں نے اپنی نظم “سانحہ 8 اکتوبر ” میں اسی ذرے کا ذکر کچھ اس طرح سے کیا ہے ۔
مرے سارے اپنے کہاں کھو گئے
وہ گلیاں وہی کوچے وہی جولا ،وہ ماتی
وہ بہنا وہ بچے وہ بابا وہ بھائی
وہ فرقت کے کھاؤ کہاں کھو گئے
میرے سارے اپنے کہاں ہ کھو گئے
وہ غنچے وہ مالی پرندے وہ بستی
معصوم ہاتھوں میں بستے وہ تختی
وہ سپنے سہانے کہاں کھو گئے
مرے سارے اپنے کہاں کھو گئے
۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ اس مجموعہ میں گلفام نقوی نے چند نظمیں اپنے پیاروں کے نام لکھیں ہیں جن میں احمد ندیم قاسمی، محسن بھوپالی اور پروین شاکر شامل ہیں ۔
“پانی پر بنیاد” گلفام نقوی کا چوتھا شعری مجموعہ ہے ۔ اس لحاظ سے یہ ان کی شاعری کا اب تک کا نقطہ عروج ہے ۔ان کی پہلی کتابوں کی طرح اس کتاب میں بھی سب سے زیادہ جس موضوع کو اہمیت دی گئی ہے وہ موضوع محبت ہے ۔۔محبت کی بہت خوبصورت احساس اور دلکش جذبہ ہے محبت کے بغیر زندگی کا کوئی وجود نہیں ہر انسان کو کسی نہ کسی سے محبت ضروری ہوتی ہے چاہے وہ ماں باپ سے ہو بہن بھائیوں سے اور سے ۔۔۔گلفام نقوی کا پسندیدہ موضوع بھی محبت ہے۔ ان کی محبت اپنے محبت کے لئے ان کے جذبات و احساسات کی آئینہ دار ہے ۔۔۔
گلفام نقوی کی شاعری صادق جذبات کا پرتو ہے۔انکی شاعری کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کی شاعری میں ان کی شخصیت بھرپور جھلکتی ہے ۔ گلفام نقوی کی شاعری معاشرتی رویوں کی عکاسی بھی کرتی ہے ۔ان کی ذاتی زندگی کوئی زیادہ آسودہ حال نہ تھی یہی وجہ ہے کہ ان کے آشوب ذات کا ان کی تخلیقات میں در آنا ایک فطری امر ہے ۔۔گلفام نقوی کی شاعری میں جا بجا محبت کی داستان نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں محبوب سے بے پناہ محبت کا ثبوت ملتا ہے اور ایک ایسا محبوب جو اپنے عاشق کو زندگی کے حالات و واقعات کا سامنا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ کر جا چکا ہے اور جس کے دوبارہ لوٹنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔
محبوب کے حوالے سے چند خوبصورت شعر ملاحظہ ہوں ۔۔۔
وہ ایک شخص مرے دل میں آ گیا کیسے
فلک کا چاند مرا گھر سجا گیا کیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیال یار کبھی دل کی رہ گزر سے گزر وصال یار کبھی گل بہار کر آنکھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مرے ساتھ ہی کب تھا جو مجھے چھوڑ گیا
اس سے شکوہ ہے مجھے اور نہ تقدیر کے ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کیا گم ہے کئی برسوں سے کچھ یاد نہیں
چلتے چلتے جو راہ عام میں کھو جاتی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہک سی پھیلی ہوئی ہے جو چار سو تیری
اداس دل کو ہوئی پھر سے آرزو تیری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلفام نقوی کی بیشتر نظمیں محبوب اور اس کی بے نیازیوں ،اس سے دوری ، جدائی ، تنہائی کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں ۔۔انہیں نظموں میں “شب کی آغوش میں” ،” دعا “، “پیاس “، “حسین لمحے سمیٹ لو “،” خالی کشکول”، بے تکی ساعتیں “،” جی چاہتا ہے “، زندگی کے میلے میں “،اور اس جیسی بہت سی نظمیں ہیں جن میں محبوب اور اس سے متعلق احساسات و جذبات کی فراوانی دکھائی دیتی ہے ۔۔
گلفام نقوی کی شاعری کے موضوعات میں تنوع کی فراوانی ہے وہ ہجر، محرومی ،تلخی ایام ،خواب و حقیقت، عرفان ذات ، مناظر فطرت ، انسانی ہمدردی ، جبلت ، اقدار اور فکر و احساس جیسے مضامین کو اپنی شاعری کے عریض کنویس پر سجاتی ہیں ۔۔
گلفام نقوی کی شاعری کا فنی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو ان کی شاعری میں وہ تمام فنی محاسن موجود ہیں جو اچھی شاعری کی جان ہوتے ہیں ۔انہوں نے اپنی شاعری میں تشبیہات و استعارات تلمیحات ترکیباب ،علامتیں اور صنائع بدائع کا خوبصورت استعمال کیا ہے ۔گلفام نقوی کی شاعری کا رنگ قاری کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے اور اپنے صحن میں رکھتا ہے گلفام نقوی اپنے اندر کی تنہائی اور اداسی کے باوجود زندگی کی حقیقتوں کا جواں مردی سے مقابلہ کیا ہے اور اب بھی پوری خود اعتمادی سے اپنی زندگی کا یہ سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ۔۔گلفام نقوی کے اس خوبصورت شعر پر اس گفتگو کا اختتام کرتا ہوں ۔۔۔۔
روز چپکے سے سر شام چلی آتی ہے
ایک اداسی میری دہلیز پہ سونے کے لئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔