میں نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے حیرت سے رانی آپا کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں کسی خوفزدہ ہرنی کی سی وحشت تھی ۔ چہرہ زرد پھول کی طرح کملا گیا تھا۔
” سنبل ۔ گلابوں والی گلی ۔۔۔ یاد ہے۔ ؟ ” ان کی آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی۔
میں نے آپا کی بات سن کر جسم میں ایک کپکپی سی محسوس کی ۔ بھلا رانی کو اس بات کا آج کیسے خیال آگیا تھا ۔ میری گرفت سٹیرنگ وہیل پہ کمزور پڑنے لگی ۔ ریڈ لائیٹ پہ گاڑی روک کر میں نے پہلے ساتھ بیٹھی اپنی بہن کی طرف دیکھا اور پھر پیچھے مڑ کر ان دو نوجوان سکول کی طالبات کی طرف جو اب میری اور آپا کی بیٹیاں تھیں ۔ ہم دونوں کی بیٹیاں ایک ہی سکول مین پڑھتی تھیں ۔ اس لئے ہم کبھی کبھار انہیں سکول سے اکٹھے ہی پک کر لیا کرتے اور ڈراپ بھی کر دیتے تھے ۔
اپر مال سے نہر کی خوبصورت شاہراہ پہ ڈرائیو کرتے کرتے آپا کا گلابوں والی گلی ذکر کرنا بہت عجیب تھا کیونکہ ہم سب ہی خوش گپیوں میں مصروف مزے سے گاڑی میں بیٹھے آپا کی طرف جارہے تھے ۔ مجھے یکدم سب کچھ یاد آگیا ۔
حالانکہ میر اخیال تھا کہ آپا کی طرح میں خود بھی اس واقعہ کو بھول چکی ہوں ۔ میں نے اسے ذہن کے کسی ایسے تاریک گوشے میں جا پٹخا ہوگا جہاں لاشعور کی منوں بوجھل تہوں تلے دب کر وہ ہمیشہ کے لئے گم ہوچکا ہوگا ۔
آخر اس بات کو بھی تو لگ بھگ پچیس برس گزر چکے تھے اتنے عرصے میں تو بچپن کی بہت سی باتیں دھندلی یادیں بن جاتی ہیں ، دھواں ہوجاتی ہیں ۔
تب رانی آپا اور میں ان دنوں لیڈی گریفن گرلز ہائی سکول میں پڑھا کرتی تھی ۔ آپا میٹر ک کی ہونہار طالبات میں شمار کی جاتی تھی اور میں ہمیشہ کی طرح شوخ شرارتی لڑکیوں میں ۔
ہم دونوں اکٹھے سکول آنے جانے کے علاوہ بھی پل پل ساتھ رہا کرتے تھے ۔ صبح سکول جانے کے لئے کرشن نگر کے آخری سٹاپ سے گڑھی شاہو کے لئے ایک یا دو نمبر بس لیتے اور اسی روٹ سے دوپہر کو واپس لوٹتے ۔ راستہ کافی لمبا ہوتا تھا مگر رش ، دھکم پیل اور آپس کی گپ شپ میں وقت اتنی جلدی گزر جایا کرتا تھا کہ پتہ نہیں چلتا تھا ۔ احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ گھر سے اتنی دور پڑھنے جاتے ہیں ۔
ریلوے ہیڈ کوارٹر کے گڑھی شاہو بس سٹاپ پر اتر کر سکول تک پہنچنے کے لئے ہم نے ایک شارٹ کٹ رکھا ہوا تھا اگر ہم اس شارٹ کٹ کو استعمال نہ کرتے تو برٹ انسٹی ٹیوٹ سے ہوکر سکول پہنچنے میں کافی دیر لگ جاتی اور زیادہ چلنا پڑتا تھا ۔
یہ شارٹ کٹ ایک پتلی سی گلی تھی جس میں سے گزرنا رانی آپا کو خاص طور پہ اس لئے اچھا لگتا تھا کیونکہ وہ گلی انہیں فردوس بریں لگا کرتی تھی ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اس گلی میں ایک ایسا گھر تھا جس کے مکینوں نے چاروں طرف گلاب ہی گلاب لگا رکھے تھے ۔ دیواروں پر گلابوں کی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں اور ماتھے پہ گلابوں کے جھومر سجے ہوئے تھے ۔ پورے مکان کی لینڈ سکیپنگ اس طرح کی گئی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا گویا اس نے گلاب پہن رکھے ہوں ۔
لال ، لال نارنجی ، گلابی پھول ماحول کو تازگی بخشتے اور عام سی گلی میں جان ڈالے دیتے تھے ۔
رانی آپا جیسی پھولوں کی عاشق تو وہاں پہنچ کر سلو موشن میں چلنے لگ جایا کرتی تھی۔ کیونکہ پھولوں کو للچائی نظروں سے دیکھ لینے کے بعد ان کی یہ خواہش بھی ہوتی تھی کہ کسی نہ کسی طریقے سے ایک آدھ گلاب چوری کر ہی لیں ۔ چوری کرلینے کے بعد وہ یوں مسرور اور مخمور ، مغرور سی ہوکر اسے اپنے لوہے کے پرانے جیومیٹری باکس میں رکھ کر تھوڑی دیر بعد سونگھا کرتیں جیسے ان کے قبضے میں ملکہ الزبتھ کے تاج سے اڑایا ہوا کوہ نور ہیرا آگیا ہو ۔ آپا ہمیشہ سے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش اور ناخوش ہوجایا کرتی تھیں ۔
اکثر جب ہم گلابوں والی گلی میں سے گزرتے تو کچھ اور لڑکیاں بھی مل جاتیں اور ہم لوگ ایک گروپ سا بنا کر یوں سکول کی جانب چلتے رہتے ، جس طرح نوجوان فاختاوں کی کوئی ڈار مل کر پرواز کر رہی ہو ۔
کبھی کبھار ایسا بھی ہوجاتا کہ گلی بالکل سنسان ہوتی ۔ ایسے میں ، میں اور رانی آپا اکیلے میں تیز تیز قدم اٹھاتے جلدی جلدی گزرجانا چاہتے ۔
ایسی ہی ایک صبح جب بس جلدی مل جانے کی وجہ سے ہم گلابوں والی گلی تک جلدی آگئے تو ہم نے دیکھا کہ گلی میں ابھی اور کوئی لڑکی نہیں پہنچی تھی ۔ جب ہم نے اپنی کزن ذکیہ کو بھی آتے دیکھا ۔ تو خدا کا شکر ادا کیا ۔ امتحان آنے والے تھے اس لئے ہم تینوں آنے والے مشکل دنوں کی باتیں کرتے جارہے تھے کہ یکدم ذکیہ نے جو کنارے پہ چل رہی تھی ایک دلدوز چیخ ماری ۔ اسی لمحے اس کی کاپیاں کتابیں زمین پہ جاگریں اور سر پہ لیا ململ کا سفید دوپٹہ ڈھلک گیا ۔
چیتے کی سی تیزی کے ساتھ پیچھے سے آنے والے ایک سائیکل سوار نے اس پھرتی کے ساتھ ذکیہ کے سینے پر جھپٹا مارا تھا جس طرح کوئی بھوکی چیل ہوا میں اڑتے اڑتے صدقے کے گوشت کی بوٹی جھپٹ لینے کو داو مارتی ہے ، پکڑنے کی کوشش کرتی ہے ۔
روتی ہوئی ذکیہ کے قدم ڈول رہے تھے ہم دونوں بہنوں نے اسے سہارا دینا چاہا مگر وہ لڑکھڑا رہی تھی ۔ میں اس سائیکل سوار کو کچا چبا ڈالنا چاہتی تھی اور میرے منہ سے مغلظات جاری تھیں ۔ رانی آپا البتہ خاموش اور خوفزدہ تھیں اس روز وہ اپنا روزانہ کا گلاب چوری کرنا بھی بھول چکی تھیں ۔
کچھ روز سکول میں اس واقعہ کا ذکر ہوتا رہا کیونکہ اس عمر میں بچیوں میں ایسی باتیں ہوتی ہی بہت سنسنی خیزہیں پھر سب بھول بھال کر امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے ۔
اس روز انگلش کا پہلا پرچہ تھا ۔ رانی آپا بہت خوش خوش سکول جارہی تھی ۔ کیونکہ انگریزی کی انہیں کوئی فکر نہ تھی ۔ ان کی انگریزی اتنی اچھی تھی کہ ان کی ٹیچرز کبھی کبھار دوسری طالبات کے پرچے بھی ان سے چیک کروالیا کرتی تھی۔ ہم دنوں بہنوں کو اس روز بس میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے لیٹ بس لینی پڑی ۔ دیر ہوجانے کی وجہ سے ہم تقریبا بھاگم بھاگ سکول کو جارہے تھے ۔
گلابوں والی گلی بالکل خالی پڑی تھی شاید سب لڑکیاں پہلے ہی جاچکی تھیں ۔ رانی آپا امتحانی گتہ کو سینے سےلگائے گلابوںکو تکتی جارہی تھیں ۔ اور میں رانی آپا کو ۔ مجھ سے عمر میں بڑی ہونے کے باوجود کئی باتوں میں ، میں اپنے آپ کو ان سے بڑا سمجھتی تھی۔
” ہائے اللہ ” رانی آپا کے منہ سے ایک سسکی سی نکلی ۔ میں بھی پل بھر کو ساکت ہوکر رہ گئی ۔ سامنے سے وہی سائیکل سوار آرام آرام سے سائیکل چلاتا آتا نظر آرہا تھا ۔ ہم دونوں کو ذکیہ کے ساتھ اس کی بدتمیزی یاد آگئی اور ہم اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔ ذکیہ کو تو اس لئے بھی پتہ نہیں چل سکا تھا کیونکہ وہ پیچھے سے چپکے سے حملہ آور ہوا تھا ۔ اب کی بار وہ ہمارے سامنے تھا ، ہم چوکنے ہوچکے تھے ۔
اس سے نظریں نہ ملانے کی کوشش میں ہم نے اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کر دیا ۔ ہم اس کا چہرہ دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے کہ سائیکل کی گھنٹی نے ہمیں اس پہ نظریں ڈالنے پہ مجبور کر دیا ۔ آپا نے ایک زور دار چیخ ماری اور میں نے بے اختیار ہوکر پاس پڑی ایک اینٹ ہاتھ میں اٹھالی ۔
سامنے سے آنے والی بے شکل ہیبت نے اپنے آپ کو یوں ایکسپوز کر رکھا تھا کہ وہ ایک مافوق الفطرت عجیب و غریب انسان نما جانور دکھائی دے رہا تھا ۔ اپنے مکروہ ننگے پن کی نمائش کرکے وہ یوں فخریہ انداز میں پاس سے گزر گیا جس طرح یہی اس کی مردانگی کا ثبوت اور دلیل ہو ۔
چند لحظوں بعد جب ہوش آیا تو وہ جانور کب کا وہاں سے جاچکا تھا ۔
امتحانی کمرے میں پہنچنے کے بعد بھی رانی آپا کی ہچکیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھیں ۔ ٹیچروں نے بہتیرا پوچھنا چاہا مگر رانی آپا گم صم رہیں ۔ کچھ نہ بتا سکیں ۔ روتے روتے پرچہ دیا ۔
گاڑی ڈرائیو کرتے کرتے میں ریڈ لائیٹ پہ رکنے کے بعد اب دوبارہ چل پڑی تھی ۔ پیچھے بیٹھی ہوئی ہماری بیٹیاں چٹکے ہوئے غنچوں کی طرح بے داغ معصوم اور بھولی بھالی گڑیاں دکھ رہی تھیں ۔
” آپا گلابوں والی گلی کا کیا ذکر ؟” میں نے ہولے سے آپا کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا اور پھر اس طرف دیکھنا شروع کر دیا جس طرف آپا کی نظر ٹکی ہوئی تھی ایک بڑی سی وین میں دس پندرہ نوجوان سوار تھے ، زیادہ تر نے چادروں کی بکلیں اس طرح مار رکھی تھیں کہ ان کے جسم کا ہر حصہ پوشیدہ تھا ۔ ان کے چہروں پر اطمینان اور سکون تھا ۔ ان کی وین کی ساری کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں جن میں سے انہوں نے متعدد کلاشن کوفوں کے منہ تھوڑے تھوڑے باہر کو ایکسپوز کر رکھے تھے ۔ کالے کالے جھانکتے ہوئے کلاشن کوفوں کے کے اگلے حصے اپنی بدصورت تھوتھنیاں سجائے ایک عریاں نظارہ پیش کر رہے تھے ۔
ان مردوں کے چہروں پہ بھی اپنی مردانگی کی نمائش کا تفاخراور تبسم موجود تھا ۔
” ننگے بے شرم ۔”
رانی آپا نفرت سے بولیں اور پیچھے بیٹھی ہوئی ہم دونوں کی معصوم کمسن حیرت زدہ بچیوں کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ دیئے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...