اردو کے مشہور افسانہ نگارغلام عبّاس امرتسر میں ۱۹۰۹ء میں پیدا ہوئے تھے۔انیسویں صدی کے وسط میں سیاسی اُتھل پاتھل سے متاثر ہو کر ان کے خاندان نے افغانستان سے ہندوستان کو ہجرت کی تھی۔اُن کے خاندان کے لوگ پہلے لدھیانہ میں مقیم ہوئے، بعد ازاں امرتسر میں اور پھر لاہور چلے گئے۔کراچی میں ۱۹۸۲ء میں ان کا انتقال ہوا۔
غلام عبّاس نے کسی ادبی ادارے یا تحریک سے وابستہ ہوئے بغیر ہی اپنے افسانوں ،آنندی اور اوورکوٹ کے ذریعہ عالمی شہرت حاصل کی۔’آنندی‘ ، ’جاڑے کی چاندنی‘ اور’ کان رس‘ ان کے افسانوں کے مشہور مجموعے ہیں۔
اس مضمون میں مصنف نے گل عبّا س کی آپ بیتی پیش کی ہے۔جس میں انہوں نے ایک بیج سے پودا، پودے سے کلی اورکلی سے پھول بننے تک کا سفر ہی نہیں بیان کیا ہے بلکہ گل عبّاس کے بیج کا گھر چھوڑ کر روشنی کی طرف بڑھنے اور پھول کا اپنے باغ سے نکلنے کا مقصد ایک دُکھیاری بیمار بچی کو تھوڑی دیر کی خوشی فراہم کرنابتایاہے۔ گویا اس سے ہمیں اندھیروں سے نکل کر روشنی کی طرف چلنے اورمریضوں اور دُکھیوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کا درس ملتا ہے۔
گل عباس
میں ایک چھوٹے سے کالے کالے بیج میں رہتا تھا۔ یہی میرا گھر تھا۔ اس کی دیواریں خوب مضبوط تھیں اور مجھے اس کے اندر کسی کا ڈر نہ تھا۔ یہ دیواریں مجھے سردی سے بھی بچاتی تھیں اور گرمی سے بھی۔ کچھ دِن تو میں اِدھر اُدھر رہا، لیکن میرا گھر کالی مٹّی میں دَبا دِیا گیاکہ کوئی اُٹھا کر پھینک نہ دے اور میں کِسی شریر لڑکے کے پاؤں تلے نہ آ جاؤں۔ زمین کی مدّھم گرمی مجھے بہت اچھی لگتی تھی اور میں نے سوچا تھا کہ بس اب میں ہمیشہ مزے سے یہیں رہوں گا، مگر میرے کان میں اکثر میٹھی میٹھی سُریلی سی آواز آتی تھی۔ میں ٹھیک سے نہیں کہہ سکتا کہ آواز کدھر سے آتی تھی، مگر میں سمجھتا ہوں کہ اوپر سے آتی تھی۔ یہ آواز مجھ سے کہا کرتی تھی کہ ’’اِس گھر سے نکل! بڑھ روشنی کی طرف چل!‘‘ لیکن میں زمین میں اپنے گھر کے اندر اَیسے مزے سے تھا کہ میں نے اُس آواز کے کہنے پر کان نہ دھرا۔ اور جب اُص نے بہت پیچھا کیا تو میں نے صاف کہہ دِیاکہ: ’’نہیں!—میں تو یہیں رہوں گا۔ بڑھنے اور گھر سے نکلنے سے کیا فائدہ؟یہیں چین سے سونے میں مزہ ہے۔ یہیں! میں تو یہیں رہوں گا۔‘‘
یہ آواز بند نہ ہوئی۔ ایک دِن اُس نے اَیسے پُر اثر انداز سے مجھ سے کہا:’’ چلو ! روشنی کی طرف چلو! کہ مجھے پھریری سی آگئی اور مجھ سے رہا نہ گیا۔میں نے سوچا اِس گھر کی دیواروں کو توڑ کر باہر نکل ہی آؤں، مگر دیواریں مضبوط تھیں اور میں کمزور۔ اب جب وہ آواز مجھ سے کہتی کہ ’’بڑھے چلو!‘‘ تو میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتاتھااور مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میں بہت طاقتور ہو گیا ہوں۔ آخر کو اللہ کا نام لے جو زور لگایا تو دیوار ٹوٹ گئی اور میں ہر اکِلّہ بن کر نکل آیا۔اس دیوار کے بعد زمین تھی مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور اُس کو بھی ہٹا دِیا۔اَب میں نے اپنی جڑوں کو نیچے بھیجاکہ خوب مضبوطی سے جگہ پکڑ لیں۔ آخر کو ایک دِن میں زمین کے اندر سے نکل ہی آیا۔اور آنکھیں کھول کر دُنیا کو دیکھا۔ کیسی خوب صورت اور اچھی جگہ ہے۔
کچھ دِنوں بعد تو خوب اِدھر اُدھر پھیل گیااور ایک دِن اپنی کلی کا منہ جو کھولا تو سب کہنے لگے:’’دیکھو! کیسا خوب صورت لال لال گل عبّاس ہے۔‘‘میں نے بھی جی میں سوچا کہ اُس تنگ گھر کو چھوڑا تو اچھا ہی ہے۔آس پاس اور بہت سے گل عبّاس تھے۔میں اُن سے خوب باتیں کرتا اور ہنستا بولتا تھا۔دِن بھر ہم سورج کی کرنوں سے کھیلا کرتے تھے اور رات کو چاندنی سے۔ ذرا آنکھ لگتی تو آسمان کے تارے آکر ہمیں چھیڑتے تھے اور اُٹھا دیتے تھے۔ افسوس! یہ مزے زِیادہ دِن نہ رہے۔ایک صبح ہمارے کان میں ایک سخت آواز آئی۔ ’’ گلِ عبّاس چاہیے، گلِ عبّاس!‘‘ اچھا جتنے چاہیے لے لو۔‘‘ہمارے سمجھ میں یہ بات کچھ نہ آئی اور ہم حیرت ہی میں تھے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ اور اِرادہ کر رہے تھے کہ ذرا چل کر اپنے دوست ستاروں سے کہیں کہ دوڑو! ہماری مدد کرو!یہ کیا معاملہ ہے؟ اتنے میں کسی نے قینچی سے ہمیں ڈنٹھل سمیت کاٹ لیا اور ایک ٹوکری میں ڈال دِیا۔
اب یاد نہیں کہ اُس ٹوکری میں کتنی دیر پڑے رہے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ میں اوپر تھا نہیں تو گُھٹ کر مر جاتا۔ شاید میں سو گیا ہوں گا، کیونکہ جب میں اُٹھا ہوں تو میں نے دیکھا پانچ چھ اور ساتھیوں کے ساتھ مجھے بھی ایک خوب صورت تاگے سے باندھ کر کسی نے گلدستہ بنایاہے۔ آس پاس نظر ڈالی تو نہ باغ کی روشیں تھیں، نہ چڑیوں کا گانا۔ سڑک کے کنارے ایک چھوٹی سی میلی کچیلی دوکان تھی۔ ہزاروں آدمی اِدھر اُدھر آجا رہے تھے۔یکے گاڑیاں شور مچا رہی تھیں۔فقیر بھیک مانگ رہے تھے اور کوئی ایک پیسہ نہ دیتا تھا۔میرا جی ایسا گھبرایا کہ کیا کہوں؟ستاروں کو ڈھونڈا تو اُن کا پتا نہیں، چاند کو تلاش کیا تو وہ غائب۔ سورج کی کرنیں بھی سڑک تک آکر رُک گئی تھیں۔اور میں پکارتے پکارتے تھک گیاکہ :’’ مجھے جانتی ہو؟ روز ساتھ کھیلتی تھیں، ذرا پاس آؤ اور بتاؤ کہ یہ معاملہ کیا ہے؟ مگر وہ ایک نہ سنتی تھیں۔ شام ہونے کو آئی تو ایک خوب صورت لڑکی دوکان کے پاس سے گزری۔ہماری طرف دیکھا۔پھولوں والے نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو اِس زور سے جھٹکا دے کر لڑکی کے سامنے رکھا کہ میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔
پھولوں والے نے کہا:’’بیٹی! دیکھو کیسے خوب صورت گل عبّاس ہیں۔ ایک آنے میں گلدستہ، ایک آنے میں ۔
لڑکی نے اِکنّی دی اور ہمیں ہاتھ میں لے لیا۔ اُس کے ہاتھ اَیسے نرم نرم تھے کہ یہاں آکر جان میں جان آگئی۔ لیکن تھوڑی دیر بعد شاید میں بے ہوش ہو گیا۔ اَصل بات یہ تھی کہ پانی نہیں ملا تھااور پیاس بہت لگی تھی ۔ لڑکی نے شیشے کے ایک گل دان میں پانی بھر کر ہمیں پلایا تو طبیعت ذرا ٹھیک ہوئی۔اور میں نے سر اُٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔میں ایک صاف کمرے میں تھا، جس میں کئی بستر لگے ہوئے تھے۔ایک طرف سے ایک بیمار لڑکی کی آواز سنائی دی۔’’ڈاکٹرصاحب! کیا میں اچھی نہیں ہوں گی، کیا اب میں کبھی چل پھر نہ سکوں گی؟کیا کبھی باغ میں کھیلنے نہ جا سکوں گی؟اور کیا اب کبھی گل عبّاس دیکھنے کو نہ ملیں گے؟‘‘ یہ کہتے کہتے بچی کی ہچکی بندھ گئی۔آنکھوں سے آنسو پونچھ کر کروٹ لی تو اس کو میں اور میرے ساتھی گل دان میں رکھے ہوئے دِکھائی دِیے۔ لڑکی خوشی سے تالیاں بجانے لگی۔ پاس جو نرس کھڑی تھی اُس نے ہمیں اُٹھا کر اس لڑکی کے ہاتھ میں دے دِیا۔ اس پیاری بچی نے ہمیں چوما۔ اُس کے گورے گورے گالوں میں ہماری سُرخی کی ذرا سی جھلک آگئی۔
اُس وقت سمجھ میں آیا۔ بیج کا گھر چھوڑ کر روشنی کی طرف بڑھنے کی غرض یہی تھی کہ ایک دُکھیاری بیمار بچی کو کم سے کم تھوڑی دیر کی خوشی ہم سے مل جائے۔