انشاء اور منتشاء دونوں اچھی سہیلیاں تھیں۔ ان میں بہت ساری باتیں مشترک تھیں۔ ۔۔۔۔جیسےکہ دونوں ہی خوبصورت اور خوب سیرت تھیں۔ ذہین تھیں۔ ہم جماعت تھیں۔ ایک ہی کالونی میں رہنے کی وجہ سے اسکول ساتھ جایا کرتی تھیں۔ دونوں کے والد ایک ہی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ جو بہت محنتی ، خوداراور سمجھدار بھی تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ انشاء کی والدہ پڑھی لکھی خاتون تھیں ،اور منتشاء کی امی صرف دو کلاس تک ہی پڑھی یعنی کم پڑھی لکھی تھیں ۔
انشاء اور منتشاء دونوں ںساتھ ہی کھیلتیں ، گڑیا گڈے کی شادیاں رچاتیں، اسکول کا کام بھی ساتھ ہی کرتی تھیں۔
کورونا نامی وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے اچانکـــ سارے کاروبار بند ہو گٹے۔۔ دنیا تھم سی گئی۔ دونوں سہیلیاں چاہتے ہوۓ بھی مہینوں مل نہ سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج کافی دنوں بعد ذندگی رینگتی نظر آئ۔ لوگ ڈرے سہمے سے گھر سےمجبورا" نکل پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مدت بعد کالونی کے بچے کھیلتے ہوے خوش دکھائی دے رہے تھے۔ انشاء بھی اپنی سہیلی کے گھر جانے کی ضد کرنے لگی ۔ ماں کی اجازت ملتے ہی انشاء یہ جا ۔۔۔۔۔۔وہ جا۔۔۔۔۔ ۔
منتشاء اچانک اپنی سہیلی کو سامنے پا کر خوشی سےپھولے نہ سمایء۔۔فرط محبت سے دونوں سہیلیاں گلے ملیں ۔ منتشاء ہاتھ پکڑ کر انشاء کو کھینچتے ہوئے گھر میں لے گئی۔ مانو انشاء اسے چھوڑ کر بھاگ ہی جایے گی ۔دونوں ایک دوسرے سے مل کربہت خوش تھے۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد انشاء نے کہا " چلو کھیلتے ہیں۔" کھلونے سے نہیں ۔آج دونوں کاپی پنسل لے کر کوئی معمہ حل کرنے لگے۔
منتشاء کے ابو گھر پر نہیں تھے۔ امی اپنے کام میں مصروف تھیں۔ دونوں پورے انہماک سے معمہ حل کر رہی تھیں کہ ماہر۔، منتشاء کا بھائی جو ابھی صرف چار(4) سال کا تھا۔ روتا ہوا آیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ منتشاء گھبرائی ،ماہر کہیں گر کر تو نہیں آیا۔ ماہر روتا ہوا سیدھا امی کے پاس گیا ، جو باورچی خانے کی صفائ کر رہی تھیں۔ روتا ،پیر پٹکتا، امی کے پاس جا کر ضد کرنے لگا۔۔۔" امی مجھے کھانا دو ۔۔بھوک لگی ہـے ،مجھے ابھی ۔۔۔۔بس ابھی ہی کھانا چاہیے۔۔" ۔۔۔ماں اسے ٹالتی رہی ۔وہ روتا رہا۔ "مجھے کھانا چاہیے۔" ، "ٹھیک ہـے کچھ دیر اور رک جاو۔۔تمھارے ابو اپنے پیارے بیٹے کے لئیے کھانا لےکر آتے ہی ہوں گے"۔ اسے گود میں لے کر پیار سے بولی ،" چپ ہو جا میرے بیٹے۔"۔ ماہربھوک کی شدت سے تڑپ رہا تھا۔اب اور زور سے رونے لگا ۔بولا " امی آپ کب سے یہی کہہ رہی ہیں"۔ منتشاء کی امی نہیں چاہتی تھیں کہ انشاء کو کچھ بھی پتہ چلے۔ ۔۔۔ماہراب بھی امی کا دامن۔پکڑے ،"امی کھانا ۔۔۔۔بھوک لگی ہیے " کی رٹ لگائے ان کے آگے پیچھے گھوم رہا تھا۔۔۔امی کا صبر ٹوٹا وہ غصے، ناراضگی اور درد بھرے لہجے میں اپنی آواز کو قابو میں رکھ۔۔ ماہر سے کہنے لگیں۔۔۔"کہاں سے لاوں تمہارے لئیے کھانا۔۔۔۔ ۔۔کہاں سے لاوں۔ ۔۔۔کہا نا ! ابھی ابو آتے ہی ہوں گے۔ کھانا لے کر"۔
انشاء یہ سب دیکھ رہی تھی۔ گھر واپس آنے کے لئیے وہاں سے نکل پڑی۔۔۔۔راستے میں یہ خیال ستاتا رہا کہ' اس کے ،خود کے گھر کھانا کہاں سے آتا ہـے۔'۔۔۔۔۔۔اسی سوچ میں وہ گھر پہنچ گئی۔ اور وہی سوال اس نے اپنی امی سے کیا۔۔۔۔۔۔"امی اپنے گھر کھانا کہاں سے آتا ہـے۔ ۔۔۔ابو تو گھر پر رہتے ہیں ۔کام تو بند ہـے۔ پیسہ کہاں سے آتا ہـے۔" امی کو انشاء کے اچانک سوال پر کچھ حیرت سی ہوئی۔ حالات کو سمجھ کر مسکراتے ہوئے فورا"گویا ہوئیں ۔۔۔۔۔۔"گلک" سے۔۔۔۔۔یعنی "اپنے بچت ڈبے سے ۔۔۔۔۔ارے ہاں آپ نے مجھے بتایا تھا کہ بچت کی عادت ہمیں بہت ساری پریشانیوں سے بچاتی ہیں۔۔۔ بچت کا ڈبہ جادو کا ڈبہ ہـے۔ تھوڑا تھوڑا پیسہ اس میں ڈالتے رہو اور جب ہم کو ضرورت ہو تو "انشاء اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر۔۔۔۔۔۔" وہ ہم کو اتنا سارا دیتا ہــے"۔۔۔۔۔۔ اور مسکراتے ہوئے اچھل کر ماں کے گلے لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔ "امی میرا گلک۔۔۔۔۔ اس میں بھی تو پیسہ ہــے۔۔۔۔۔ میں منتشاء کی امی کو دے آوں۔۔۔۔ وہ اس سے ماہر کو کھانا لا کر دیں گی ۔۔۔وہ لاک ڈاون سے پیدا ہوۓ حالات سے واقف ہی تھیں۔ بیٹی کے کہتے ہی وہ سب سمجھ گئیں، انشاء خوشی سے دوڑتی ہوئی کمرے میں گئی اور اپنا گلک لے آئ ۔ "ماں میں جاوں" انشاءنے اچھلتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔ماں ۔۔۔۔ "بیٹا رکو میں بھی چلتی ہوں"۔۔۔ماں نے جلدی جلدی ٹفن میں گھر کا پکا ہوا کھانا بھرا۔کچھ چاکلیٹ بسکٹ اور روپیئے لفافے میں رکھے۔ وہ اور انشاء، منتشاء کے گھر کی طرف بڑھ گئے ۔منتشاء کے گھر پہنچے،تو دیکھا کہ اب بھی ماہر رو رہا ہـے۔ اسے روتا دیکھ انشاء کی امی نے چمکارتے ہوۓ کہا۔۔۔، "چلو رونا بند کرو ،تم تو بہادر ہو نا۔!۔۔۔۔۔،بہادر بچے روتے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ لو تمہارے چاکلیٹ"۔۔۔۔ماہر اپنے پسندیدہ چاکلیٹ پاتے ہی چپ ہو گیا۔۔اس کا چہرہ کھل اٹھا۔۔۔۔۔۔اس کے بعد منتشاء اور انشاء کو چاکلیٹ دے کر کھیل میں لگانے کے بعد انشاء کی امی اندر کچن میں جا کر منتشاء کی امی کو ٹفن اور لفافہ دیتے ہوئے بولیں " فریدہ بھابھی! یہ لیجیئے،۔۔۔ بجوں کے لئیے ہماری طرف سے ۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔
منتشاء کی امی جھجھکتے ہوئے۔۔۔۔۔ "یہ کیا ہـے باجی! آپ نے کیوں تکلیف کی۔۔۔۔۔کیسی تکلیف! ۔۔ باجی بھی کہتی ہو اور اس طرح کی باتیں۔ ۔۔۔۔
بھابھی یہ ہماری طرف سے تحفہ ہــے۔۔۔۔ بچوں کے لئیے۔۔۔ قبول کیجیے"۔ ۔۔انشاء کی امی بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ دونوں کو دعائیں دیتی ہوئ ان سے رخصت ہوئیں۔
دل ہی دل میں منتشاء کی امی اللہ کا شکر ادا کرنے لگیں۔۔۔۔اللہ نے ان کے بچوں کے لئے کھانے کا انتظام جو کر دیا تھا۔
گھر لوٹتے وقت انشاء کی امی ایک انجانی سی مسرت محسوس کر رہی تھیں ۔۔۔۔جیسے انھوں نے
"پوری دنیا فتح کر لی ہو"۔۔۔۔۔
“