اچھا ادب نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھتا ہے بلکہ مستقبل کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں پر بھی ادب کی نظر ہوتی ہے۔ اس لیے دورِ حاضر میں ادب کی اہمیت اور ذمہ داری کو سمجھنا بھی بڑا کام ہے۔ شہزادہ تاج الملوک اپنے نابینا باپ کے اندھے پن کا علاج کرنے کے لیے پریوں کی شہزادی بکاؤلی کے باغ میں جاتا ہے اور وہاں سے بکاؤلی کا پھول حاصل کرتا ہے۔ ادب کے بازار میں ہمارا حال یہی ہے۔ اندھوں کی بستی میں ہم اچھے ادب کے لئے بھٹکتے پھرتے ہیں۔ کبھی تسطیر کے معیار کا کوئی رسالہ ہاتھ آتا ہے تو ہماری بھی حالت شہزادہ تاج الملوک جیسی ہوتی ہے جسے پریوں کے دیس میں بکاؤلی کا پھول ہاتھ آ گیا ہو۔ تسطیر کے پہلے دور سے میرا اور نصیر احمد ناصر کا ساتھ رہا ہے۔ پہلے دور کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔ تسطیر کے حوالے سے پہلی بار نصیر بھائی کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ اُس زمانے میں، مَیں ان کی خواب نظموں پر فدا تھا۔ آج بھی فدا ہوں۔ ان نظموں کی کیفیت عجیب تھی۔ سرشاری بھی، اُداسی بھی۔ رت جگے بھی، رقص بھی، سرور کی محفل بھی اور زندگی کے بوسیدہ ہوتے ہوئے شامیانے بھی۔ میں نے ایسے ہر رنگ کو محسوس کیا۔ تسطیر ادب کی ایک ایسی دُنیا کا کولاژ ہے، جس میں جدید و قدیم ہر طرح کے رنگ شامل ہیں۔ تسطیر کے دوسرے دور کی شروعات اس معاملے میں اہم ہے کہ ادب کے تعلق سے کئی اہم سنجیدہ سوالوں کو جگہ دی گئی ہے۔ صرف رسالہ نکالنا ادب کی خدمت نہیں، یہ نصیر احمد ناصر بخوبی جانتے ہیں۔ یہ گفتگو بھی ضروری ہے کہ ہم کس عہد میں جی رہے ہیں۔ کیسا ادب تخلیق کر رہے ہیں؟ شمارہ 5 میں مہمان اداریہ اس لحاظ سے کافی اہم ہے کہ صنوبر الطاف نے آج کے مشینی عہد کی حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے جو سوال اُٹھائے ہیں، ان پر غور کرنا ادب کے قاری کے لیے بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ ہم ڈیجیٹل عہد میں جی رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک دُنیا بدل گئی۔ اچھے برے کی تعریفیں بدل گئیں۔ صنوبر الطاف نے لکھا ہے کہ اگر فن کی اہمیت نہ ہوتی تو کفکا کی میٹامار فوسس صرف ایک کیڑے کی داستان بن کر رہ جاتی۔ لیکن فن، تجربے اور احساس کو آرٹ کی سطح تک پہنچاتا ہے۔ ہمارے آج کے نئے لکھنے والے فیس بک اور سوشل ویب سائٹس کی طرف چھلانگ تو لگا رہے ہیں لیکن ان میں بیشتر ایسے ہیں جو آرٹ کی اہمیت سے واقف نہیں۔ اُردو نظم اور تیسری لہر کے عنوان سے ڈاکٹر رشید امجد اور ڈاکٹر غافر شہزاد کی تحریر، بہت کچھ غورو فکر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ تسطیر کے پہلے دور میں بھی نظم اور نثری نظموں کے حوالے سے بہترین مکالمے سامنے آئے تھے۔ ان مکالموں کو کتاب کی صورت میں بھی سامنے آنا چاہیے۔ ان دونوں تحریروں میں زمانے کے ساتھ بدلتے منظرنامے اور خاص کر مستقبل کی طرف دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر غافر شہزاد نے بیسویں اور اکیسویں صدی میں پیش آنے والے واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے نظمیہ شاعری کو تیسری لہر قرار دیا ہے۔ اس تیسری لہر کا ذکر پچھلے شمارے میں نصیر احمد ناصر نے اپنے اداریہ میں کیا تھا۔ لمس رفتہ، جلیل عالی سے مکالمہ، ادیبوں کا بچپن، سفرنامہ، سفرنامچہ کے تحت جو تحریریں شامل کی گئی ہیں، وہ غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ افسانوں میں رشید امجد سے خورشید اکرم تک کئی بڑے نام شامل ہیں۔ سمیع آہوجہ کو میں اُردو زبان کا جیمس جوائز کہتا ہوں۔ انہیں پڑھنا آسان نہیں۔ آپ کو کئی مقام پر رُکنا اور ٹھہرنا ہوتا ہے۔ ان کی ہر کہانی میں اتنے شیڈس ہوتے ہیں کہ آپ کہانی مکمل کیجئے تو نئے اُفق روشن ہو جاتے ہیں۔ بیشتر نظمیں اس لائق ہیں کہ بار بار پڑھی جائیں۔ میں اس کامیاب شمارے کی اشاعت پر دِلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...