یکم اپریل اپنی سالگرہ کے روز جب بچوں کو بتایا کہ میں کل سمبڑیال جا رہا ہوں اور وہ بھی اپنے اعزاز میں ایک ادبی نشست کے لیے تو سب میری طرف یوں دیکھنے لگے جیسے میں نے انہیں اپریل فول بنایا ہو یا کوئی بہت بڑا کائناتی انکشاف کیا ہو۔ ان کی حیرت بجا تھی کیونکہ میں اپنے لیے کسی تقریب میں اتنی دور کبھی نہیں گیا۔ لیکن اس بار بلانے والا، وہ بھی گاؤں میں، گُل، شیر اور بٹ تین اصلی جملہ اوصاف کا مجموعہ گُل شیر بٹ تھا۔ بڑی تقریبات، بڑے شہر، بڑے لوگ، میرے لیے کوئی خاص کشش نہیں رکھتے۔ گاؤں اور گاؤں کے لوگ میری کمزوری ہیں۔ میں خود بھی گاؤں سے بچھڑا ہوا وہ بچہ ہوں جو ساری زندگی شہروں میں گزار کر بھی بڑا نہیں ہوا، ابھی تک بچے کا بچہ ہوں۔ اس لیے گل شیر بٹ کی دیہی دانش اور “وکیلی” بلاوے کے سامنے بے بس ہو گیا اور چاہتے ہوئے بھی انکار نہ کر سکا۔ گل شیر بٹ سے تعلق زیادہ پرانا نہیں۔ چند سال قبل جب گلزار پاکستان آئے تھے تو گل شیر ان کے ایک مداح اور “خاموشی میں لپٹی آواز” کے مصنف کے طور پر متعارف ہوا۔ معلوم نہیں اسے میرے جیسے گمنام اور تصویروں میں فریم اور فوکس سے باہر کھڑے رہنے والے کی کون سی ادا بھا گئی کہ مستقل محبت کا رشتہ استوار کر لیا۔
اگلے روز بروز ہفتہ، 2 اپریل 2016ء کو صبح دس بجے سمبڑیال کے لیے روانہ ہوا۔ جہلم سے گزرتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ دھیان گگن شاہد، امر شاہد برادران کے بک کارنر کی طرف نہ جائے جو نام کا کارنر ہے اصل میں تو کتابوں کا “سرے محل” ہے۔ وہیں پہ نوجوان دانشور قمر یاسین کا ریسٹورنٹ ہے جس کا جنگلی پلاؤ، بار بی کیو اور چائے ان کی گفتگو کی طرح ذائقے دار ہے۔ دریائے جہلم کے پُل پر پہنچا تو مرحوم دوست جاوید اختر بیدی کی یاد آئی۔ غالباً ستر (70) کی دہائی کا وسط تھا، میں نے بیدی کے ساتھ دریائے جہلم میں پہلی بار کشتی کی سیر کی تھی۔ اس کے بعد ہمدانی ٹی اسٹال میں چائے پی تھی جو جہلم میں شاعروں ادیبوں کا گڑھ یعنی “ٹی ہاؤس” تھا۔ بیدی دینہ کے نواحی گاؤں ہڈالہ کا رہنے والا تھا۔ کٹر ترقی پسند تھا لیکن اس کی غزل میں بلا کی جدت تھی۔ مجھے اپنا ایک مصرعہ تک یاد نہیں لیکن اُس کے ابتدائی دَور کے کئی اشعار اب بھی یاد ہیں۔
گھسیٹتا ہوا صلیب وہ چلا تو بین کر رہی تھی، ماں جو تھی
وہ ایک نیلے چہرے والی تھی جو سرخ نین کر رہی تھی، ماں جو تھی
وہ جبر کے مصوروں کا شاہکار بادلوں کے اُس طرف چلا گیا
پیغمبری تو چپ رہی مگر وہ شور و شین کر رہی تھی، ماں جو تھی (بیدی)
بیدی جوانی میں برطانیہ چلا گیا تھا۔ اس لیے ادب کی مین اسٹریم سے دور ہو گیا۔ یہاں رہتا تو کئی چراغ اس آفتاب کے آگے ماند پڑ جاتے۔ وفات سے کچھ عرصہ پہلے پاکستان آیا تھا اور ہڈالہ میں اس سے ملاقات ہوئی۔ جگر کے کینسر نے اسے بہت کمزور اور ناامید کر دیا تھا۔ میں اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ یہ اس سے آخری ملاقات ہے۔
جہلم کے بعد سرائے عالمگیر نہر کا پُل پار کرتے ہی کھاریاں کی پبی شروع ہو جاتی ہے اور میرے اندر کی ٹائم مشین چل پڑتی ہے۔ میں نے کھاریاں میں عمرِ رواں کا طویل ترین عرصہ گزارا۔ چوتھی جماعت سے کالج تک یہیں تعلیم حاصل کی۔ کھاریاں کی گلیوں میں سچ مچ محبوب کی گلیوں کی طرح وقت نا وقت پھیرے لگائے۔ محبوب کی گلیاں کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔ صدیاں تاریخ کے قدموں تلے روندی جائیں، ان کی کشش کم نہیں ہوتی۔ شہروں کے نقشے اور ہمارے پتے تبدیل ہو جاتے ہیں، لیکن ان کا محلِ وقوع نہیں بدلتا کیونکہ یہ ہمارے اندر آباد ہوتی ہیں۔ کھاریاں کے ہوٹلوں میں دوستوں کے ساتھ غمِ جاناں اور محبوبِ دوراں کے غم میں چائے کے کپ پر لتا، طلعت، مکیش، کشور، منا ڈے، رفیع اور مسعود رانا کے گانے سنے۔ یہاں سے گزرتے ہوئے تاریخ کے پہیوں کی طرح میری گاڑی کے پہیے بھی رک رک جاتے ہیں۔ زمانوں سے خراب پڑی سی ڈی خود بخود چلنے لگتی ہے۔
ہم درد کے ماروں کا اتنا ہی فسانہ ہے
پینے کو شرابِ غم دل غم کا نشانہ ہے
دل نے کہا ایک چکر گھر کا اور شہر کا لگاؤں لیکن سوچا یہاں اب خالی گھر میں ماں باپ کی پرچھائیوں اور میرے اپنے ہاتھوں سے لگائے ہوئے گلابی مائل سفید پھولوں سے بھرے کچنار کے درخت کے سوا کون ہو گا۔ اور دوستوں میں صرف دیسی دواخانے والے جاوید صاحب رہ گئے ہیں جو اب شہر کی معروف کاروباری اور سماجی شخصیت ہیں۔ پتا نہیں گھر یا دکان پہ ہوں گے یا نہیں۔ وہ دکان جہاں میں روزانہ گھنٹوں بیٹھا کرتا تھا۔ کھاریاں چھاؤنی اور نواحی گاؤں سہنہ سے بھی بڑی یادیں وابستہ ہیں۔ وہ بھی وقت تھا جب فلم کا آخری شو دیکھ کر رات کے ایک بجے چھاؤنی میں آزادانہ پھرتے تھے۔ کئی بار تو فوجی خود جیپ میں بٹھا کر شہر تک چھوڑ جاتے تھے۔ اور اب یہ حالات کہ داخلے کے لیے جامہ تلاشی، اندراج اور اصلی شناختی دستاویزات کے بغیر اس طرف جھانکا بھی نہیں جا سکتا۔ نظر اٹھاتے ہی بلٹ پروف جیکٹ پہنے گن بردار فوجی سر پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ اچھا بھلا شریف آدمی بھی خود کو دہشت گرد یا دشمن ملک کا شہری سمجھنے لگتا ہے۔ کالج کے زمانے میں کتنی بار سائیکل پر چھاؤنی سے گزر کر عزیز دوست امین سے ملنے سہنہ گیا ہوں گا۔ اب امین بھی وہاں نہیں اور سولینز کو چھاؤنی سے گزرنے کی اجازت نہ ہونے کے باعث سہنہ کا راستہ بھی لمبا ہو گیا ہے ورنہ خیال تھا کہ گزرتے گزرتے عزیزہ کائنات مرزا کو پی سی ایس کا امتحان پاس کرنے کی مبارکباد ہی دیتا جاتا۔ یوں میں کیک کے خرچے سے اور کائنات مزید ایک صدی تک کھانا پکانے کی زحمت سے بچ گئیں۔ کیونکہ پتا نہیں یادِ ایام پھر کب اس طرف لائے! چھاؤنی سے ذرا آگے میاں جی کا ہوٹل ہے جس کی دال کے ذائقے اور خوشبو سے بچ کر نکل جانا ممکن نہیں۔ گلزار جب دینہ آئے تھے تو انہوں نے بھی میاں جی ہوٹل کو شرفِ طعام بخشا تھا۔
گجرات تک ناسٹلجیا میرے ساتھ رہا۔ وزیر آباد آتے آتے میں زمانہ حال میں واپس آ چکا تھا۔ یہاں سے مجھے بائیں طرف سمبڑیال/سیالکوٹ روڈ پہ مڑنا تھا۔ سمبڑیال فلائی اوور یوں بنا ہوا ہے جیسے کان کو الٹے ہاتھ سے پکڑا جائے۔ میں ان اطراف میں پہلی بار آیا تھا لیکن سڑک اچھی اور رہنما نشان واضح تھے اس لیے کوئی دقت نہ ہوئی۔ سمبڑیال پہنچتے ہی گل شیر بٹ اور ان کے دوست میاں مسعود لینے کے لیے آ گئے۔ میاں مسعود اچھے ادبی ذوق کے مالک نکلے، ان سے خوب گپ شپ رہی۔ جب گل شیر بٹ کے گاؤں امریک پورہ میں ان کے ڈیرے پر پہنچے تو سہ پہر ڈھل رہی تھی اور گاؤں کے چوگرد کھیتوں کی ہریالی کو ہلکی دھوپ ماند کر رہی تھی۔ ڈیرہ کیا تھا ماڈرن قسم کا مہمان خانہ تھا۔ بڑا سا ڈرائنگ روم چارپائیوں کی بجائے صوفوں سے بھرا ہوا تھا، گیراج میں اور صحن میں گاڑیاں کھڑی تھیں۔ نشت کا وقت ساڑھے چھ بجے تھا لیکن احباب پہلے ہی آنا شروع ہو گئے یہاں تک کہ ڈرائنگ روم کم پڑ گیا۔ مجبوراً صحن میں دائرے کی شکل میں کرسیاں لگائی گئیں اور سب جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے۔ حاضرین کی تعداد قابلِ رشک تھی۔ اتنی تعداد تو بڑے شہروں میں اکادمی کی تقریبات اور حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاسوں میں نہیں ہوتی جتنی یہاں ایک گاؤں میں تھی۔ ان میں شعرا کم اور سامعین زیادہ تھے۔ ملک کے ہر گاؤں میں اگر ایک گل شیر بٹ ہو تو ڈیرے اور دارے لڑائی جھگڑوں کے بجائے محبت اور صلح کے گہوارے بن جائیں۔
شام ڈھلے نیم روشن ماحول میں پہلے مقامی شعرا ایم اے کاظم، دلشاد احمد، منظر کاشف، جیم میم جاوید اور کرنل طاہر نے اپنا اپنا خوبصورت کلام سنایا۔ آخر میں سب نے اپنی اپنی پسند کے مطابق مجھ سے نظمیں اور غزلیں سنیں اور دل کھول کر داد دی۔ ہلکی پھلکی گفت و شنید بھی چلتی رہی۔ سامعین کی دلچسپی اور ذوق و شوق قابل دید تھا۔ جن حاضرین کے نام یاد رہ گئے ہیں ان میں نوید گورسی، راحیل چیمہ، ذوالفقار حیدر، فیض احمد چیمہ، میاں مسعو الدین، شبیر احمد وغیرہم شامل ہیں۔ جن احباب کے نام درج ہونے سے رہ گئے ہیں ان سے دلی معذرت۔ البتہ جن دو صاحبان سلطان ناصر اور شاہد ذکی کو آنا چاہئیے تھا وہ بوجوہ نہ آ سکے۔ اس دوران مچھر بھی خوب دادِ سخن دیتے رہے۔ تاوقتیکہ گل شیر نے لنگر کھولنے کا اعلان کیا۔ یہ لنگر دال روٹی والا نہیں تھا، اس میں قورمہ، پلاؤ، ملی جلی سبزیاں، سلاد اور کلچے تھے۔ کھانے کے بعد زیادہ تر احباب چلے گئے، کچھ رات گئے تک بیٹھے رہے۔ پروگرم تو رات رکنے اور اگلے روز مضافات کی سیر اور مزید محبتیں سمیٹنے کا تھا لیکن اتوار کے کام مسلسل یاد آ رہے تھے۔ سو اجازت لی اور فجر کی اذان سے ذرا پہلے واپس راولپنڈی اپنے حجرے میں پہنچ گیا جہاں ہمیشہ کی طرح بستر پر کتابوں کا ڈھیر میرا منتظر تھا۔