کیا اِس پر دُکھ کا اظہار کیا جائے؟
میں اور بٹ صاحب ریڑھی کے پاس کھڑے بھنے ہوئے گرم گرم چنے کھا رہے تھے۔ اتنے میں ایک فقیر قریب آیا اور ہاتھ پھیلایا‘ میں نے جیب میں سے دس روپے کا نوٹ نکال کر اسے تھما دیا۔ وہ دعائیں دیتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔ بظاہر یہ ایک عام سی بات لگتی ہے لیکن بٹ صاحب کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں۔ انہوں نے فوراً مجھے کندھے سے پکڑ کرہلایا’’کیا خیال ہے، یہ کوئی فقیر تھا؟‘‘۔ میں نے لاپرواہی سے ایک پھکا مارتے ہوئے اثبات میں سرہلادیا۔ بٹ صاحب پراسرار انداز میں میرے کان کے قریب ہوئے۔۔۔’’ہوسکتا ہے وہ فقیر نہ ہو بلکہ کسی دشمن ملک کی ایجنسی کا بندہ ہو‘ ہماری حرکات نوٹ کر رہا ہو اور آگے جاکر رپورٹ کردے‘ ‘۔ میں بے اختیار اچھلا اور چنے کا لفافہ زمین پر گر گیا۔ بٹ صاحب کے جملے نے مجھے لرزا کر رکھ دیا تھا۔میں نے ہاتھ جوڑے’’خدا کے لیے بٹ صاحب! بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات چیزیں ویسی ہی ہوتی ہیں جیسی نظر آرہی ہوتی ہیں‘ نہ خوامخواہ ہر چیز میں سے منفی پہلو نکال لیا کریں‘‘۔ بٹ صاحب دھیرے سے مسکرائے’’ممکنات پر سوچنا ہی ایک عقلمندانسان کا کام ہوتاہے‘‘۔
بٹ صاحب صرف ممکنات پر ہی نہیں ’’ناممکنات‘‘ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ایک دفعہ تو سڑک سے گذرتی نئے ماڈل کی گاڑی کو دیکھ کر فرما چکے ہیں کہ’’ہوسکتا ہے اس بندے نے اپنی موٹر سائیکل تڑوا کر گاڑی بنوا لی ہو‘‘۔بٹ صاحب کو ہر چیز میں کچھ نہ کچھ فرض کرنے کی عادت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب سب کچھ ہوسکتا ہے تو ان کے سوچنے پر مجھے کیوں تکلیف ہے۔ بٹ صاحب خود کوئی بات بیان کریں تو اس میں فرض کرنے والی تمام چیزیں دور پھینک دیتے ہیں۔حتمی اور قطعی بات کرتے ہیں اور پھر اُس پر بضد ہوجاتے ہیں۔ ایک دفعہ بات ہورہی تھی کہ دفتر کی لفٹ دوسرے فلور پرضرور رکتی ہے۔ بٹ صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے آج تک لفٹ کو کبھی دوسرے فلور سے خالی جاتے نہیں دیکھا۔ میں نے کہا ‘ ہوسکتا ہے کہ کبھی یہ خالی گئی ہو اور آپ اس وقت موجود نہ ہوں۔ بٹ صاحب نے تیزی سے نفی میں سرہلایا’’ایسا ہوہی نہیں سکتا‘ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ یہ لفٹ دوسرے فلور سے کبھی خالی نہیں جاتی‘‘۔ میں نے التجا کی کہ حضور سوفیصد کی بجائے یقین کی شرح 70 یا 50 فیصد ہی کرلیجئے لیکن وہ نہیں مانے۔اتفاق سے تھوڑی دیر بعد ہم اسی لفٹ میں سوار ہوئے جودوسرے فلور کو لفٹ کرائے بغیر ڈائریکٹ پانچویں فلور پر لینڈ کرگئی۔ میں نے بٹ صاحب کی توجہ دلائی تو لاپرواہی سے بولے ’’کبھی کبھی نہیں بھی رکتی ہوگی‘‘۔ آسمان پر کوئی جہاز اڑ رہا ہوتو بٹ صاحب کے منہ سے بے اختیار نکلتا ہے’’ہوسکتا ہے یہ راستے میں ہی تباہ ہوجائے‘‘۔ قریب کھڑے کوئی صاحب ٹوکتے ہوئے خیر کاجملہ بولنے کے لیے کہیں تو بٹ صاحب کا رٹا رٹایا جملہ ہوتاہے’’ہونے کو کیا نہیں ہوسکتا؟‘‘۔یہ وہی بٹ صاحب ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک دوست نے نیا گھر بنوایا اور بٹ صاحب کو دکھانے کے لیے لے گیا۔ بٹ صاحب نے غور سے گھر کی طرف دیکھا اور سرہلاتے ہوئے بولے’’ماشاء اللہ گھر مضبوط لگ رہا ہے‘ لیکن بم کے آگے کچھ نہیں۔۔۔‘‘
بٹ صاحب کے مخالف کے گھر اولادبھی پیدا ہو تو بٹ صاحب فوراً احباب میں خطرے کا اظہار کردیتے ہیں کہ ہوسکتا ہے بڑ ے ہوکر دہشت گرد بن جائے۔ ایسے موقعوں پر بٹ صاحب کو سمجھایا جائے تو وہ آگ بگولہ ہوجاتے ہیں کہ میں کون سا کہہ رہا ہوں کہ ایسا ہی ہوگا‘ میں تو صرف فرض کررہا ہوں۔اس کے برعکس خود جب بٹ صاحب کو سامنے سے آنے والے خطرے کی بھی نشاندہی کردی جائے کہ بٹ صاحب موبائل سنتے ہوئے سیڑھیاں نہ اترا کریں تو فوراً جواب آتاہے’’مینوں پتا اے‘‘۔ اور اگلے ہی لمحے ’’فرش بوس‘‘ ہوئے ہوتے ہیں۔میں نے ایک دفعہ بٹ صاحب سے پوچھا کہ حضور! آپ اتنا منفی کیوں سوچتے ہیں؟۔ بے نیازی سے بولے’’میں تصویر کا ہر رُخ دیکھنے کا عادی ہوں‘‘۔ ماشااللہ۔۔۔سراسر بکواس تھی لیکن برداشت کرنا پڑی حالانکہ سچ یہ ہے کہ بٹ صاحب اور ان جیسے لوگ اپنے علاوہ سب کے لیے تصویر کا بھیانک اور تاریک رُخ ہی دیکھتے ہیں۔انہیں یقین ہوتاہے کہ ان کے علاوہ ہر بندہ جو کچھ کر رہا ہے وہ غلط ہے‘ بیہودہ ہے اور نقصان دہ ہے۔
زینب قتل کیس کے متعلق ان کا خیال۔۔۔سوری۔۔۔یقین تھا کہ قاتل کوئی انڈین ایجنٹ ہے۔ لیکن کل سے وہ بھنائے ہوئے پھر رہے ہیں۔ کہتے ہیں’’ہوسکتاہے پکڑا جانے والا شخص قاتل نہ ہو۔۔۔ڈی این اے کرنے میں غلطی ہوگئی ہو۔۔۔پولیس نے زبردستی ملزم سے بیان لے لیا ہو۔‘‘ سوال پوچھاگیا کہ مذکورہ تفتیش میں صرف پولیس ہی نہیں آئی ایس آئی سمیت دیگر انٹیلی جنس ادارے بھی شامل تھے‘ تو کیا سب پر شک ہے؟ غصے سے سے بولے’’انسانی غلطی کہیں بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ اگلاسوال کیا گیاکہ آپ کو کیسے یقین آسکتا ہے کہ ملزم یہی ہے۔ اطمینان سے بولے’’ملزم کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور وہ خود اطمینان سے جب بہتر سمجھے بتائے کہ اس نے یہ قتل کیا ہے‘‘۔ایک آواز آئی’’محترم ! اگر وہ نہ مانے تو؟‘‘بٹ صاحب بولے’’توپھر اسے پکڑا جائے جو خود یہ بات تسلیم کرے‘‘۔
یہ محض بٹ صاحب ہی نہیں کہہ رہے‘ فیس بک بھری پڑی ہے ایسے بیانات سے۔ایسا لگتاہے ملزم کا پکڑے جانا بھی کئی لوگوں کو ناگوار گذرا ہے۔ایک درندہ جس نے آٹھ بچیوں کا قتل کیا‘ جس کا ڈی این اے میچ کر گیا‘ جس کا پولی گرافک ٹیسٹ پازیٹو آیا‘ جس نے خود اپنے جرم کا اقرار کیا۔ جس کی شکل بھی پہچانی گئی۔ جس کے بارے میں محلے داروں نے بھی بھرپور شک کا اظہار کردیا۔ جسے تمام ایجنسیوں نے بھی مجرم قرار دے دیا۔۔۔اس کے بارے میں مزید کیا ثبوت چاہیے؟ مزید ثبوت ملتے ہیں تو اچھی بات ہے لیکن کیا موجودہ ثبوت ناکافی ہیں؟ ایک جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ ملزم کو اتنی دیر سے گرفتار کیوں کیا گیا۔ یقیناًایسی غلطیاں ہوجاتی ہیں‘ اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس بھی ابھی تک عمران فاروق کے قاتل تک نہیں پہنچ سکی ‘ جس دن پہنچے گی ‘ کامیابی کی حق دار قرار پائے گی‘ کوئی یہ نہیں پوچھے گا کہ اتنی دیر کیوں لگی؟ امریکہ اور یورپ جیسے ممالک میں تو کئی کیسز بیس بیس سال بعد حل ہوئے یہ تو چودہ دن کی محنت تھی۔آفرین اُن پر ہے جو میرے دوست بٹ صاحب کی طرح نقطہ نکال لائے ہیں کہ یہ شخص قربانی کا بکرا ہے‘ اصل مجرم کوئی اور ہے۔ قربانی کے بکرے سے مراد اگر بے گناہ شخص ہے تو پھر ہمیں بتانا ہوگا کہ آخر وہ کون سا طریقہ ہے جس سے ہم کسی کو مجرم ثابت کر سکتے ہیں۔سائنسی اور قانونی طریقہ کار سے تو مجرم پکڑاجاچکا ہے‘ اب اگر کوئی اور بھی طریقہ ہے تو بتانا چاہیے ‘ اچھی بات ہے کہ ہر طریقے سے مجرم کو شناخت کیا جائے۔احباب جانتے ہیں کہ سیاست میرا موضوع نہیں لیکن ایک پاکستانی کی حیثیت سے مجھے زینب اور دیگر بچیوں کی موت کا دُکھ اور قاتل کی گرفتاری کی خوشی ہے ۔ سیریل کلر کی گرفتاری پر خوشی کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ‘ یہ خوشی ‘ خوشی قانون کی کامیابی پر ہے‘ خوشی ایک مجرم کے پکڑے جانے پر ہے‘ خوشی اس بات کی ہے کہ پھول جیسی بچیوں سے درندگی کرنے والا اب شکنجے میں ہے ۔۔۔کیا اس پردُکھ کا اظہارکیا جائے؟
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“