بچہ کافی دیر سے وہاں کھڑا تھا۔ لیکن میں نے اُس کی موجودگی اُس وقت محسوس کی جب وہ بورڈ کی طرف مسلسل دیکھے جا رہا تھا اور ہنسنے لگا تھا۔عمر یہی بارہ تیرہ سال ہوگی۔ شلوار قمیض میں ملبوس‘ پیروں میں پشاوری چپل پہنے وہ بچہ بالکل عام بچوں جیسا لگ رہا تھا لیکن جب وہ تحریکِ انصاف کے بورڈ کو دیکھ کر ہنسنے لگا اور پھر ہنستا ہی رہا تو مجھے اچنبھا ہوا۔ بورڈ پر صرف اتنا لکھا تھا ’’دفتر تحریکِ انصاف‘‘ اس میں ہنسنے کی بات تو کوئی نہیں تھی۔ بچے کی ہنسی اور تحریکِ انصاف کا بورڈ … میں یہ پہیلی بوجھنے کیلئے اُسکے پاس چلا گیا اور اُس سے ہنسی کا سبب پوچھا۔ میرا سوال سن کر وہ پھر ہنسا۔ مجھے فراق کا شعر یاد آ گیا …؎ رونا فراق کا تری تصویر دیکھ کررونے کے بعد پھر تری تصویر دیکھنابالآخر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔’’بڑے میاں! آپ کو تعجب ہو رہا ہے کہ میں تحریکِ انصاف کے بورڈ کی طرف دیکھ کر ہنس رہا ہوں۔ آپ کا تعجب بجا ہے۔ میرے اعصاب مضبوط ہیں کیونکہ میں کسی شہری بابو کا GIRLISH بچہ نہیں ہوں۔ میں قبائلی بچہ ہوں۔ میرے اعصاب مضبوط ہیں۔ ورنہ یہ بورڈ دیکھ کر تو مجھے رونا چاہئے تھا! مجھے تو تعجب اسکے اندازِ تخاطب پر ہو رہا تھا جس طرح اُس نے مجھے بڑے میاں کہہ کر مخاطب کیا تھا بہت حد تک میں اپنی اوقات میں آ گیا تھا۔ اُس نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’بڑے میاں! میں اس لئے ہنس رہا ہوں کہ عمران خان قبائلیوں کے جرگہ سسٹم کے بہت حامی ہیں اور تبدیلی کے مخالف ! انہیں طالبان بھی بُرے نہیں لگتے۔‘‘ میں نے ہاتھ سے اُسے روکا‘ ورنہ وہ بات سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔ ’’بیٹے ! تم صرف عمران خان کی تحریکِ انصاف کے بورڈ پر کیوں ہنس رہے ہو‘ یہاں تو اور بھی بہت سے بزرجمہر ہیں جو جرگہ سسٹم کے حامی ہیں اور طالبان کا ’’اسلام‘‘ انہیں راس آتا ہے۔ بالخصوص اُس وقت جب وہ اس ’’اسلام‘‘ کی زد سے دور ہیں۔ آخر تم اُن پر کیوں نہیں اعتراض کرتے؟ تم صرف عمران خان کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔‘‘’’بڑے میاں! بات تم نے معقول کی ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان اور دوسرے لوگوں میں فرق ہے۔ فرق یہ ہے کہ مجموعی طور پر عمران موجودہ فرسودہ نظام کا حامی نہیں ہے۔ بالخصوص اسلئے کہ اُس نے اپنی مال و دولت باہر کے بینکوں میں نہیں رکھی نہ ہی اُسکے دوسرے ملکوں میں محلات ہیں۔ وہ کرپٹ سیاستدانوں کے بھی خلاف ہے۔ اُس سے کچھ امیدیں وابستہ ہیں۔ قوم اُسکی طرف دیکھ رہی ہے۔ رہے دوسرے عناصر جو قبائلیوں کو فرسودگی میں رکھنا چاہتے ہیں اور جنہیں طالبان کا اسلام پسند ہے‘ وہ آخر کون ہیں؟ مذہب کے نام پر سیاست یا سیاست کے نام پر اپنے مذہبی خیالات چمکانے والے! اُن سے مجھے کیا لینا دینا وہ تو صرف اپنی ہنسی اڑاتے ہیں۔ جو لوگ اسمبلیوں میں اپنے ہی خاندان کی خواتین متمکن کراتے ہیں اور جو اپنی زندگی میں اپنی گدیوں پر اپنی اولاد کو تخت نشین اور تاج پوش کرتے ہیں اُنکی بات کو کیا اہمیت دینی! رہے ریٹائرڈ جرنیل تو جو ایک خاص طرز زندگی گزارنے کے عادی ہیں‘ جنکے کیسے میں بڑے بڑے جرائم ہیں‘ جنہوں نے وردی پہن کر سیاسی جماعتوں کو ریوڑوں کی طرح ہانگا اور ایک پگڈنڈی سے دوسری اور دوسری سے تیسری پر چڑھاتے رہے‘ روپیہ بانٹتے رہے اور جو بزعم خود طالبان کی DYNAMICS (حرکیات) کے ماہر ہیں وہ سب تو چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ اُنکی بات سنتا کون ہے؟ خدا کی قسم! لوگوں کی اکثریت اُنکے اخباری ببانات پڑھ کر قہقہے لگاتی ہے۔ بڑے میاں! بات عمران خان کی کرو جس سے ہمیں امیدیں وابستہ ہیں۔‘‘ اُس نے بات جاری رکھی۔ ’’ایک ہفتہ ہوا عمران خان نے ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو دیا۔ جب کمپیئر نے اُس سے تابڑ توڑ انداز میں پوچھا کہ آخر قبائلیوں کا صدیوں پرانا نظام کیوں جاری رہے؟ تو عمران خان کے پاس صرف ایک دلیل تھی کہ ’’میں وہاں گیا ہوں اور آپ نہیں گئے۔‘‘ کیا عمران خان کو نہیں معلوم کہ گریٹ گیم GREAT GAME کیا تھی؟ روسی ڈرتے تھے کہ برطانوی ہند کی فوجیں افغانستان کو پار کر کے وسط ایشیا میں نہ گُھس آئیں اور انگریز خائف تھے کہ جنوب کی طرف یلغار کرتا اور منزلیں مارتا روسی استعمار افغانستان کو تاراج کر کے برصغیر میں نہ گُھس آئے۔ دونوں کو صرف ایک بات راس آتی تھی کہ قبائلی علاقے جوں کے توں رہیں اور افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان حد فاصل بنے رہیں۔’’کیا عمران خان کو نہیں معلوم کہ جرگہ سسٹم میں خان‘ ملک اور فیوڈل بے تاج بادشاہی کر رہے ہیں۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ 62 سالوں میں یعنی پاکستان بننے سے لیکر آج تک ان ملکوں ان خوانین اور ان فیوڈل لارڈز کو پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے کتنی دولت دی گئی ہے؟ کیا عمران خان کو نہیں معلوم کہ فاٹا کے ’’منتخب‘‘ نمائندوں کی شہرت کیا ہے۔ ابھی تو سینٹ کے حالیہ ’’انتخابات‘‘ پرانے نہیں ہوئے کیا عمران خان چاہتا ہے کہ یہی لوگ فاٹا کی نمائندگی کرتے رہیں؟ کیا اس جرگہ سسٹم کے ڈانڈے اُس پنچائتی نظام سے نہیں ملتے جو معصوم بچیوں کی ’’شادیاں‘‘ بوڑھوں سے کرتا ہے‘ جو عورتوں کو زندہ دفن کرتا ہے اور انہیں بھوکے کتوں کے آگے ڈالتا ہے؟‘‘ ’’اس قبائلی نظام نے قبائلی علاقے کو کتنے کالج اور کتنی یونیورسٹیاں دی ہیں؟ خواتین کے کتنے تعلیمی ادارے ہیں؟ کتنے شاپنگ سنٹر‘ کتنے ہسپتال‘ کتنی لائبریریاں‘ کتنی میونسپل کمیٹیاں‘ کتنے رفاہی ادارے اور کتنے تفریحی مراکز قبائلی علاقوں میں بنائے گئے ہیں؟ کیا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انقلابی باتیں کرنیوالے عمران خان کا آئیڈیل یہ جرگہ سسٹم ہے جس میں لوگوں کو بیٹھنے کیلئے کرسیاں اور چارپائیاں تو دور کی بات ہے‘ چٹائی تک نہیں میسر آتی؟ کیا قبائلی علاقوں کا حق نہیں کہ وہ جدید عدلیہ سے بہرہ ور ہوں؟ جدید تعلیم سے آراستہ ہوں اور جدید سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں؟ آج اگر عمران خان جرگہ سسٹم جاری رکھنے پر مصر ہے تو کل بلوچستان کے سرداری نظام کی حمایت بھی کریگا اور پرسوں پنچایت اور اترسوں ونی اور اُس سے اگلے روز کاروکاری کے حق میں آواز اُٹھائے گا۔ نہیں ! بڑے میاں ! نہیں ! ہمیں عمران خان سے ایسی امید نہیں۔ ہمیں تو یہ امید ہے کہ وہ ان خوانین کے پنجۂ استبداد سے ہمیں رہائی دلوائے گا اور عام قبائلی کو اتنی آزادی دلوائے گا کہ وہ اپنا مقدمہ آزاد عدلیہ کے پاس لیکر جائے۔ ایسی آزاد عدلیہ جو قانون کے جدید اصولوں کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتی ہے آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ پورے پاکستان کو انقلاب کی نوید دینے والا عمران خان سوات کو طالبان کے کنوئیں میں اور قبائلی علاقوں کو جرگہ سسٹم کی فرسودگی میں قید رکھنا پسند کرے؟ بچے نے جیب سے غلیل نکالی۔ اُس میں کنکر رکھا اور سیدھا بورڈ کو نشانہ بنایا۔ میں نے جھپاک سے غلیل کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔