”گلاب جس نام سے پکارو گلاب ہی رہتا ہے“
نجانے یہ حسن کا قصیدہ ہے یا مرثیہ ،بہت کوشش کے باوجود سمجھ نہیں آٸ،یہ محض سرخ گلاب کے لیۓ ہے یا سفید گلاب بھی حسن کی تعریف کے معیار پر پورا اترتا ہے ،مہندی کی تقریب ہو حجلہ عروسی کی سجاوٹ ہو یا کسی جنازہ کی تیاری سرخ گلاب کی بکھری پتییاں ہر جگہ فٹ ہو جاتی ہیں ،دلہن کے کمرے میں گلاب کی خوشبو بسی ہوتی ہے تو عرق گلاب کی صورت میں حسن کو چار چاند لگانے کو بھی سرخ گلاب اپنا لہو پیش کرنے کو تیار ہے . یعنی” جتنا کوٸ نایاب ہو اتنا ہے استعمال بھی ہو گا“زندگی کا کتنا بھیانک اصول ہے یہ؟
کبھی گلاب کی مرضی نہیں جانی کسی نے کہ وہ اپنی شاخوں سے اتر کر کسی کے قدموں میں پتییاں بن کر بکھرنا چاہتا ہے یا ہواٶں کے دوش پر کھلی فضاٶں میں اپنی مہک بکھیرنا چاہتا ہے ؟ لہو رنگ کا گلاب کیسے انسانی ہاتھوں میں آکر پتی پتی ہو کر خود کو پامال کرتا ہے یہ شاٸد گلاب کی پیروں تلے روندی جانے والی پتییاں ہی جاتی ہیں جب یہی گلاب کسی قبر پر محبت کی نشانی کے طور پر بکھیرا جاتا ہے تو سرخ رنگ خاک پر پڑا کتنا سوگوار لگتا ہے اور قبروں کے پاس سے گزرنے والوں کوبھی گلاب کی مہک سے پتہ لگ جاتا ہے کہ آج کوٸ اپنے بچھڑوں کو کھوٸ ہوٸ محبت یاد کروانے آیا تھا اور گلاب کے ساتھ کچھ آنسو بھی نذرکر گیا ہے گلاب کی نازک پتییوں کو کشید کر کے عطر بھی بنایا جاتا ہے جسے خاص وعام میں مقبولیت حاصل ہے ،مزے کی بات گلاب کی خوشبو کی خاصیت شادی والے گھر میں معطر کن محسوس ہوتی ہے اور فوتگی والے گھر میں سوگواریت چھپاۓ ہوۓ یعنی انسانی احساسات ہی چیزوں کے زاویے طے کرتے ہیں ،جب سے ویلینٹاٸن ڈے کی شروعات ہوٸ ہے نٸ نسل بھی گلاب کی شوقین ہوگٸ ہے اب ایک گلاب کی کلی جذبات کے طوفان کو ظاہر کرنے کے لۓ کافی ہے،کیا سچ میں گلاب زندگی کے تمام مواقع کی مناسب عکاسی کرتا ہے ؟
میرا جواب نفی میں ہے ،نوچی ہوی پنکھڑیاں کیسے کسی کے جذبات کو ظاہر کر سکتی ہیں ،وہ تو خود انسانی ظلم کا شکار ہے ،شاخ سے جداہونے کا دکھ چھپاۓ ہوے اپنی بے بسی پر خاموش ماتم کناں ہے ،جذبوں کا اظہار کرنا ہو تو انسانی رویے ضروری ہوتے ہیں ایک دوسرے کے لیے آسانی پیدا کرنے اور ہموار راستے تخلیق کرنا محبت کہلاتا ہے ،صرف گلاب کی عارضی خوشبو لمحوں کا کھیل تو ہو سکتی ہے مگر مستقبل نہیں ان بکھری کلیوں میں سے خوشی کیسے تلاش کی جاسکتی ہے۔