پہلے ایک قصہ تاریخ سے۔ سترہویں صدی نیدرلینڈ کی ترقی اور خوشحالی کا سنہرا دور تھا۔ ایمسٹرڈیم دنیا میں اہم بندرگاہ اور معیشت کا مرکز تھا اور ایشیا سے ہونے والی تجارت کے نتیجے میں امیر تاجر طبقہ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ اس دولت کی نمائش کا ایک طریقہ گھر کے باہر خوبصورت پھولوں کے باغ کا تھا۔ ان میں سے ایک پھول کی ڈیمانڈ بہت زیادہ تھی جو ٹیولپ تھا۔ یہ ایک مہنگا پھول تھا اور یہ امارت کی نشانی سمجھا جاتا۔ اس کو باہر سے لایا جاتا اور اس کا اگانا مشکل تھا اور پھول اگنے تک سات سے بارہ سال کا وقت تھا۔ 1631 میں ان میں ایک وائرس پھیلا۔ اس میں پھیلنے والے ایک وائرس کا نتیجہ یہ تھا کہ ایک ہی پھول میں کئی رنگ کی شعلے نما دھاریاں بن جاتی تھیں اور اس وائرس سے متاثر پھول انتہائی خوبصورت تھے۔ یہ وائرس بیج سے نہیں بلکہ کلی سے پھیلتا تھا، اس لئے ایسے پھول تعداد میں کم تھے اور عام اگائے نہیں جا سکتے تھے۔ نیدرلینڈ کی خوشحالی اور ان پھولوں کی خاصیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی طلب اور پھر قیمت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ یہ اس قدر بڑھانا شروع ہوا کہ اس پھول کی چاہت اور اس سے ہونے والے بزنس نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا اور یہ دور تاریخ میں ٹیولپ کے بخار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پھولوں کی چالیس سے زیادہ اقسام تھیں (جن میں سے زیادہ تر آج موجود نہیں رہیں)۔ ان میں سے ایڈمیرل وان ڈر آئیک پھول کی قیمت سے زیادہ تھی۔ پھولوں کی اس مارکیٹ میں فیوچر مارکیٹ بنی، پھر مارجن فائننس کے ذریعے مستقل کے پھولوں کو خریدنے کا آغاز ہوا اور لوگ بغیر پھول کو دیکھے ہی راتوں رات امیر ہونا شروع ہو گئے۔ پھر تین فروری 1637 کو ہارلم میں ہونے والے ایک نیلام میں کوئی خریدار نہیں آیا اور یہ مارکیٹ پورے ملک میں اگلے کچھ ہفتوں میں کریش ہو گئی۔ نیدرلینڈ میں معیشت کو اس دھچکے سے سنبھنلے میں کئی برس لگے۔ اس بلبلے میں بکنے والا سب سے مہنگا ٹیولپ وائسرائے تھا جس کی قیمت اس وقت کے اوسط گھر کی قیمت کے پانچ گنا سے زائد تھی۔
یہ واقعہ تاریخ میں منفرد نہیں۔ کویت کی سوق المناخ، آسٹریلیا کا پوزائیڈن ببل، برطانیہ کا ریلوے مینیا، امریکہ میں ڈاٹ کام ببل، 1980 کا چاندی کا اور پھر سونے کا ببل، 1997 میں ایشیا کا مالیاتی بحران، بہت سے ممالک میں پراپرٹی کے بلبلے اور اس قسم کے تاریخ میں بہت سے واقعات اسی طرز پر ہیں۔
ایسا کیوں ہے، یہ خود ٹاپک ہے کراؤڈ سائیکولوجی کا لیکن کنٹرول سسٹمز کی نظر سے دیکھیں تو اس کی وجہ مثبت فیڈ بیک ہے۔ کسی چیز کی مانگ زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھ رہی ہے اور پھر قیمت بڑھنے سے مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دونوں ویری ایبل ایک دوسرے کو بڑھا رہے ہیں۔ پھر اسی طرح نتیجے میں ہونے والا کریش میں اسی طرح کی مثبت فیڈ بیک کی وجہ سے ہے۔
کیمسٹری، سوشیالوجی، معاشیات، ماحولیات، نفسیات، ارتقائی بائیولوجی، جین ریگولیشن، الیکٹرانکس وغیرہ سبھی میں اس قسم کی فیڈ بیک کا طریقہ ان کے مختلف سسٹمز میں نظر آتا ہے۔ جب بھی کوئی سسٹم مستحکم نظر آئے تو اس میں منفی فیڈبیک کا طریقہ ملے گا اور جب بھی کوئی بڑھتا، گھٹتا سسٹم تو اس میں مثبت فیڈ بیک ہو گی۔ اگر مثبت فیڈ بیک کو لِمٹ کرنے کا طریقہ نہ ہو تو سسٹم اپنے آپ کو تباہ کر لیتا ہے جس کی ایک مثال نیوکلئیر چین ری ایکشن کی ہے۔
کسی بھی طرح سسٹم کے تجزیے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس میں فیڈ بیک کے لوپ ڈھونڈیں، لِمٹ تلاش کریں اور پھر جواب مل جائے گا کہ سسٹم ویسا کیوں ہے جیسے نظر آتا ہے۔